مسلمان ترکی کے سیکولر سربراہان فوج کے استعفے

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

ترکی کانام آتے ہی اسلامی تاریخ کی عظمت رفتہ ذہنوں میں گونجنے لگتی ہے جب ایشیا،افریقہ اور یورپ سمیت دنیاکے تمام تر آباد کونوں میں ترک افواج کے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے جھنڈے نورتوحیدکا پرچارکرتے نظر آتے تھے۔ایک زمانے تک جس کا مدارصدیوں کو محیط ہے ،ترکمان عثمانیہ کی اسلامی افواج کل کرہ ارضی کے بحروبر میں کسی کو اپنے مدمقابل نہ پاتی تھیں،لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتااور مسلمانوں کو کبھی بیرونی دشمن شکست نہیں دے سکاجب تک کہ اندر کے غداراس کے ساتھ نہ مل جائیں ۔عبداﷲ بن ابی تاسیس اسلام سے آج تک زندہ ہے اور کسی نہ کسی روپ میں اپنا کردار ادا کرتا رہتا ہے ،سوغلامی کے اندوہناک ووہشتناک اندھیروں میں ترکی بھی امت مسلمہ کے ساتھ ہی اسی اندھیری غار میں پہنچ گیااور اس سے زیادہ بدبختی ترک قوم کی قسمت میں یہ آئی کہ سیکولرازم کی جہالت و بے راروی سے بھرے ہوئے منحوس جالوں نے بھی اسے اپنی ناپاک گرفت میں لے لیا۔دیگراسلامی ملکوں کی طرح یہاں بھی سیکولرازم نے جرنیلوں کی پناہ میں اپنی آماج گاہ دریافت کی اور ترکی کے آئین میں اپنامکروہ مقام بناکر افواج کواس کی نگرانی سونپ دی۔آفرین ہے اس قوم کواور اس قوم کے بیدارمغزفرزندان توحید کواور قائدین اسلامی نشاة ثانیہ کو جنہوں نے آبشار کی طرح بہہ کر اپناسارازوریک بارگی صرف کر چکنے کی بجائے گھاس میں دھیرے،دھیرے ،آہستہ،آہستہ سارے دریاکو اپنے آغوش میں لے کر چلتے رہے اور جہاں چٹانوں نے راستہ روکاوہاں ٹکرانے کی بجائے یمین و یسار سے ریت کو ہٹانے لگے یہاں تک کہ پھر بڑھوتری کا راستہ میسر آتا چلاگیااور یوں منزل قریب سے قریب تک آن لگی اور پھر ایک بہت بڑی عوامی قوت کی پشت پناہی سے آج تایخ کا طالب علم واضع طور یہ محسوس کرنے لگا ہے ترکی ایک بار پھر مکی دور سے مدنی دور میں آن پہنچا ہے۔

ترکی میں سیکولرازم کی سب سے بڑی پناہ گاہ ترکی کے جرنیل تھے جب کہ عوام میں کبھی بھی پیٹ اور پیٹ سے نیچے کی خواہش کو”الہ(خدا)“کامقام دینے والا سیکولزازم آج تک پزیرائی حاصل نہ کر سکا۔ترکی کے عوام کے دل آج بھی اﷲ اکبر کی صدا کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ آج بھی اپنے آپ کو امت کا ہی حصہ سمجھتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ غریق رحمت کرے نجم الدین اربکان کوجنہوں نے ترکی میں احیائے اسلام کا بیڑہ اٹھایااور ماضی کے تجربوں اور دیگر اسلامی ممالک کے قائدین امت کی مشوروں سے سیکولرآئین کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی ٹکراؤ سے گریزکرتے ہوئے نہایت چابکدستی اور ہشیارنظری سے اپنی قوت کو بچاتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ان کی خلف رو ترکی کی موجودہ سیاسی قیادت بھی انہیں کی خطوط نقش پاپر گامزن ہے ۔ترکی میں اسلامی قوتوں کے اقتدارتک پہنچنے کاقوم کو یہ ثمرہ ملاکہ آج کاترکی جو ماضی میں سیکولرپالیسیوں باعث یورپ کا مرد بیمارکہلاتاتھا معاشی طور پر اس قدر مضبوط و توانا ہو چکا ہے کہ اب اس ترکی کا شمار یورپ کی اولین دس معاشی قوتوں میں ہو نے لگاہے،ترکی کی دیندارقیادت کی اس معاشی ترقی نے ترکی کی کرنسی کوماضی کی نسبت چار چاند لگا دیے ہیں۔یہ فرق ہے سیکولر قیادت اور دینی قیادت کے درمیان اخلاص نیت اور دینداری کا۔

