صدارتی و پارلیمانی نظام سے پہلے پاکستان

دنیا کے 75فیصدممالک جن میں ترکی اور امریکہ کی جمہوری ریاستیں اپنے سربراہ مملکت کا انتخاب براہ راست کرتی ہیں جبکہ پارلیمانی نظام میں یہ انتخاب بالواسطہ ایوان نمائندگان کے ذریعے ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوامی امنگوں کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں سے زمین وجائیداد پر تو راج کیا جا سکتا ہے لیکن عوام پر حکمرانی نہیں جمائی جاسکتی۔عوام پر حکمرانی کے لیے عوامی خواہش کا احترام لازم ہے۔اس بات کوماننے میں کوئی حرج نہیں کہ برطانوی سامراج سے آزادی پانے والے زیادہ تر ملکوں میں برطانیہ کے طرز پر پارلیمانی نظام جمہوریت رائج ہے اور شاید اس کی بڑی وجہ ایک لمبے عرصے تک برطانیہ کی غلامی ہے یہ نظام ہندوپاک کے تقسیم سے لے کر آج تک کامیابی سے چل رہا ہے جسکی بنیادی وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں بار بار آئین کا مذاق نہیں اڑایا گیا بلکہ ریاست کے ہر فیصلے میں آئین کی قدر کی گئی ہے۔ مگرپاکستان میں ہر دہائی کے بعد آئین شکنی کی مثالیں موجود ہیں۔اگر عوامی امنگیں صدارتی نظام کو ہی اپنے حق میں بہتر سمجھتی ہیں تو صدارتی نظام کو ہی نافذ کر دیا جائے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ چاروں صوبوں کے عوامی نمائندوں کی حمایت حاصل کی جائے ،پارلیمنٹ میں بحث کی جائے اور ایک شفاف ریفرنڈم کے ذریعے لی جانے والی عوامی رائے کو اس طرح مانا جائے کہ آئندہ پھر کسی نئے نظام کی طرف مڑ کے نہ دیکھنا پڑے ہمارے ملک کو چلانے والوں نے اسے قیام گاہ سے زیادہ تجربہ گاہ بنا رکھا ہے جہاں ہر دہائی کے بعد ایک نیا تجربہ کیا جاتا ہے ، نئے نظام کی صدائیں ، نئی امیدیں، نئے خواب اور نئی منزلوں کا تعین کیا جا تا ہے لیکن ناکامی کے بعد پھرپارلیمانی نظام کی طرف واپسی کیوں ہوتی ہے یہ باتیں جب ذہن نشین ہوتی ہیں باباقوم کے چودہ نکات ذہن میں آتے ہیں کہ آ پ کو وفاقی جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ صوبوں کو مکمل خود مختاری دیں گے لیکن باباقوم کی رحلت کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سازشیوں نے دستورساز اسمبلی توڑ دی آزادی کے پانچ سال بعد 1953ء کولاہور کی حد تک پہلا مارشل لاء نافذ ہوا اور جنرل اعظم خان کو لاہور کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا جو پانچ سال بعد ایوب خان کے دور آمریت میں کابینہ کا رکن بنا۔ حاضر سروس آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقر ر کر دیا گیا اور پہلی باراقتدار کے ایوانوں میں فوجی ٹھاپ سنائی دی۔بھارت 1950میں اپنا آئین بنا چکا تھا جبکہ اس کے برعکس پاکستان کو برطانوی نظام ایکٹ کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے 23مارچ 1956 ء کو پہلا آئین متعارف کروایا ، لیکن دو سال کے بعد آئین معطل کر تے ہوئے پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ 1958کوپہلی فوجی آمریت نے اقتدار کے ایوانوں میں قدم رکھاجو 1969تک برقراررہا۔اس دوران جنرل ایوب خان نے نئے آئین کی تشکیل کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ محمد شہاب الدین کی زیر صدارت کمیشن قائم کیا پھر73 میں ذوالفقار علی بھٹو تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے متفقہ آئین منظور کروانے میں کامیاب ہوئے۔ یوں آزادی کے تقریباً 27سال بعد ملک کو پہلا متفقہ آئین نصیب ہو الیکن یہ خوشی صرف 4سال ٹک سکی رہی کہ سسٹم کا پھرتیاپانچہ کردیا ، جنرل ضیاء الحق نے آئین معطل کرتے ہوئے ملک میں مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ملک پرقابض ہوگیا یہ دورانیہ گیارہ سال کا تھاپھر 1999 تک چار جمہوری حکومتوں کو گھرکی راہ دکھائی گئی،جنرل پرویز مشرف کے عرصہ قریب 9 سالہ مارشل لاء کے بعد ایک دفعہ پھر جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلزپارٹی نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو مکمل خود مختارکردیا اور 73ء کے آئین کو اصل شکل میں بحال کروایا۔جنرل مشرف کے ظالم دور کے بعد لولی لنگڑی جمہوریت کے اس سفر کو دس سال پورے ہونے کے بعدپھر نظام کی تبدیلی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں، جمہوری حکومتیں عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں ، عوام مہنگائی کی چکی میں پسی نہیں نچوڑی جارہی ہے بیروز گاری لاقانونیت نے پنجے گاڑ لیے وغیر وغیرہ۔یہ باتیں ہردہائی کے بعد سننے کو ملتی ہیں۔لیکن افسوس نا تو فوجی آمریت اور نہ ہی جمہوری حکومتیں عوامی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور شاید اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم بحثیت قوم بے صبر،اورپالیسی میکرنااہل ہیں ہم آ ج بھی کنفیوز ہیں کہ عوامی مسائل کا حل کس نظام میں ہے۔ میری رائے کے مطابق صرف وہی نظام درست ہے جو عوام کی مشکلات بڑھائے نہیں کم کرے اور ملک کے خزانے کوکھوکھلا کرنے کے بجائے اس کو بھرنے کے بارے میں سوچے اگر حکمرانوں کے دل میں ملک و قوم کا درد نہیں تو نظام کوبدلنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لیے نظام نہیں سوچ بدلو۔
 

Ali Jan
About the Author: Ali Jan Read More Articles by Ali Jan: 288 Articles with 224452 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.