نہ جانے وہ رات کا کون ساپہرتھامیں نیندمیں مضطرب
ساہوکراٹھ بیٹھا بوجھل بوجھل بے ترتیب سانسوں کے ساتھ ایک نادیدہ سا احساس
ہوا کمرے میں کوئی اور بھی موجودہے یہ خیال آتے ہی شدیدسردی کے باوجودپورے
جسم کی مساموں سے پسینہ بہنے لگادماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ڈرتے
ڈرتے گردن گھماکرجائزہ لیاتوزیرو کے بلب کی روشنی میں کچھ دور کرسی پر ایک
ہیولہ سابیٹھادکھائی دیامیں تورات کو دروازہ مقفل کرکے سونے کاعادی
تھاپھریہ کون ہے ؟ کیسے کمرے میں داخل ہوا؟۔۔نہ جانے یہ کیامعمہ ہے؟میں
بیڈسے اٹھ کرکھڑاہوگیاآہستہ آہستہ اس کے قریب جاپہنچا اس کی صورت دیکھ
کرایک زوردار جھٹکاجیسے میں نے بجلی کی ننگی تاروں کوچھولیاہو کرسی پر
بیٹھا وجود ہوبہومیرا ہم شکل تھا اتنی زیادہ شباہت جیسے میں آئینے کے سامنے
کھڑا ہوں میں نے آنکھوں کو زور زورسے ملاپھراپنے بازو پر چٹکی کاٹی کہ
جوکچھ میں دیکھ رہاہوں حقیقت ہے خواب۔۔میں اس کے مقابل آکھڑاہوبڑی جرأت سے
ا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرپوچھا تم کون ہو؟
’’تم نہیں جانتے۔۔اس کے لہجے میں عجب پراسریت تھی
’’تمہاری آواز۔۔میں نے ہلکاتے ہوئے کہا یہ تو بالکل میرے جیسی ہے
’’وہ ہنسااورکرسی سے اٹھ کھڑا ہوا وہ کہہ رہاتھا میری صورت ۔۔آواز
اورعادتیں بھی تم سے بالکل سیم ٹوسیم ملتی ہیں۔حیرت سے میرامنہ کھلے کا
کھلا رہ گیامتعجب ہوکر میں نے پوچھ ہی لیا
’’یہ کیسے ممکن ہے؟
’’ارے نادان۔۔وہ بولامیں توتیراعکس ہوں۔تصویرکا دوسرارخ وہ
بولاتوپھربولتاہی چلاگیاتم مجھے اپنا ہمزادبھی کہہ سکتے ہو
’’ ہمزادمیں بڑبڑایا
’’ وہ عجب اندازسے کہنے لگاتم صحافی ہو نادوسروں کے انٹرویو کرتے پھرتے ہو
میں نے سوچاآج تمہاراانٹرویوکرلوں دیکھوں تم خودکتنے پانی میں ہو؟
’’میرانٹرویو۔۔میں کون سااہم ہوں میرالہجہ کھوکھلا تھا
’’ اﷲ تعالیٰ کی ہرتحلیق اہم ہے ہمزادنے کسی دانشورکی طرح جواب دیا
مگرانسان نہیں جانتا۔۔نہیں مانتا وہ دوسروں کو حقیرسمجھتاہے شاید اسی لئے
خسارے میں ہے انسان توضمیرکی آواز دبانے پربھی قادرہے یہ عادت بن جائے تو
ضمیر ملامت کرنابھی چھوڑدیتاہے کیا تم یہ بھی نہیں جانتے ۔
’’جانتاتو ہوں میں نے کہامیں بولاتویوں لگا جیسے مجھے اپنی آواز اپنی نہ
لگی
’’ تم بھی کالم لکھتے ہو ہمزاد کہنے لگا بڑی بڑی باتیں کرتے ہو تم نہیں
جانتے دوسروں کو نصیحت کرنا بڑا آسان ہوتاہے اور عمل کرناانتہائی مشکل
اوہنہ دوسروں کو نصیحت۔۔خودمیاں فصیحت۔۔کیاایسی باتیں کرتے اورلکھتے وقت
کبھی ضمیرنے جھنجوڑکر نہیں کہا یہ منہ اور مسورکی دال۔
’’پھرکیاکروں؟میں تو عام آدمی کی بات کرتاہوں۔اشرافیہ کو جھنجوڑنے کی کوشش
کرتاہوں،لوگوں کااحساس جگانے کے لئے کوشاں رہتاہوں یہ میرے اندرکے دکھ ہیں
جو خون ِجگرمیں انگلیاں ڈبوکرلکھتاہوں کہ کسی کے دل میں اترجائے میری
بات۔لیکن عجب بے حس معاشرہ ہے بیشتر پرکوئی اثرہی نہیں ہوتا۔
’’پھرکیوں لکھتے ہو ہمزادنے وہ سوال کرڈالا جس کی مجھے کم ازکم توقع نہیں
تھی ۔یہ تو انرجی ویسٹ کرنے والی بات ہوئی۔
