فی الحال پانچ صوبوں میں انتخاب ہورہا ہے ۔ ان میں ایک
یوپی بہت بڑا دوسراپنجاب کم بڑ ا، ایک اوسط یعنی اتراکھنڈ اور دوچھوٹےصوبوں
گوا اور منی پور میں انتخاب ہورہا ہے۔ ان میں سے اترپردیش پر اس قدر گفتگو
ہورہی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہیں اور بھی الیکشن ہونا ہے۔ اتراکھنڈ
میں بی جے پی کے اندر ہونے والی بغاوت معمولی بحث کا موضوع بنی لیکن ایک تو
صوبہ اوسط اور دوسرے خبر بی جے پی کے خلاف ہونے کے سبب آئی گئی ہوگئی۔
پنجاب کے بارے میں سب سے بڑی خبر وزیر اعظم کے جان بچا کر لوٹنے کی تھی
لیکن اس میں جب بی جے پی کی بدنامی ہونے لگی تو اس کو بھی دبا دیا گیا۔
پنجاب کے اندر کانگریس نے اپنے کیپٹن ارمندر سنگھ کو ہٹایا تو اس کا بی جے
پی بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکی کیونکہ پڑوس کے اتراکھنڈ میں وہ پاو درجن
وزرائے اعلیٰ بدل چکی تھی۔ کسانوں کی تحریک کے سبب جب اکالی دل نے بی جے سے
دامن چھڑایا تو پنجاب میں بی جے پی کو35؍ سال بعد پہلی مرتبہ اکالی دل کے
بغیر انتخاب لڑنے کی نوبت آئی اور وہ بالکل لاوارث سی ہوگئی ۔
اس دگر گوں صورتحال میں ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند کانگریس کے
برخواست شدہ وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کا ساتھ بی جے پی کو مل گیا کیونکہ وہ
خود سیاسی یتیمی میں مبتلا تھے ۔ اس طرح ایک رام ملائی جوڑی وجود میں آگئی
جس میں ایک اندھا تھا اور دوسرا کوڑھی ۔ بی جے پی کو پتہ رہا ہوگا کہ
امریندر سنگھ کو ساتھ لینے کے نتیجے میں ان کی ساری وعدہ خلافیوں کا غم و
غصہ کانگریس کے بجائے ان کی جانب مڑ جائے گا مگر ’نہیں ماما سے اچھا کانا
ماما‘ کی مصداق اس نے کپتان صاحب کا دامن تھام لیا اس لیے کہ پنجاب کے اندر
سکھ چہرے کے بغیر دال نہیں گلتی۔ اسی لیے وہ کبھی ونود کھنہ تو کبھی سنی
دیول جیسے لوگوں کو ایونِ پارلیمان کا انتخاب لڑا کر اپنا کام چلایا کرتی
تھی ۔ ارون جیٹلی جیسا طاقتور رہنما مودی لہر میں بھی چندی گڑھ سے ہار گیا
تھا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ پچھلے 97؍سالوں میں سنگھ پریوار ایک بھی
قابلِ اعتمادرہنما بی جے پی کو نہیں فراہم کرسکا۔ بی جے پی کا قحط الرجال
صرف مسلمان اور سکھوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے پاس کوئی دراوڈ اور
ملیالی چہرا بھی نہیں ہے۔ شمال مشرقی ہند اور گوا جیسے صوبوں میں وہ سابق
کانگریسیوں کی محتاج ہے۔
پنجاب میں ارمیندر سنگھ کو بے اثر دیکھ کر کمال بے حیائی کا مظاہرہ کرتے
ہوئے بی جے پی نے عصمت دری اور قتل معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے
ڈیرا سچا سودا کے سربراہ گرمیت رام رحیم کو زیڈ پلس سیکیورٹی دے کر باہر
بلایا تاکہ اس کے چالیس لاکھ مریدین کے ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔پچھلے سال بھی
