دھرنوں کے ذریعے حکومت گرانا انتہائی غیر پارلیمانی و
جمہوری رویہ ہے.ڈکٹیٹروں کی یہی خواہش ہوتی کہ دھرنوں کے ذریعے ملک کو عدم
استحکام کا شکار کیا جائے تاکہ انہیں طالع آزمائی کا موقع ملے.
بدقسمتی سے جارحانہ دھرنوں کا رواج خان صاحب اور اس کے کزن طاہرالقادری نے
ڈالا جو انتہائی مضحکہ خیز تھا.اس وقت بھی ظاہری و خفیہ ڈکٹیٹروں کے پروردہ
دانشوروں کے علاوہ کسی باشعور انسان نے اس قسم کے مضحکہ خیز دھرنوں کی
حمایت نہیں کی تھی، آج بھی کوئی سیاسی شعور رکھنے والا شخص دھرنہ زدہ سیاست
کی حمایت نہیں کرسکتا.
ہزار درجہ بہتر آمریت سے لاکھ درجہ بدتر جمہوریت قبول ہے مگر ظاہری آمریت
اور آمریت کی جملہ وخفیہ شکلیں منظور نہیں.
عمران خان کو ہٹانا لازم ہے تو پارلیمنٹ سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جائے.
اس کو ہٹانے کا آئینی راستہ موجود ہےغیر آئینی کسی بھی شکل کی حمایت نہیں
کی جانی چاہیے. اس ملک کی تباہی کا سبب ہی غیر آئینی اقدامات ہیں. چیک اینڈ
بیلنس ضروری ہے.سیاسی جماعتوں سمیت ہر ادارے کو اپنے آئینی حدود کا خیال
رکھنا ہوگا. جو بھی تجاوز کرے اس کو روکنا ہوگا. آئین میں تقسیمِ اختیارات
کی تفصیل موجود ہے. جو بھی اختیارات کا غلط استعمال کرے اس کو طاقت کیساتھ
روکنا ہوگا. عوام سمیت دیگر ادارے ملکر، حدود سے تجاوز کرکے اختیار کا غلط
استعمال کرنے والے ہر ادارے کو آہنی لگام ڈالنا ہوگا.اگر ایسا نہیں ہوتا تو
ملکی سروائیول خطرے سے دوچار ہوجائے گا.
گزشتہ دس سال میں جتنا نقصان دھرنوں نےاس ملک کو پہنچایا ہے اس سے زیادہ
کسی نے نہیں پہنچایا.
کوئی باشعور انسان عمران خان اور اس کی بیڈ گورننس کی حمایت نہیں کرسکتا
مگر انہیں کسی غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی ہر واضح و خفیہ کوشش کی تحسین
نہیں کی جاسکتی.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|