ہمارے ذہنی مریض حکمران

ہمارے حکمرانوں کارویہ ایسے بے حس، ضدی اور اکھڑمزاج بچے کی طرح ہے جو اپنی مرضی کی بات سنتا اور اپنی غرض سے کسی سے بات کرتا ہے اسے کسی کی تکلیف ،پریشانی اور دکھ درد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،ایسے بچے کو ماہر امراض ،نفسیاتی مریض یا Abnormal کہتے ہیں اور مرض کی شدت کی صورت میں اسے عام لوگوں سے دور رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

ملک میں حکومت سے وابستہ تقریباََ تمام ہی اہم اور قابل ذکر شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سب بھی تقریباََ نفسیاتی مریض ہی لگتے ہیں صدرمملکت آصف زرداری تو ڈیکلیئرڈ ذہنی مریض ہیں جن کے بارے میں ان کے اپنوں کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا جاچکاہے کہ وہ” ذہنی مریض“ ہیں ، یہ زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے آخری دنوں کی بات ہے جب عدالت میں ان کے(آصف زرداری) مقدمات زیر سماعت تھے اور وہ علاج کی غرض سے جیل سے سیدھا لندن چلے گئے تھے بعد ازاں انہیں صدر منتخب کرلیا گیا،اس عمل سے ان کے چاہنے والوں کی ذہنی صحت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ویسے تو ہمارے ملک کے بیشترسیاست دان بھی اپنے آپ کو انتہائی ذہین اورچالاک سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ایک دلیل سمجھی جاتی ہے بے وقوفی کی۔؟

ایسی صورت میں کوئی بھی یہ تبصرہ کرسکتا ہے کہ بیوقوف قوم کے پاگل ہی لیڈر ہونگے۔

ممکن ہے اس بات سے بہت سارے لوگ اختلاف کریں لیکن اگرغور کریںتو اندازہ ہوگا کہ واقعی یہ لوگ پاگل پن کی حد تک بے وقوف ہیں اور پھر بھی ہر ایک کو بیوقوف بنانے میں مصروف ہیں،ہمارے سیاست دانوں کی اکثریت کے پاس دولت اتنی ہے کہ ان کا پورا خاندان اگر صرف بیٹھ کر کھائے تو یہ ان لوگوں کی پوری زندگی کے لئے بہت ثابت ہوگی مگر دولت جمع کرنے کی ہوس انہیں اقتدار سے ہمیشہ ہی چپکے رہنے پر مجبور کردیتی ہے جسے یہ لوگ قوم کا مفاد کہتے ہیں،قوم روز مرتی اور روز جیتی کے مصداق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ دولت کے پوجاری پیسے کی لالچ میں جھوٹ ،بے ایمانی اور منافقت کو اپنا اصل زیور سمجھ بیٹھے ہیں ۔ یہ ہی توان کا پاگل پن ہے ،اپنے آپ کو مسلمان اور مسلمانوں کے لیڈر کہلانے والے یہ بے حس انسان اللہ کے عذاب کو جاننے اور دیکھنے کے باوجود اس سے نہیں ڈرتے اور ہر قدم پر جھوٹ ،ہر جملے میں منافقت اور ہر انداز میں مکاری ان کی زندگی کا اصل مقصد بن کر رہ گیا ہے ۔ جو اپنی زندگی کے اصل مقصد کو نہ جان سکے وہ کس حد تک پاگل اور بیوقوف ہوگا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

فی زمانہ دولت کی ہوس عام بات ہوگئی ہے لیکن دنیا بھر میں دولت کمانے کے جو طریقے رائج ہیں ہمارے ملک کی اشرافیہ اس سے ایک قدم آگے ہے بلکہ وہ اقتدار میں آتی ہی دولت اکھٹا کرنے اور باہر کے ممالک میں ڈپازٹ کرانے کے لیئے۔دنیا بھر کے لوگ انسانیت کی خدمت کے لیئے اپنے مذاہب کے مطابق اخراجات بھی کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ روایت بھی صرف عام افراد تک محدود ہے سیاست دانوں اور حکمرانوں کی اکثریت تو ملک کی سروسیز حاصل کرنے کے بدلے میں ٹیکس بھی ادا نہیں کرتی، ،بعض شخصیات کو تو بجلی اور ٹیلی فون کا بل جمع کرنے کی بھی عادت نہیں ہے اس طرح یہ ملک کے خزانے پر بھی بوجھ بنے ہوئے ہیںلیکن اپنے آپ کو عوام کا خادم کہتے ہیں،حالانکہ ملک اور قوم کی غلامی کے قابل بھی یہ نہیں ہیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی تو ایسا آمر یا جمہوریت کا چمپیئن آئے جو اس ملک میں ایسا قانون بنائے کہ کوئی بھی سیاست دان اور بیوروکریٹ ملک سے باہر سرمایہ منتقل نہ کرسکے اور اگر عام آدمی بھی یہ کرے تو اس سے جواب طلب کیا جائے کہ پہلے یہ تو بتاؤ کہ یہ دولت کہاں سے آئی اور اس پر کتنا ٹیکس ادا کیا؟

ایسا قانون جمہوریت کے دیوانے نہیں بناسکتے کیونکہ وہ تو اپنے ساتھی سیاست دانوں کے مفادات کی رکھوالی کرنے کے لیئے اقتدار میں آتے ہیںیہ کام اگر کوئی ہمارے ملک میں کرسکتا ہے تو وہ آمر یا ڈکٹیٹر ہی کرسکتا ہے چاہے اس کا تعلق آرمی سے ہو یا سول سروس سے یاعام شہری ہی کیوں نہ ہو۔

ایسا قانون کہ ملک کا پیسہ ملک میں خرچ ہو،اور ہر طرح کے چندے کی رقوم و عطیات بھی باہر نہ جاسکے کیونکہ چندے اور عطیات کی سب سے پہلے ہمیں اور ہماری قوم کو ضرورت ہے۔

لیکن کیا یہ میری خواہش پوری ہوسکتی ہے جو سیاست دا ن او ر حکمران اپنے مفادات کی خاطر ملک کی عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی کرنے پر اتر آئے ،عدلیہ کے احکامات ماننے سے انکار کردے اور اپنے ہی ملک کے اہم ترین ادارے کی ساکھ کو متاثر کرنے میں لگ جائے وہ حکمران ملک اور قوم کو مشکلات سے نکالنے والے قوانیں کیسے بناسکتے ہیں ؟ موجودہ حکمران تو موجودہ قوانین پر ہی عمل کرلیں تو ہی بہت بڑی بات ہوگی۔مگر یہ سب تو ذہنی مریض ہیں انہیں وہ ہی اچھا لگتا ہے جو ان کے مطلب کا ہولیکن ان ذہنی مریضوں کو عام افراد سے دور کون کرے گا
 
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165868 views I'm Journalist. .. View More