اسلامیت، انسانیت اور پاکستانیت چاہئے!
(Malik Shafqat Ullah, Jhang)
پاکستان پچھلے ایک عشرے سے ہی جمہوری، سیاسی ، اخلاقی
عدم استحکام ، عدم برداشت اور فقدان کا شکار ہے۔ موجودہ دور حکومت جب اپنے
دن پورے کر رہی ہے تو اپوزیشن تیسری مرتبہ حکومت کو گرانے کیلئے عدم اعتماد
کی تحریک سر گرم کر رہی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں جہاں تک میں نے مشاہدہ
کیا ہے ، یہاں سیاست کی آکسیجن پراپیگنڈہ ہے نہ کہ ملک و قوم کی خدمت۔ ابھی
تک اپوزیشن نے ہر عوامی نعرے اور مطالبے کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھایا ہے۔
ہم جسے جمہوری استحکام سمجھ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر جمہوریت ہے ہی نہیں۔
یہ ایک بوسیدہ نظام ہے جسے چاٹنے کے بعد اب دیمک پہلے سے زیادہ طاقتوراور
آزاد ہو چکی ہے جس کا اگلا نشانہ عوام الناس ہے جو اس کے پیٹ کی آگ کی نظر
ہونے والی ہے۔
ہم حقیقت پسند نہیں بلکہ شخصیت پرست ہیں ۔ ہمارا جمہوری شعور جاہلانہ ہے
اور غلامی کی باقیات آج بھی ہمارے دماغوں کو مفلوج رکھتی ہیں۔یہ نام نہاد
جمہوریے ، میری نظر میں جنہیں سیاست کا مطلب بھی نہیں پتہ ہمیں اپنی سازشوں
اور ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہیں ۔ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم
معاملات کا تجزیہ کئے بغیر ہی بتائے گئے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط مان
لیتے ہیں ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم بہیمانوں اور ظالموں کی صف میں
نعرے بازی کرتے کھڑے نظر آتے ہیں۔
موجودہ دور حکومت کو داخلی اور خارجی سطح پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
لیکن انہیں مثبت پہلو یہ ملا ہے کہ ان کے سامنے کوئی بھی مضبوط اپوزیشن
موجود نہیں جس کی وجہ سے ابھی تک حکومت کو کسی مشکل وقت کا سامنا نہیں کرنا
پڑ رہا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی یہ پہلی حکومت تھی ، جس کو چلانے
کیلئے ان کی گاڑی کے پہیوں کو بھی الیکٹ ایبلز کے پنکچر لگائے گئے ، مگر
پنکچر کبھی وفا نہیں کرتے ۔ اس پنکچر کہانی کے پیچھے بھی ایک بڑا دائرہ
موجود ہے جسے سمجھنے کیلئے تین سو ساٹھ ڈگری زاویوں کو سمجھنا ہوگا۔ تحریر
میں لمبی بحث کرنا نہیں بلکہ بات سمجھانے کیلئے اس پہلو کی طرف بھی دھیان
دلانا مقصود ہے جو وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی
پنکچر کہانی چل نکلی ہے۔ ق لیگ کی کباڑ گاڑی کو ان پنکچروں اور مصنوعی پالش
کے ذریعے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے سوشل میڈیا پر صدارتی
نظام کا شور سننے میں ملا جس پر چند ٹی وی چینلز نے اس کے حق میں اور زیادہ
نے اس بات کو فضول قرار دینے کیلئے پروگرام کئے تھے۔ بہت ساری ڈیلوں اور ڈی
ریلوں کا شور شرابہ بھی وقتاََ فوقتاََ سنائی دیتا ہے۔ مؤثر ابلاغ اور کمر
پر پہاڑ کے ہونے کی تسلی انسان کو ہوشمند رکھتی ہے جس کی وجہ سے وہ مضبوط
اور بامقصد فیصلے کرتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومتی اتحادی جماعتوں اور
دھڑوں کو اپنی کروٹ بٹھانے کیلئے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھا رہے ہیں۔ دوسری
جانب حکومتی جماعت کی جانب سے بھی جارحانہ بیانات سننے میں آ رہے ہیں۔ مگر
سوال یہ ہے کہ اس سب سے عوام کو کیا فائدہ؟