اﷲ تعالٰی نے چاہاتوترکی میں جرنیلوں کے استعفے ترکی کی سیکولرحیثیت کے لیے بہت بڑا دھچکاثابت ہو نگے۔حکومت اورفوج کے درمیان یہ محاذآرائی اس وقت شروع ہوئی جب ترکی کے ”طراف“نامی ایک آزاداخبار نے وہ سازش بے نقاب کی جس میںترکی کی افواج کے سیکولرجرنیلوں نے 2003ءمیں اسلامی ذہن رکھنے والی قیادت کی حکومت گرانے کی ناپاک جسارت کی تھی،لیکن حکومت تو محض اﷲ تعالٰی کے حکم سے ہی ملا کرتی ہے چنانچہ مغربی ”جمہوریت“کے پروردہ سیکولرجرنیل ترکی کی ”اسلامی جمہوری حکومت“گرانے میں ناکام رہے۔ تحقیق کرنے والے نامہ نگار نے تمام دستاویزی ثبوت بھی فراہم کردیے۔الجزیرہ نے اپنی ویب سائٹ پر ان دستاویزات کا خلاصہ پیش کیا ہے جس کے مطابق ترکی کے جرنیلوں نے حکومت گرانے کی سازش اس لیے کی تھی کہ عوام کے دباؤ کے باعث ترکی کی حکومت پر اسلامی ذہن رکھنے والوں کا قبضہ ہو چکا تھااور فوج چاہتی تھی کہ ترکی کی سیکولر حیثیت برقرار رہے۔اس سازش کے دو بڑے حصے تھے،پہلے حصے میں اپنے ہوائی جہاز کو خود گراناتھااور الزام یونان پر لگاکریہ ثابت کرنا تھا حکومت خارجی محاذپر ناکام ہو چکی ہے اور دوسرے حصے مین اسلامی لباس میں ملبوس کچھ افراد کے ہاتھوں دومساجد،فضائیہ کے عجائب گھراورایک فوجی چھاؤنی پر حملہ کروا کے یہ ثابت کرنا تھاکہ یہ اسلامی انتہاپسندوں کی کاروائیاں ہیں اور اسلامی حکومت ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔سازش کاآغازمسجدوں میں دھماکے سے ہوناقرار پایا تھا۔اس سے بخوبی اندازہ کیاجا سکتا ہے کہ سیکولرازم جو نام نہادمذہبی آزادی کاراگ الاپتاہے سب سے پہلے مسجدوں اور مذہبی مقامات پر ہی دھاوا بولتاہے۔اس الزام کی پاداش میں ترکی کی افواج کے دوسوریٹائرڈاور حاضر سروس جرنیل دھر لیے گئے۔فوج نے بہت سے متضاد موقف اختیارکرنے کی کوشش کی لیکن ہزارہادستاویزی ثبوت اس قدر پختہ تھے کہ عدلیہ کے سامنے فوج کی ایک نہ چلی۔عدلیہ کو دستاویزات پر اس وقت کے بری افواج کے ایک جرنیل ”لیفٹیننٹ جنرل سیٹن ڈوگن“کے ثبت شدہ دستخط بھی ملاحظہ کرائے گئے۔

اس سازش کے الزام میں اگرچہ کچھ فوجی افسران تو بہت پہلے سے ہی زیرحراست تھے لیکن 21فروری2010ءسے تحقیقات کے دائرے کو دیگر نوصوبوں تک پھیلادیاگیااور49مزیدافرادکوقانونی اداروں نے اپنی تحویل میں لے لیا ان افراد میں جرنیل،ایڈمرل اور کرنل کی سطح کے افسران شامل تھے اور کچھ ریٹائرڈ بھی تھے۔5اپریل کومزید چودہ صوبوں میں سے 95افراد کو حراست میں لیاگیاجن میں سے 86افراد فوج سے تعلق رکھتے تھے اور ان میں سے 70افرادحاضرسروس فوجی افسران تھے۔مئی جون2011کوتحقیقات کی ایک اور جہت کے دوران ترکی فضائیہ کے پندرہ افسران کوگرفتار کر لیاگیا،ان افسران کے قبضے سے حکومت کے خلاف بغاوت کے مزید ناقابل تردیدثبوت میسرآگئے جن میںسازش کی وڈیوفلم،دستاویزات اورکمپیوٹرکی فلیش ڈرایﺅمیں موجودبغاوت کی کامیابی یاناکامی کے بعد کے منصوبے بھی شامل تھے۔اس تمام کاروائی کے دوران جیل کے اندر ہی ترکی کی آزاد عدلیہ کے جج صاحبان اس کیس کی باقائدہ سماعت بھی کرتے رہے اور گرفتار شدگان میں سے بعض پر الزامات ثابت ہوتے رہے اور بعض کو ان الزامات سے بری قرار دے کر چھوڑا بھی جاتا رہا۔بعض اخباری اطلاعات کے مطابق اس دوران فوجی قیادت کی طرف سے عدلیہ پر ناجائز دباؤ بھی ڈالا جاتا رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب حکمرانوں کا دامن پاک ہواور عوام اکی طاقت ان کی پشت پر ہو توبڑی سے بڑی آہنی قوت بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور جب ریاست مضبوط ہوتو عدلیہ سمیت کوئی ادارہ بھی کسی کے دباؤ میں نہیں آنے کا۔گرفتار فوجی افسران میں سے سترہ جرنیلوں اور ایڈمرلز کی ترقی کا معاملہ حکومت اور فوجی قیادت میں تناؤ کا باعث بنا،حکومت کا بڑا واضع موقف تھا کہ جب تک عدالت کوئی فیصلہ نہیں کرتی حکومت کسی نتیجے تک پہنچنے میں قاصر ہے۔گزشتہ روز 29جولائی2011کوحکومت اور فوجی قیادت کے درمیان ان گرفتار فوجی افسران کے بارے میں مزاکرات کے کئی ادوارکے بعد ناکامی پر اس معاملے کافیصلہ کن موڑ سامنے آیااور اعلی فوجی قیادت نے اپنے اپنے استعفے سیاسی قیادت کو پیش کر دیے ،جس کے بعد صدر مملکت نے فوری طور پر نئی فوجی قیادت تعینات کر دی ہے۔

