عدم اعتماد کی تحریک اور ایک اہم سوال
(Muhammad Aslam Lodhi, Lahore)
اپوزیشن کی تمام بڑی جماعتیں وزیراعظم پاکستان کے
خلاف عد م اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے بہت تیز رفتاری کا مظاہرہ کررہی
ہیں ۔ پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز
شریف کے مابین اس حوالے سے کتنی ہی ملاقاتیں ہوچکی ہیں بلکہ اس معاملے میں
آصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو بھی کسی سے پیچھے دکھا ئی نہیں دیتے
۔وہ اٹھتے بیٹھے عمران خان کو سلیکٹیڈ قرار دیتے ہوئے انہیں اقتدار سے فارغ
کرنے کی ہرممکن جستجو کررہے ہیں ۔ انہوں نے 27فروری کو مزار قائد کراچی سے
لانگ مارچ شروع کرنے کا نہ صرف اعلان کررکھا ہے بلکہ لانگ مارچ کے شرکا ء
کہاں ٹھہریں گے اور وہاں ان کے کھانے پینے اور رات گزارنے کا انتظام کون
کرے گا ۔ اس حوالے سے بھی حکمت عملی تیزی سے وضع کی جارہی ہے ۔ اس میں شک
نہیں کہ وہ عد م اعتماد کے حوالے سے سب سے زیادہ جلدی میں دکھائی دیتے ہیں
لیکن ان کے پاس نہ تو وفاق میں اتنے نمائندے ہیں کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک
کامیاب ہوتے ہی اقتدار سنبھال کر عوامی مسائل کا حل شروع کردینگے بلکہ وہ
ان اقدامات کا ازالہ بھی کرنے کے جذبات رکھتے ہیں جو ان کی نظر میں عمران
خان نے معیشت کی بدحالی اور خرابی کے لیے اپنے دور حکومت میں وقتا فوقتا
اٹھائے ہیں ۔ایک طرف بلاول تو دوسری جانب شہباز شریف کی پھرتیاں بھی قابل
دید ہیں ۔ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے وہ چودھریوں کے در پر نہ چاہتے ہوئے
حاضری بھی دے چکے ہیں بلکہ عیادت کے بہانے پھولوں کا گلدستہ چودھری شجاعت
کی خدمت میں پیش کرچکے ہیں ۔اس میں شک نہیں ایک وقت ایسا بھی تھا جب چودھری
برادران مسلم لیگ ن کا لازمی حصہ ہوا کرتے تھے ۔ جب شریف برادران پر مشرف
دور میں جب برا وقت آیا اور وہ جلاوطن کردیئے گئے تو بے وفائی کرتے ہوئے
چودھری پرویز الہی نے مسلم لیگ قائد اعظم کے نام سے ایک نئی جماعت بنا لی
اور پنجا ب کی وزارت اعلی پر نہ صرف فائز ہوگئے ۔بلکہ پانچ سال سے زیادہ
عرصے تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کا لطف اٹھاتے رہے ۔ 2008ء کے ا لیکشن میں
وہ پوری تیاری سے وزیراعظم بننے کے لیے اپنے گھوڑے دوڑا چکے تھے لیکن جب
الیکشن کے نتائج سامنے آئے تو بے نظیر کی شہادت اور ہمدردی کے ووٹ حاصل
کرکے پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت بنا لی اور پنجاب میں شہباز شریف کی
قیادت میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوگئی۔ ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں
اصول اور نظریے نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا
فارمولہ نیچے سے اوپر تک چلتا ہے ۔پرویزالہی کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے
کہ وہ پیپلز پارٹی کے دور میں نائب وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سودے بازی اور مفادات کے اعتبار سے ان
کا تقابل کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا وہ چند سیٹیں جیت کر بھی کوئی نہ
کوئی بڑا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جیسے کہ آجکل وہ چند سیٹوں
کے عوض وفاق اور پنجاب میں وزراتوں کے علاوہ سپیکر شپ پر بھی قابض ہیں اور
جب چاہے اور جیسے چاہے وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے اپنے اور اپنی پارٹی
کے مطالبات منوا لیتے ہیں ۔ اب جبکہ وفاق اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد
کو کامیاب بنانے کا کام زور شورسے چل رہا ہے تو ایک بار پھر انہیں وزیراعلی
پنجاب کا عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی جارہی ہے ۔ اب گیند نواز شریف کے کورٹ
میں پہنچ چکی ہے اگر انہوں نے یہ شرط قبول کرلی تو مرکز میں مسلم لیگ ن کی
حکومت اور پنجاب میں چودھری پرویز الہی کی حکومت بن سکتی ہے جن کو مسلم لیگ
ن کی سپورٹ حاصل ہوگی ۔ اس طرح عمران خان کی مرکز اور صوبے میں چھٹی ہوجائے
گی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان ساڑھے تین سال خزانہ خالی کا
رونا رو رو کر پٹرول ، گیس، بجلی نرخوں میں مہینے میں تین چا ر مرتبہ اضافہ
کرتے رہے ہیں جس سے قیمتوں میں اضافے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز سے
دراز ہوتا جارہا ہے بلکہ مہنگائی کا یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے
رہا۔اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ شہباز شریف یا کوئی اور شخص وزیراعظم کے
منصب پر فائز ہونے کے بعد مہنگائی اور بے وسائلی سے ستائی ہوئی عوام کے لیے
کوئی آسانیاں پیدا کرسکیں گے ۔یا یہ بھی عمران خان کی طرح خزانہ خالی کا
رونا رو کر عوام کو کند چھری سے ذبح کرنا شروع کردیں گے ۔اس وقت عوام یہ تو
چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت تبدیل ہو لیکن عوام کی تمنا یہ بھی ہے کہ
کوئی ایسا رہنما وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو ،جو ضروریات زندگی کی اشیاء
کی قیمتوں کو کم کرتے ہوئے بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمتوں ریورس کرے اور
کرنسی کے گرتے ہوئے میعار کو سنبھالے ۔اب وقت ہی بتائے گا کہ عدم اعتماد کی
تحریک کامیاب ہوتی بھی ہے یا شیخ چلی کا خواب بن کر رہ جائے گی۔
|
|