قدرت نے اپنے انمول خزانے خوب یہاں لٹائے، روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ - آخر ماجرا کیا ہے؟

image
 
1975-76 کی بات ہے میں ایک بستی کے ایک محلے میں گیا تو حیران رہ گیا تھا کہ وہاں ہر خاندان کا سربراہ یوکرائن سے واقف تھا-
 
بستی کا نام تھا اسٹیل ٹاؤن جو کراچی میں‌ پاکستان اسٹیل مل کے ملازمین کے لئے بنائی گئی تھی- چونکہ اسٹیل مل روس کے تعاون سے بنائی جارہی تھی اس لئے بہت سے کارکن اور انجینیئر فولاد سازی کی تربیت حاصل کرنے کے لئے روس گئے تھے اور یوکرائن سے بخوبی آگاہ تھے جو روسی یہاں تعمیر کے دوران مدد کرنے آئے تھے ان کی بھی کچھ تعداد کسی نہ کسی لحاظ سے یوکرائن سے تعلق رکھتی تھی-
 
آج جب روس اور یوکرائن کا مسئلہ دنیا بھر کے لوگوں کی زبان پر ہے اور یہاں ہمارے ملک میں بھی لوگ باگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اے بھائی کچھ تو بتاؤ کہ ماجرا کیا ہے- اس بد امنی کی دوا کیا ہے؟
 
image
 
جو میرے ساتھی یوکرائن گئے تھے ان سے اس سلسلے میں تبادلہ خیال ہوا- پاکستان اسٹیل مل کے سابق ڈپٹی چیف انجینئر جناب شفیع حیدر دانش بھی ان میں سے ایک ہیں- وہ 1976 میں گئے تھے اور اسٹیل کی صنعت پر پورا عبور رکھتے ہیں- ان کا ادبی ذوق نہایت اعلیٰ درجے کا ہے اور ادبی اور سائنسی علوم پر مشتمل ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں- پاکستان آکر انہوں نے روس کے بارے میں اپنے مشاہدات و تاثرات ایک سفر نامے کی صورت میں چھاپے- اس میں یوکرائن کے بارے میں بھی بات کی ہے- سفر نامے کا نام ہے “ دریچہ ہائے دیار غیر “ -
 
اس سفر نامے کی تعریف ڈاکٹر پیر زادہ قاسم نے بھی کی ہے- شفیع حیدر دانش کہتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ روس کی دوسری بڑی ریاست تھی-
 
زراعت کے معاملے میں یوکرائن کو خوش نصیب کہہ سکتے ہیں- یہاں کی سیاہ مٹی زرعی لحاظ سے بہت زر‌خیز ہے- یہاں کا موسم بھی زراعت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے- کھیتوں ‌میں جائیں تو سیاہ زرخیز مٹی کی جادوگریاں بھانت بھانت کے روپ دھارے دور دور تک جلوہ گر نظر آتی ہیں - ایک جانب سبزہ ہی سبزہ مختلف سبزیوں کو جلو میں لئے آنکھوں کو تراوٹ بخشتا ہے اور دل کے لئے فرحت و راحت کا باعث بنتا ہے تو دوسری طرف گندم کی فصل اپنے سبز رنگ کو الوداع کہتی ہوئی سنہری رنگ کا لبادہ اوڑھنے کی تیاری کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے- یہ سورج کی روشنی کو منعکس نہیں کرتی بلکہ جذب کرتی ہے اور قدرت کی ایک شان سے آشنا کرتی ہے- عقب میں تا حد نگاہ انگور کی بیلیں‌ پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں جس میں لگے ہوئے رسیلے انگور کے گچھے دل کو للچاتے تھے- زراعت میں یہ علاقہ خوب آگے بڑھا ہوا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی یہاں سے گندم اور پھل برآمد کئے جاتے ہیں- سورج مکھی کی بھی کاشت کی جاتی ہے-
 
شفیع حیدر دانش اپنے سفر نامے میں لکھتے ہیں کہ ریاست یوکرائن میں بے شمار معدنیات بڑی وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں - قدرت نے اپنے انمول خزانے بڑی فیاضی سے یہاں لٹائے ہیں- کوئلے اور لوہے کے قدیم ذخائر کے علاوہ یوکرائن میں تیل، گیس، مینگانیز، نکل گریفائٹ، باکسائٹ، سنگ مرمر اور دوسری کئی قیمتی معدنیات کے ذخائر موجود ہیں اور انہیں برآمد کر کے خوب زرمبادلہ کمایا جاتا ہے-
 
image
 
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں پاکستان کی اسٹیل مل کے سب سے بڑے گودام میں کھڑا تھا جہاں‌ مختلف بھٹیوں کے لئے درآمد شدہ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں- ایک جگہ میں چونک گیا اور حیرت سے ایک کریٹ کی اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا ہم بھارت سے بھی مال خریدتے ہیں-مینیجر صاحب نے میری حیرت پہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے منفی میں جواب دیا اور پوچھا کہ یہ سوال میرے ذہن میں کیوں آیا- میں نے پھر اسی کریٹ کی طرف اشارہ کیا کہ اس پر دیکھو لکھا ہوا ہے "اڑیسہ " -اڑیسہ ہندوستان کے ایک شہر کا نام ہے -مینیجر صاحب ہنسے اور کہا کہ یہ اڑیسہ نہیں ہے بلکہ "اڈیسہ " ہے- یوکرائن کا ایک مقام ہے-
 
