یوگی جی کا برہما گیان اوردوسرے مرحلے میں دوہری مار

یوگی جی تو ابھی سے سمجھداری کی باتیں کرنے لگ گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی فتح سے کچھ نہیں سیکھتا بلکہ پڑھا ہوا سبق بھول کر آسمان میں اڑنے لگتا ہے۔ لیکن جب ہار دکھائی دیتی ہے تو عقل ٹھکانے آتی ہے ۔ یوگی جی نے اپنی تازہ صفائی میں کہا کہ 80/20 کا بیان کسی مذہب یا طبقہ کے خلاف نہیں تھا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ کسی بھی سماج میں بیس فیصد مخالف ہوتے ہیں مگر اسیّ فیصد لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ یہ بات کوئی اور کہتا تو شاید لوگوں کا دھیان فرقہ پرستی کی طرف نہیں جاتا مگر جس شخص کا اوڑھنا بچھونا ہندو مسلم کا کھیل ہواگر وہ بولے انسان وہی سوچے گا جس کی یوگی جی تردید کررہے ہیں۔ ویسے یوگی جی 15/85 یا 25/75 بھی کہہ سکتے تھے ۔ اتر پردیش میں اگر مسلمانوں کی آبادی اگر 20 فیصد نہیں ہوتی تو 80/20 میں بھی کوئی قباحت نہیں تھی لیکن خیر اب یوگی جی کو برہما گیان پراپت (معرفت )ہوگیا ہے اور کہہ رہے ہیں تو مان لیتے ہیں (ترمیم کے ساتھ)کہ ؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ہم کو بہت ناگوار گزری تھی

آج کل یوگی کے ساتھ ساتھ مودی جی کا انداز بھی بدلا ہوا ہے ۔ سہارنپور میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ مظلوم مسلم خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں اور وہ انہیں ویڈیو بنابنا بھیج رہی ہیں جس میں مودی مودی کا نعرہ ہوتا ہے۔ کانپور دیہات کے اندر انہوں یہ فرما دیا کہ پچاس فیصد مسلم خواتین نے بی جے پی کو ووٹ دینے کا من بنالیا ہے۔ پہلی سوال تو یہ ہے کہ علم غیب انہیں کیسے حاصل ہوگیا؟ اور دوسراانہیں اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہندو سماج کی رضا جوئی کی خاطر انہوں نے کشمیر کی دفع 370 کو ختم کردیا۔ سپریم کو رٹ سے فیصلہ کروا کر بابری مسجد کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے رام مندر کا شیلا نیاس اور مندرکی تعمیر شروع کروادی ۔ کاشی وشوناتھ کاریڈور کا افتتاح کرنے گئے تو گنگا میں ڈبکی لگا کر پاپ دھولیے پھر بھی ہندو سماج کو سمجھانے منانے میں ناکام رہے آخر وہ چاہتا کیا ہے؟
مسلمانوں کو رسوا کرنے کی خاطر سی اے اے کا قانون بناکرتفریق وامتیازکا مظاہرہ کیا۔ این آر سی کی دھمکی دے کر مسلمانوں کے لیے عقوبت خانے تعمیر کروائے۔اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو لباس سے پہچان کر فسادی قراردیا۔ دہلی میں فساد کرواکر انتخابی شکست کا انتقام لیا۔ این آر سی کی تحریک میں کام کرنے والے ایک ایک کارکن پر دہلی کے فساد کی سازش کا جھوٹا الزام لگا کر این ایس اے جیسے قانون کے تحت گرفتارکیا ۔ شرجیل امام ، صدیق کپنّ اور ڈاکٹر کفیل احمد کو بلاوجہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا ۔ ہجومی تشدد پر چپیّ سادھے رہے اور فرضی انکاونٹر بھی جاری رہا ۔ لوجہاد کے قوانین بناکر مسلمانوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی گئی ۔ تبدیلیٔ مذہب کا ظالمانہ قانون بنواکر مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم جیسے بےقصور لوگوں کو پابندِ سلاسل کیا ۔ اتنا سب کرنے کے باوجود ہندو رائے دہندگان کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکی اورمسلمانوں کے آگے ہاتھ پسارنے کی نوبت آن کھڑی ہوئی۔ غالب نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا(ترمیم کی معذرت کے ساتھ) ؎
ووٹ کس منہ سے مانگوگے مودی
شرم تم کو مگر نہیں آتی