’’کسی پراثرہونہ ہو میں نے پرعزم اندازمیں جواب دیا سوئے لوگوں
کوجگانے،احساس کی شمع جلانے اورمعاشرے کی منافقت کو بے نقاب کرنے کافریضہ
ہمیشہ انجام دیتارہوں گاجب اور جہاں ظلم ہوگااس کیخلاف آوازبلندکرنا میری
زندگی کا حاصل ہے۔
’’ تم تو کبھی شعربھی کہتے رہے ہو۔۔ہمزادنے پھرسوال کرڈالا ۔۔پھرمشاعروں
میں جاناکیوں ترک کردیاکیادادنہیں ملتی تھی۔
سچی بات بتاؤں میں نے بڑے سپاٹ اندازمیں جواباًکہاجتنی بے ادبی میں نے ادب
میں دیکھی ہے کہیں اور نہیں حددرجہ منافقت۔۔اورپھر جتنے سامع اتنے ہی شاعر
ہرکوئی اپنی لابی،اپنے گروپ کی خوشنودی کے لئے واہ واہ میں لگارہتاہے یہ
کوئی ادب کی خدمت نہیں۔۔ویسے اب ہرجگہ یہی حال ہے میں نے جبہ ٔ فضیلت پہنے
کئی مذہبی رہنماؤں کوبھی دیکھاہے جوپوسٹرمیں محض اپنے نام کا پروٹوکول نہ
دیکھ کر سیخ پاہوکرلڑنے مرنے پراترآتے تھے۔ہمزادتمہیں کیا بتاؤں آج کے
انسان کے چہرے بناوٹی اور سینے منافقت کی دولت سے مالا مال ہوچکے ہیں اس
ماحول کے باعث میں تو مردم بیزارہوگیاہوں اسی لئے مشاعروں میں ہی نہیں
محافل میں جانے سے بھی گریزاں ہوں شایدمیں اس صدی کابندہ نہیں ہوں مجھ جیسے
سپران فٹ کو 200-100سال پہلے اس جہاں سے گذرجانا چاہیے تھا آخرکب تلک ہم
ظلم کی حکمرانی ،غریبوں کے حالات دیکھ کر جلتے،کڑھتے اور سسکتے رہیں آخرکب
تلک؟
‘‘تمہاری باتیں فرارکابہانہ ہے ہمزاد غرایا اس کافیصلہ کرنے والے تم کون
ہوتے ہو کہ میں اس صدی کا بندہ نہیں ہوں۔لگتاہے حالات کے سامنے تم نے
ہتھیار ڈال دئیے ہیں اس کا مطلب جانتے ہو۔۔نہیں جانتے تو میں بتاتاہوں تم
یہ کہنا چاہ رہے ہوتم ظالموں،انسانیت دشمنوں،بے رحم قاتلوں،معصوم بچوں کے
ساتھ درندگی کرنے والے بھیڑیوں سے ہار مان چکے ہو۔
’’یہی سمجھ لو میں نے بے بسی سے جواب دیا
’’اس کا صاف صاف مطلب ہے تم مایوس ہوچکے ہوہمزادکے لہجے میں بڑاکرب تھاکیا
تم نہیں جانتے مایوسی گناہ ہے تمہاراطرزِ عمل بتارہاہے کہ تم ایمان کے
تیسرے درجے سے بھی نیچے گرگئے ہو۔
’’میں نے ہمیشہ اپنی شاعری،کالموں،مضامین میں انسانیت کی درخشاں روایات
کواجاگرکرنے کی کوشش کی میں نے ایک آہ بھرکرکہامیری تمام تحریروں کا موضوع
انسان ہے قرآن میں بھی انسان کو مخاطب کرکے اﷲ تعالیٰ نے زندگی گذارنے کے
درخشاں اصول بتائے ہیں۔
ہمزاد کہنے لگا حالات سے فرار جواں مردی نہیں ایساصرف بزدل کرتے ہیں مشکلات
کا مقابلہ کرنا ہی زندگی کی علامت ہے جسے یقین نہ آئے تاریخ کی کتابوں کی
ورق گردانی کرکے دیکھ لے اﷲ کے تمام انبیاء کرام،دنیا کی سب نامورشخصیات،
کوجن مشکلات کا سامناکرناپڑا ہمارے حالات تو ان کے اشراشیربھی نہیں بڑی بڑی
باتیں کرنے والے یہ بھول گئے کہ کالی سیاہ راتوں میں جب گھپ ٹوپ اندھیرا
چھاجاتاہے تو دل دہل دہل جاتے ہیں لیکن عین اسی وقت اچانک کوئی جگنو آن
نکلے تو ماحول جگمگ جگمگ روشن روشن ہوجاتاہے حالانکہ ابھی سورج نہیں
نکلا،رات باقی ہے صرف ایک ننھے سے پرندے جگنونے کالی سیاہ رات کا سینہ
چیرکررکھ دیاہے انسان توپھر اشرف المخلوقات ہے اسے مایوسی زیبا نہیں۔
|