یہاں کی معدنیات سے خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے- کوئلے اور فولاد کی صنعتوں کو جدید سے جدید تر بنانے کی سعی کی گئی ہے- اس کے نتیجے میں یوکرائن میں پاور انجینیئرنگ، غیر فولادی دھات کی صنعتیں، جہاز سازی اور گاڑیوں کے کارخانے اپنے پورے جوبن پر کارگردگی دکھا رہے ہیں- اس کے علاوہ خودکار آلات کمپیوٹر کیمیاوی اشیا اور ٹیلی ویژن، شیشہ سازی وغیرہ نے اپنا ایک الگ مقام بنایا ہوا تھا-
 
زراعت کے یہ اہداف، صنعتوں کی یہ اونچی اڑان ایسے ہی نہیں حاصل ہو جاتی جب تک تعلیم پر توجہ نہ دی جائے سو یوکرائن ان معاملات میں کسی سے کم نہیں- شفیع حیدر دانش لکھتے ہیں کہ تعلیم کے فروغ کے لئے اس زمانے میں یوکرائن میں تیس ہزار کے قریب لائبریریاں تھیں اور ہر سال اس ریاست سے 120 ملین کتب شائع ہوتی تھیں- یوکرائن کی اچھے معیار تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں روس کے بہترین سائنس دان، انجینیئر اور ماہر طبیعات زیادہ تر یوکرائن کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے-
 
جناب شفیع حیدر دانش اپنے روس کے سفرنامے میں لکھتے ہیں کہ اگر یوکرائن کے دارلحکومت "کیف “ کو اگر اس علاقے کی وادی کشمیر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا- جب دریائے دنیپر کی شفاف اور نقرئی لہریں -کیف - شہر کو دو لخت کرتے ہوئے گزرتی ہیں اور سر سبز پہاڑی سلسلے نظاروں کو اپنی آغوش میں لے کر موسم کے سہانے رنگ بکھیرتے ہیں تو سارا ماحول ایک خوبصورت سی تصویر سامنے بنا دیتا ہے- باغات ' لہلہاتے کھیت اور زندگی سے بھرپور مرغزاروں کے اس شہر کو "باغات کا شہر " بھی کہتے ہیں-
 
یوکرائن کی تاریخ کے سلسلے کی کڑیاں بہت دور تک چلی جاتی ہیں- قدیم روسی قوم نے یہیں جنم لیا تھا- یہ قدیم سلاوک قبائل کی آماجگاہ تھا- تیرھویں صدی عیسوی کے بعد یہ علاقہ مسلسل غیر ملکی حملہ آوروں کی زد میں رہا- پہلے تاتاری مغل حملہ آور ہوئے- اس کے بعد ترکوں نے فتوحات حاصل کیں- پھر کریمیائی تاتاریوں نے زیر کیا- یہ پولینڈ اور لیتھونیا کا بھی محکوم رہا- آخرکار سال 1654 عیسوی میں روس کا حصہ قرار پایا- پہلی عالمی جنگ میں اس کے بیشتر حصے جرمنی کے قبضے میں آگئے- 1922 میں جنگ عظیم کے بعد یہ دوبارہ روس کا حصہ بنا- یوکرائن کے دارلحکومت کیف اور ماسکو کے درمیان 670 کلومیٹر کا فاصلہ ہے- دوسری عالمی جنگ میں یہ پھر جنگ کے اثرات کی لپیٹ میں آیا- کیف کی سیاسی اور معاشی اہمیت کے سبب یہ ہٹلر کے غاصبانہ منصوبوں میں ایک اہم مقام کے طور پر رکھا گیا تھا- اس شہر کے جیالے باسیوں نے نازیوں کا بہت ہی بہادری سے مقابلہ کیا اور 73 دن تک محاصرہ برقرار رکھا لیکن آخر کار شکست سے ہم کنار ہوئے اور شہر کیف پر نازیوں کا قبضہ ہو گیا- جرمنی کی شکست کے بعد کیف شہر نازیوں کے چنگل سے آزاد ہو کر دوبارہ یوکرائن کا حصہ بنا-
 
image
 
یوکرائن 1920ء سے 1991ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ نوے کے عشرے میں جب روسی حکومت میں دراڑیں پڑنی شروع ہوئیں تو یوکرائن نے فائدہ اٹھایا اور 1991ء میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھرا-
 
آجکل کا قضیہ یہ ہے کہ کچھ علحیدگی پسند عناصر نے یوکرائن سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا تو روس نے انہیں آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا ہے- حالیہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی تھی جب دو روز قبل روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی اور وہاں اپنی فوج داخل ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔
 
(میں اس کالم کی تکمیل میں تعاون کے لئے جناب شفیع حیدر دانش کا دلی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب کے حوالے دینے کی اجازت دی- انہوں نے اپنی کتاب میں یوکرائن کے دارلحکومت کا نام ‘کیو “ لکھا ہے - میں نے آج کل کا مروجہ تلفظ “کیف “ استعمال کیا ہے - دراصل انگریزی میں یہ لفظ "Kiev" ہے - روسی انگریزی حرف “وی“ کا تلفظ “ف“ سے ہی کرتے ہیں)
YOU MAY ALSO LIKE: