ہندوستان ایک ایسا خطہ ِ ارضی تھاجو بت پرستی کا
گہوارہ مانا جاتا تھا۔ مکہ کی وادی کے بعد یہی سب سے بڑی کفرو الحاد کی سر
زمین تھی جس میں ہر شہ کیلئے علیحدہ خدا تراش لیا گیا تھا حالانکہ کرشن اور
رام کی تعلیمات بت پرستانہ سوچ کی حامل نہیں تھیں۔جب تعلیمات و احکامات بدل
جاتے ییں تو ایسے ہی ہوا کرتا ہے۔ہندستان میں کہیں بادل کا خدا تھا تو کہیں
اگنی دیوتا تھا،کہیں انصاف کی دیوی تھی تو کہیں جنگ کا دیوتا تھا ۔ غرضیکہ
خداؤں کی ایک طویل فہرست تھی جس میں انسانی جان جکڑی ہوئی تھی اور ان کے
پاس مورتیوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔
قرن ہا قرن سے لوگ بت پرستی کی لعنت میں مبتلا تھے جبکہ اصنام پرستی اس خطہ
کی مخصوص پہچان بن چکی تھی ۔ کروڑوں لوگ اس مذہب کے پیرو کار تھے اور تو
حیدی روح سے بالکل نا آشنا تھے۔انھیں خدائے واحد کا تعارف ہی نہیں ہوا تھا
اسی لئے یہاں کے باسی مٹی کی مورتیوں کو خدا سمجھ کر ان کی پرستش کر تے اور
اپنے من کو سکون و شانتی بخشتے تھے ۔اصنام کے پجاری دستِ انسان سے تراشیدہ
مورتیوں کے سامنے اپنی حا جات کی برو مندی کیلئے سجدہ ریز ہوتے تھے اور حد
یہ تھی کہ انھیں اس پر کوئی ندامت محسوس نہیں ہوتی تھی کہ وہ بے جان
مورتیوں کو خدئی مقام عطا کرکے ان کے سامنے سجدہ ریز ہورہے ہیں ؟ یہ سچ ہے
کہ جب انسان اپنے شرف ،مقام، اوج،رفعت اور بلندی سے گر جاتا ہے تو پھر وہ
ایسی ہی حرکات و سکنات کا سزاوار ہو اکرتا ہے۔تذلیلِ انسان اس سے بڑھ کر
اور کیا ہو سکتی ہے کہ انسان مٹی کی مورتیوں کو خدا بنا کر ان کی پرستش
کرنے لگ جائے اور اس کا دل اس کے خلاف بغاوت پر آمادہ نہ ہو؟ انسانیت پر
اسلام کا یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اہلِ جہاں کو خدائے واحد کا نہ صرف
درس دیا بلکہ انسانیت کی رہنمائی اس منزل کی جانب کی جس میں حاکمیت صرف
خدائے واھد اور خالقِ کائنات کو حاصل ہوتی ہے۔بقولِ اقبال۔( سروری زیبا فقط
اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے ۔،۔ حکمران ہے اک وہی باقی بتانِ آذری ۔) ۔،۔
منتیں مانگنا سدا سے انسانوں کا وطیرہ رہا ہے۔مناجات، خود کلامی اور شکوہ
شکائت انسان کا خاصہ رہا ہے ب۔یہ انسانی جبلت ہے کہ انسان کسی بلند و بالا
ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہو نا چاہتا ہے اور اس کے جا ہ و جلال سے اپنی ذات
میں طہارت و پاکیزگی کے رنگ بھرنا چاہتا ہے ۔ کوئی ایسی ہستی تو ہونی چائیے
جس کے سامنے انسان رو رو کر اپنا درد بیان کر سکے اور وہ ہستی خدا ئے واحد
کے علاوہ کوئی دوسری نہیں ہو سکتی ۔ نیتشے جیسا عظیم فلاسفر،ادیب اور مفکر
بھی زندگی بھر ایسی ہی بلند و بالا ہستی کی تلاش میں رہا لیکن عیسائیت کے