ان سبھی معاملات کے دوران اگر کوئی شخص ملک و قوم کی خدمت کیلئے عملی کردار
ادا کر رہا ہے تو وہ صرف عمران خان ہے ۔ جو بارہا غیر ملکی ٹی وی چینلز پر
بیٹھ کر پاکستانیت اور انسانیت کی باتیں کرتا ہے۔ اسلامیت کا درس دیتا
دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ منظر نامے پر جب اپوزیشن جماعتیں ملکی استحکام کو
ثبوتاژ کرنے کی باتیں کر رہے ہیں تو عمران خان عالمی سطح پر جنگ بندی اور
امن و استحکام کیلئے کردار ادا کر رہا ہے۔عمران خان کا دورہ روس انشا ء اﷲ
با معنی ثابت ہو گا، تیل کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ امریکہ، یورپی یونین
اور برطانیہ نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔جبکہ یوکرین تنہائی
کا رونا رو رہا ہے۔ جہاں پوری دنیا مہنگائی اور بے روزگاری جیسے چیلنجز کا
سامنا کر رہی ہے وہاں جنگ ایک ناقابل تلافی المیہ ثابت ہوگا۔ اس بات کو لے
کر مستقبل قریب میں یہ پراپیگنڈا بھی سامنے آ سکتا ہے کہ عمران خان یہودیوں
کا ایجنٹ ہے اور امریکہ کے کہنے پر روس کو یوکرین کی باغی ریاستوں کی مدد
کرنے گیا ہے۔چاہے جو بھی ہو ! عمران خان کی پاکستان میں اصطلاحات اور آئین
میں ترامیم بہت حد تک درست ہیں۔ ملک میں استعماری طاقتوں کی نام نہاد
مداخلت روکنے کیلئے بلدیاتی انتخابات کو جماعتی انتخابات کے طور پر منعقد
کروانا بھی ایک اہم قدم ہے۔ قوانین کو عملی طور پر لاگو کروانے اور امیر و
غریب دونوں کیلئے غیر متعصب قانون، یکساں تعلیمی نصاب ، تھانہ کلچر اور وی
آئی پی کلچر کے خاتمے کیلئے جو اصطلاحات پیش کی گئیں وہ واقعی قابل تعریف
ہیں۔اس کے بر عکس اپوزیشن جماعتیں بظاہر تو بے قابو مہنگائی اور حکومتی
اصطلاحات کے خلاف عوام کیلئے تحریک عدم اعتماد لانا چاہ رہی ہے ، مگر ہم ان
کے خلوص پر اس وقت تک یقین نہیں کر سکتے جب تک وہ عدالتوں میں موجود
کیسزاور ریفرنسز کا سامنا کر کے خود کو بر ی الذمہ قرار نہیں دلواتے۔ اس کے
علاوہ نواز شریف کی سعودی عرب اور پاکستان میں موجود شوگر ملز میں ان را
ایجنٹس کی گرفتاری بھی ہم نہیں بھولے جو کلبھوشن یادیو کی نشاندہی کی وجہ
سے پکڑے گئے تھے، ہم ایان علی کے دوبئی جاتے ہوئے منی لانڈرنگ کا بریف کیس
بھی نہیں بھولے جو زرداری کے ساتھ منسوب تھا۔ نہ ہی ہم راجہ رینٹل ، قطری
خط ، آشیانہ ہاؤسنگ سکیم ، کرتار پور کیلئے سکھوں سے لئے گئے فنڈز کو بھولے
ہیں۔بہر طور عوام کو بھی ان سیاہ سیوں کی بجائے پاکستان سب سے پہلے ہونا
چاہئے۔ زندگی ضعیف الاعتقادی سے کامیاب نہیں ہوتی بلکہ حقیقت پسندی سے ہوتی
ہے۔
عوام کو بھی چاہئے کہ وہ کسی بھی شخص ، چاہے وہ عمران خان ہو، آرمی چیف ،
چیف جسٹس ، نواز شریف ، زرداری ، مولانا فضل الرحمٰن ، مصطفی کمال ، سراج
الحق ، پروفیسر سیف اﷲ خالد یا کوئی بھی ہو اسے حرف آخر سمجھنے اور اس کی
پوجا کرنے کی بجائے حقیقت کو سمجھیں اور ہمیشہ آئین و قانون کی بالادستی
کیلئے اپنی طاقت و جرأت صرف کریں۔ کیونکہ پاکستان کی بقاء صرف آئین و قانون
کی بقاء میں ہی ہے۔ اب پاکستانی نوجوان پینتیس پنکچرز کے حامل پہیوں والی
گاڑی کی سواری کرنے کی بجائے ایک صاف اور شفاف گاڑی کی سواری کریں جسے نہ
تو کوئی مجبور کر سکتا ہو اور نہ ہی اسے کوئی قانون سے بالاتر چلانے کی
کوشش کر سکے۔ یہ نظام چاہے جس صورت میں بھی آئے، وہ صدارتی ہو یا جمہوری
مگر پاکستانیت، اسلامیت اور انسانیت کے حق میں ہو۔
|
|