اتر پردیش کے مسلمان جنہیں حاشیے پر بھیج دیا گیا تھا اب مرکز میں آگئے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں جہاں پولنگ ہوئی اس کے اندر بی جے پی کا سب سے بڑے گڑھ (صاحب آباد) غازی آباد میں سب سے کم 52%ووٹ پڑا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بی جے پی کے رائے دہندگان میں کس قدر مایوسی تھی ۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے اکثریتی علاقہ شاملی میں سب سے زیادہ 69% اور مظفر نگرمیں 65% فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا جبکہ اوسط 60%تھا۔ مسلمانوں کےاس جوش و خروش نے بی جے پی کے ہاتھوں سے طوطے اڑا دیئے اور اب یوگی اور مودی کو مسلمان یاد آنے لگے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں اکھلیش یادو نے جینت چودھری کے ساتھ مل کر زبردست بلہ بازی کی اور بی جے پی کی گیند پر ایسے شاٹ لگائے کہ گیند اسٹیڈیم سے باہر چلی گئی۔اس کے بعد دوسرا مرحلے میں یوپی کے 9 /اضلاع کے اندر رائے دہندگی ہوئی اور 55 سیٹوں پر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ای وی ایم مشین میں بند ہوگیا۔

پہلے مرحلے کی طرح اس بار بھی 60 فی صدووٹنگ ریکارڈ کی گئی ۔ یوپی کے امروہہ، بریلی، بجنور، بدایوں، مرادآباد، رام پور، سہارنپور، سنبھل اور شاہجہاں پور ضلعوں میں انتخاب ہوا اور یہ بھی مسلمانوں کی کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ یہاں بھی مسلمانوں کی آبادی اور وہاں پڑنے والے ووٹ سے صاف ظاہر ہے کہ انہوں نے بی جے پی کو سبق سکھانے کی خاصی تگ و دو کی ہے ۔ مرادآباد مسلمان (51%)اورووٹنگ 64.52% اسی طرح رام پورمیں بھی (51%)مسلمان اور ووٹ پڑے 60.10%۔ امروہہ میں (41%)مسلمان ہیں ووٹنگ ہوئی 66.15%، بجنور(43%) مسلمان ووٹ پڑے 61.44% اور سہارنپور میں 42%)) مسلمان مگر ووٹنگ 67.05%۔ اس کا مطلب ہے جہاں مسلمان زیادہ ووٹنگ زیادہ ۔ اب دیکھیں بریلی میں (35%) مسلمان اور ووٹ 57.68%، بدایون میں اس سے بھی کم (23%)مسلمان ووٹنگ 55.98%اور شاہجہاں پور جہاں صرف (18%) مسلمان ہیں ووٹ پڑے55.20 % یعنی جہاں مسلمان کم ووٹنگ بھی کم ہوئی ۔یہ ہے مسلمان قوم جس سے بی جے پی نے غلطی سے پنگا لے لیا ہے
مغربی یوپی کے روہیل کھنڈ میں سماج وادی پارٹی کے سب سے قدآور رہنما اعظم خان ہیں ۔25؍ اپریل 2018 کو رکن پارلیمان اعظم خان کے خلاف لکھنؤ کے ایس آئی ٹی نے تعزیرات ہند کی دفعہ 409، 420، 120 بی اور 201 کے تحت تقریباً 87مقدمات درج کیے اور ان کے ساتھ رکن اسمبلی اہلیہ اور بیٹے عبداللہ اعظم کو بھی گرفتار کرلیا ۔ اعظم خان کابیٹا عبداللہ اعظم ضمانت پر رہا ہوچکا ہے اور اہلیہ کو بھی ضمانت مل چکی ہے۔ اعظم خان اور عبداللہ اس بار انتخاب بھی لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں 84مقدمات میں ضمانت مل چکی ہے۔3میں اس لیے نہیں ملی کیونکہ فائل غٖائب کردی گئی ہے۔ اعظم خان کورونا وائرس سے متاثر ہو گئے تھے اور ان کا ایک نجی اسپتال میں علاج چل رہا ہے۔ انتخاب سے دو روز قبل انہوں نے عبوری ضمانت کی درخواست دی تھی مگر عدالت سے اسے مسترد کروا دیا گیا۔ اس سے ان کے چاہنے والوں کا غم و غصہ اور بھی بڑھ گیا۔ بی جے پی میں اگر عقل ہوتی تو ان کوضمانت دلوا دیتی لیکن اس کی ترجیحات میں کسانوں کے قاتل آشیش مشرا کو چھڑانا تھا۔