نظریہ تثلیث کی باطلانہ سوچ نے اسے عیسائیت سے بر گشتہ کر دیا اور یوں اس
کی تلاش بے سود رہی ۔کوئی انسان کتنا بھی بڑا کیوں نہ بن جائے وہ خدا تو
نہیں بن سکتا لہذا اسے خدائی مقام عطا کر کے اس کے سامنے سجدہ ریزی کا سوال
ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خدا خدا ہی ہوتا ہے اور کوئی اس کی مثل نہیں ہوتا لہذا
اسی کی پر ستش کی جاتی ہے۔ ہندو مت میں کسی بلندو بالا ہستی کا کوئی تصور
نہیں تھا بلکہ اس کے ماننے والے چھوٹے چھوٹے خداؤں کو بھگوان بنا کر اپنی
حاجات کی برومندی کی مشعلیں روشن کرتے تھے ۔ مشرکین مکہ بھی تو یہی کیا
کرتے تھے ۔ لات و منات اور حبل کے سامنے اپنی آرزؤوں کی فال نکالتے اور ان
کی تکمیل کی خاطر ان سے مدد مانگتے تھے ۔یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہوتی تھی کہ
اگر بار آور ہو گئی تو دیوتاؤں کے وارے نیار ے نہیں تو اپنی ناکامی کو
دیوتا کی ناراضگی کہہ کر دل کو طفل تسلی دے لی جاتی تھی۔فتح مکہ کے تاریخ
ساز دن پر جب کعبہ میں سجائے گے سارے بتوں کو سرکارِ دو عالم ﷺنے اپنے
مبارک ہاتھوں سے زمین بوس کیا تو لوگ خوف و ہراس کا شکار تھے کہ کہیں
دیوتاؤں کی ناراضگی پوری بستی کو جلا کر خاک نہ کر دے ۔ ایک بجلی کوندھے
اور سارے کے سارے افراد ڈھیر ہو جائیں ۔جب دیوتا باہر گرد و غبار میں میں
اوندھے منہ زمین پر گرا پڑا ہو تو پجاریوں کا خوف زدہ ہونا بآسانی سمجھا جا
سکتا ہے۔ صدیوں سے پوجا کرنے والے پجاریوں کی نظر سے دیکھیں تو ان کی کیفیت
کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں ہو نا چائیے۔ کئی دنوں تک مشرکانہ فکر کے
حامل باشندے اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ دیوتاؤں کی ناراضگی آخر کار
مسلمانوں کی حیات کو سلب کر لے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہونا تھاکیونکہ
پتھروں کی بے جان مورتیوں میں اتنی تاب کہاں تھی کہ وہ حق پرستوں اور زندہ
انسانوں کو کوئی گزند پہنچا سکیں۔اندھی عقیدت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے
دیوتاؤں کے ناموں سے جڑی عقیدت کی وجہ سے کسی چمتکار کا منتظر ہو جاتا ہے
۔وہ ڈر ہوا اور سہما ہوا رہتا ہے کیونکہ دیوتا کا خوف اس کی روح پر قابض ہو
چکا ہو تا ہے۔سچ یہی ہے کہ جب روح اور دل و دماغ انسانی اعمال کا ساتھ نہ
دیں توانسان جراتِ اظہار سے محروم ہو جاتا ہے۔،۔
بقولِ اقبال۔ (بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں ۔،۔ جو ضربِ کلیمی نہیں
رکھتا وہ ہنر کیا)
چشمِ تصور سے دیکھتا ہوں تو محوِ حیرت رہ جاتا ہوں کہ وہ خطہ ِ زمین جس کی
ایک ایک گلی،محلہ اور شہر شرک و بت پرستی سے آلودہ تھا لیکن چند با صفا
افراد کی آمد نے پورے کا پورا منظر بدل کر رکھ دیاتھا۔یہ سچ ہے کہ اﷲ تعالی
