درد کی شدت سے ہوشیار رہیں۔۔۔۔!!

لائبریری کے شیلف میں رکھی کتابوں میں علم کے خزینے چھپے ھوئے ہیں۔موجودہ زمانے میں ایک جانب لائبریری کا فقدان پایا جارہا ھے تو دوسری جانب قاری کا رخ بھی لائبریری کی طرف نظر نہیں آتا خاص طور پر آج کا نوجوان سمجھتا ھے کہ انٹرنیٹ سے سب کچھ مل جائیگا لیکن یہ اس کی خام خیالی ھے۔ اصل علم کا زخیرہ اور سمندر لائبریری میں ہی موجود ھے ۔۔۔۔ معزز قارئین!! ڈھائی ہزار سال قبل یونانی اطباء نے نظریہ پیش کیا کہ دَرد میں سب سے شدید درد گہرے گھاؤ تلوار نیزے گولی وغیرہ کے زخم سے ہوتا ہے۔ یونانیوں کے بعد عرب حکماء نے ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی میں درد کی شدت کے متعلق اپنے نظریات میں کہا کہ "بچے کی ولادت کے وقت عورت کو ہونے والا دَرد شدت و تکلیف میں تمام درد میں پہلے نمبر ہے لیکن گیارہویں صدی عیسوی میں امام الطب حکیم بُو علی سینا نے یونان و عرب کے حُکماء کے نظریات کی نفی کرتے ہوئے سنہ ایک ہزار سولہ عیسوی میں اپنا نظریہ پیش کیا کہ "درد میں سب سے شدید درد گُردے کا دَرد ہوتا ہے"۔ سنہ انیس سو ستر عیسوی کی دہائی میں امریکی و یورپی میڈیکل سائنسدانوں کی ٹیم نے درد کی شدید نوعیت پر تحقیق کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ 'حکیم بوعلی سینا' نے تقریباً ہزار سال پہلے بالکل درست کہا تھا کہ " درد میں شدت کے لحاظ سے گردے کا درد پہلے نمبر پر ہے۔ زچگی کا درد دوسرے نمبر پر ہڈیوں کے کینسر کے سبب انسانی جسم میں پیدا ہونے والا درد تیسرے نمبر پر گولی، تلوار، خنجر سے لگنے والے گہرے زخم کا درد چوتھے نمبر پر جلد کی اک مخصوص بیماری شنگلیس جس میں گلٹیاں بننے کی وجہ سے پیدا ہونے والا شدید درد پانچویں نمبر پر ہائی اینستھیزیا آپریشن کے بعد زخموں میں پیدا ہونے والا درد چھٹے نمبر پر کمر درد ساتویں نمبر پر گھٹنوں ٹخنوں میں گھنٹیا کے سبب پیدا ہونے والا درد آٹھویں نمبر پر ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کھسکنے کے سبب پیدا ہونے والا درد نویں نمبر پر اور اسپائنل اور مائیگرین آدھے سر کا درد دسویں نمبر پر ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ دِل کا درد پہلے بیس شدید نوعیت کے درد میں شامل نہیں۔ درد کی وضاحت اس لیئے کی کہ امراضِ گردہ میں مبتلا افراد کے درد و تکلیف کا اندازہ لگایا جاسکے جس سے وہ نبرد آزما رہتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کسی شخص کے گردے خراب ہو جائیں تو زندگی جیتے جی عذاب بن جاتی ہے۔ دنیا میں ہر دسواں شخص گردوں کے امراض میں مبتلا ہے، جب تک تشخیص ہوتی ہے مرض آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے بحالی تقریباً ناممکن ہوتی ہے۔ ہماری جنسی صحت، لمبی عمر، وزن اٹھانے اور بھاگنے کی قوت سب کا دار و مدار گردوں پہ ہوتا ہے۔ گردے اللہ پاک کی طرف سے انسان کو عطا کردہ وہ عظیم فلٹر ہیں جو ہمارے خون سے زہریلے مادے یعنی ٹوکسنز فالتو نمکیات و کیمکلز کو ہر وقت صاف کرتے رہتے ہیں تاکہ انسانی جسم صاف ستھرے خون کے ساتھ اپنے افعال ادا کرتا رہے۔ گردے ہمارے جسم سے یورک ایسڈ یعنی پیشاب کو علیٰحدہ کرکے مثانے کی طرف بھیجتے ہیں۔ اسطرح جسم کیساتھ سانس کی ڈوری کا رشتہ بندھا رہتا ہے۔ بلڈ پریشر، ذیابطیس، شدید صدمہ، لمبے عرصے تک ڈپریشن، ذہنی تناؤ، تلی ہوئی غذائیں، تیز مرچ مسالے فاسٹ فوڈ یعنی ناقص بازاری کھانے، آلودہ پانی، آرام پرستی اور مسلسل درد کش ادویات گردوں کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پورے پاکستان میں بیشمار گردوں کے امراض میں مبتلا افراد پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈائیلاسز سنٹر موجود ہیں جہاں مریض کا ڈائیلاسز کیا جاتا ھے۔ اس سلسلے میں سرکاری اسپتال سے کہیں زیادہ نجی رفاحی اسپتال اور ادارے بہترین خطوط پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ھمیں اور ھماری نسلوں کو چاہئے کہ اپنی اچھی صحت کیلئے دیسی خوراک پر زیادہ توجہ دیں۔ گھر کے پکے کھانوں کی عادت بنالیں تاکہ اچھی صحت قائم رہے یقیناً صحت اچھی ہوگی تو عبادت بھی اچھی ہوگی اور زندگی خوشگوار گزرے گی اللہ ہمارے صحت کی حفاظت فرمائے آمین۔۔۔۔۔۔!!

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Jawaid Siddiqui
About the Author: Jawaid Siddiqui Read More Articles by Jawaid Siddiqui: 310 Articles with 273454 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.