سرکار کی مرضی کے مطابق الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں تشدد کے کلیدی ملزم آشیش مشرا عرف مونو کی درخواست ضمانت منظور کر لی مگر اپنے حکم میں قتل کے الزام اور مجرمانہ سازش کاذکر نہیں کیا کیونکہ درخواستِ ضمانت میں بھی وہ موجود نہیں تھا۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا ٹینی کا بیٹا آشیش مشرا ۹؍اکتوبر سے جیل میں ہے۔ لکھیم پور پولیس نے اس کو تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۴۷؍،۱۴۸؍،۱۴۹؍،۳۰۲؍،۳۰۷؍،۳۲۶؍،۳۴؍،۴۲۷؍ اور ۱۲۰؍ بی کے تحت ملزم بنایا ہے۔ ضمانت کے حکم میں آئی پی سی کی دفعہ ۳۰۲؍ اور۱۲۰؍ بی کا کوئی ذکر نہیں ہے اس لئے آشیش مشرا ابھی جیل سے باہر نہیں آسکتا ۔ کسان تنظیموں اور مہلوکین کے اعزہ نے آشیش مشرا کی ضمانت پرتشویش کااظہار کیا ہے۔ اب وہ لوگ آشیش مشرا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاری کررہےہیں۔

اس حادثے میں مارے جانے والے رمن کشیپ کے بھائی پون نے کہا ہےکہ آشیش مشرا کو ضمانت مل جانے کے بعد ہماری انصاف کی امیدیں تقریباً ختم ہو گئی ہیں ۔ ہمیں توقع ہی نہیں تھی لیکن جب ضمانت مل گئی ہے تو اب انصاف ملنے کی امید نہیں رہی کیوں کہ آشیش مشرا کے والد باورسوخ آدمی ہیں ۔ پون نےاس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان سنگین حالات میں بھی ہمت نہیں ہاریں گے اور اپنی لڑائی جاری رکھتے ہوئے ممکن ہوا تو سپریم کورٹ کے د روازے پر دستک دیں گے۔سیاسی دانشمندی کا تقاضہ تھا کہ بی جے پی والے مزید ایک مہینہ انتظار کرتے۔ اس جلدبازی نے کسانوں کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ہے۔ یہ حماقت اسے مہنگی پڑے گی کیونکہ لکھیم پور میں بہت جلد ووٹنگ ہونے والی ہے۔ آشیش مشرا کی ایسے نازک وقت میں ضمانت بتاتی ہے کہ یاتو بی جے پی رہنماوں کی عقل پر پردہ پڑ گیا ہے اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ سلب ہوگئی ہے یا انہیں یقین ہوگیا ہے کہ اب اقتدار جانے والا ہے اس لیے انتخابی نتائج سے قبل جو کچھ ممکن ہے کروالو۔ دونوں صورتوں میں یہ کمل کا نقصان ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448955 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.