کسی بستی کو شرک و بت پرستی میں بے یارو مدد گار نہیں چھوڑتا لہذا اسلام کی
آمد کے بعد اس خطہِ زمین کی طرف باصفا انسانوں کی ہجرت حکمِ خدا وندی کا
مظہر تھی ۔چند با صفا انسان خطہ ِ ہند کی جانب عازمِ سفر ہوئے اور یہاں کے
لوگوں کو توحیدی سوچ سے روشنا س کروایا۔عزمِ مصمم ہو تو ناممکنات ممکنات
میں بدل جاتی ہیں۔اسلام کی عالمگیر سچائیوں کی ترویج کی خاطر ا ن با صفا
افراد نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہنے کا مشکل فیصلہ کیا ۔ان کا مقصدِ
اولین انسانوں کو کفرو الحاد کی دلدل سے نکالانا تھا تا کہ وہ انسانی تخلیق
کے جوہر سے آشنا ہو جائیں۔کتنا کھٹن تھا وہ کام جو ان کے سپرد کیا گیا تھا
، کتنی مشکل تھی وہ منزل جہاں انھوں نے پہنچنا تھا۔کروڑوں بت پرستوں کے
درمیان چند تو حید پرست افراد جو اس علاقے سے واقف نہیں تھے، جو وہاں کی
رسومات سے نا بلد تھے،جو وہاں کے کلچر سے نا آشنا تھے ، جو وہاں کے رہنے
والوں کی زبان سے نا واقف تھے ،جو ان کے کھانے پینے اوراٹھنے بیٹھنے کے
آداب سے کوسوں دور تھے،جن کا رہنا سہنا اور اٹھنا بیٹھنا ان سے تال میل
نہیں رکھتا تھا، جن کی مجالس اور جن کے دوست احباب بالکل علیحدہ تھے اور
جہاں کا موسم اور فضا اجنبی تھی۔ ایک ایسا خطہ ِ ارضی تھا جہاں ان کا کوئی
رشتہ دار اور قرابت دار نہ تھا اور انتہا تو یہ تھی کہ عوام الناس میں گھل
مل جانے کیلئے ان کی زبان بھی اجنبی تھی لیکن پھر بھی سب کچھ توحیدی سوچ
میں رنگاگیا ۔فارسی ناطق کو ہندی ناطق سے رابطہ کرنا تھا جو جوئے شیر لانے
کے مترادف تھا۔لیکن اس کے باوجود یہ اہلِ ایمان لوگ ہندوستان کے کونے کونے
میں پہنچے اور کفرو الحاد کے قلعے کو زمین بوس کر کے دم لیا ۔ان کے خلاف
بڑے بڑے محاذ قائم ہوئے ،ان کے خلاف بڑی بڑی سازشیں ہوئیں ، ان کے خلاف بڑے
بڑے جوگیوں اور پنڈتوں نے جادو ،ٹونے اور کرتبوں کا سہارا لیا لیکن ان با
صفا افراد کے قدم نہ ڈگمگائے کیونکہ ان کا من توحیدی روشنی سے مرصع تھا۔جن
کے ساتھ خدا ہوتا ہے انھیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکتا۔خدا ئی مدد سے وہ
جہاں بھی گئے عوام الناس نے ان کی راہ میں اپنی پلکیں بچھا دیں اور انھیں
عزت و احترام کی ایسی مسند سے نوازا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔قرن ہا قرن سے لوگ
ان کے آستانوں پر حاضر ہو کر ان کی پاکیزہ سوچ ،بے داغ کردار اور بلند ہمتی
کو سلام پیش کرتے ہیں۔نامی گرامی بادشاہوں کے نام توصفحہ ِ ہستی سے مٹ گے
لیکن ان با صفاافراد کے نام کا ڈنکا آج بھی پوری شان سے بج رہاہے۔بقولِ
اقبال ( ولائت ، پادشاہی،علمِ اشیاء کی جہاں گیری ۔،۔ یہ کیا ہیں فقط اک
نقطہِ ایماں کی تفسیریں) ۔، ۔
|