غلامی کے بعد سے کل مسلمان ممالک میں مغربی استعمار نے فوج کے ادارے کو اپنے مقاصد کے لیے ہتھیارکے طور پر کثرت سے استعمال کیا ہے۔طویل غلامی کے بعد سے مسلمان عوام چونکہ جمہوری اقدارسے نابلد تھے اور دور غلامی نے انہیں خود شناسی سے بھی محروم رکھاتھا جس پر رہی سہی کسرنوآبادیاتی نظام کی تہذیبی یلغار نے پوری کر دی ،تعلیم کی کمی،سائنس اور ٹیکنالوجی سے محرومی، اغیارکے گماشتوں وخاندانوں کی بطورحکمران تعیناتی اورہر نئی اور ابھرتی ہوئی قیادت کی خریدوفروخت یاپھران کی تاحیات گم شدگی یاہلاکت نے اسلامی ممالک کی سیکولر افواج کو کھل کر گل کھلانے کے مواقع فراہم کر دیے۔اس سارے کھیل کے اگرچہ برے نتائج بھی سامنے آئے جسے امت آج تک بھگتتی چلی آ رہی ہے لیکن ایک اچھا نتیجہ یہ سامنے آیاکہ وطن عزیزسمیت فوج کے ادارے اپنے ہی ملک میں تنہائی کا شکار ہو تے چلے گئے۔خاص طور پر دور غلامی کے داغ امت کے دامن سے جیسے جیسے دھلتے چلے جا رہے ہیںیہ افواج اپنے ماضی کے آئینے میں بے نقاب ہوتی چلی جا رہی ہیں۔شعورحیات نے خاص طور نوجوان نسل کوبیدار ہی نہیں کیابلکہ جھنجوڑکر اٹھاکھڑاکیاہے۔مشرق بعید میں تو پہلے یہ سلسلہ جاری تھا،مشرق وسطی سے حال ہی میں ٹھنڈی ہوائیں آنا شروع ہوئی ہیں اور اسلامی نشاة ثانیہ کے مقابلے میں خاص یورپ کے اندرترکی جیسے ملک میں سیکولرازم کی شکست امت کے حوصلوں کومہمیزدینے کاباعث بنے گی،انشاءاﷲ تعالٰی۔ترکی ماضی قریب میں یہودونصاری کی سازشوں سے شکست و ریخت کاشکارہواجس کے ثمربدکے طور پر خلافت جیسے ادارے سے محرومی کامنہ امت کو دیکھنا پڑا،لیکن اﷲ تعالٰی نے چاہاتوترکی کی موجودہ سیاسی قیادت عوام کی طاقت سے نہ صرف یہ کہ اپنے آئین سے ترکی کی سیکولرحیثیت کا خاتمہ کرے گی بلکہ امت کا وہ قرض بھی اداکرے گی جو خلافت کے خاتمے کے بعد سے ترکی قوم پر واجب الادا ہے،اور اب وہ دن دور نہیں جب کل امت سمیت پوری انسانیت کوسیکولرازم کی تپتی چلچلاتی دھوپ سے کتاب اﷲ تعالٰی و سنت رسول اﷲ ﷺکی ٹھنڈی چھاؤں میں پناہ میسر آئے گی،انشاءاﷲ تعالٰی۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 572067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.