کسان تحریک کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اسے 24 ؍اکتوبر کو پیرول دی گئی
تھی۔ ہریانہ میں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کی زیر قیادت بی جے پی۔ جے جے
پی کی مخلوط حکومت نے ایک دن کے لئے گرومیت رام رحیم کو اپنی بیمار ماں سے
ملاقات کا موقع عنایت کیا تھا۔ اس وقت ہریانہ پولیس کی تین دستے یعنی
تقریباً 250 سے300 جوان اس کے تحفظ کی خاطر تعینات کیے گئے تھے ۔ بابا
گرومیت کی یہ آو بھگت دیکھ آسا رام باپو بھی پرا مید ہوگئے ہیں اور دعا
کررہے ہیں کہ کاش گجرات میں بھی بی جے پی کی حالت خراب ہو اور ان کی قسمت
کھلے یعنی الیکشن جیتنے کی خاطران کو باہر لایا جائے۔
آزادی کے بعد سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے کانگریس کے خلاف سکھوں کو
بھڑکا کر اپنے قریب کرنے کی بڑی کوشش کی یہاں تک کہ راشٹریہ سکھ سنگت بھی
بنا ئی لیکن اس کو کامیابی نہیں ملی۔ یہ اس تنظیم کا حال ہے جو اپنے آپ کو
نہ جانے کیا سمجھتی ہے۔اترپردیش کے رجو بھیا کو چھوڑ دیں تو آر ایس ایس پر
مہاراشٹر کے برہمن ہی چھائے رہے۔ سنگھ کی سیاسی جماعت میں اپنے مفاد کی
خاطر ملک بھر کےموقع پرست سیاستداں کیا جمع ہوگئے کہ یہ اپنے آپ کو شیر
سمجھنے لگے ۔'آر ایس ایس' کے رہنما آئے دن ہندوستان کو ہندو راشٹر کہتے
ہیں ۔اس کاتازہ نمونہ دھرم سنسد سے پلہّ جھاڑتے ہوئے موہن بھاگوت کا یہ
کہنا ہے کہ یہ ملک تو پہلے ہی ’ہندو راشٹر ‘ہے ۔ اسی طرح کا ایک بیان انہوں
نے تقریباًتین سال قبل دسہرہ کے خطاب میں دیا تھا جس کی مخالفت مسلمانوں کے
علاوہ سکھوں کی جانب سے بھی ہوئی تھی ۔ پنجاب کے بڑے اخبارات مثلاً 'پنجابی
ٹربیون' اور 'نوا زمانہ' نے اپنے اداریوں کے اندر سخت الفاظ میں اس کو
تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔سکھوں کا پرسنل لاء بورڈ یعنی شرومنی گردوارہ
پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) نے بھی اس پر غم وغصے کا اظہار کیا تھا یہاں
تک کہ بی جے پی کی سابق حلیف شرومنی اکالی دل نے بھی ا پنے سخت ردعمل کا
اظہار کیا تھا۔
اکال تخت کے کارگزار جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے اس بیان کو ملک میں
انتشار کا سبب بتایا تھا۔ پنجاب لوک مورچہ کے سربراہ امولک سنگھ نےتو اسے
بہت بڑی سازش قرار دےدیا کیونکہ اس کے ذریعہ سنگھ سکھوں کے منفرد تشخص ختم
کرکے انہیں کیش دھاری ہندو بنانے کی سعی کی گئی تھی ۔ سنگھ پریوار اس طرح
کی حماقتوں سے سکھوں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کرکے انہیں نہ صرف اپنی
تنظیم سے دور بھگاتا ہے بلکہ ان کے اندر قوم دشمن جذبات کو جنم دیتا ہے۔ آر
ایس ایس کے خلاف سکھوں کی جانب اس طرح کا ردعمل پہلی سابق سر سنگھ چالک
سدرشن کے 2000ء میں دیئے گئے بیان کے بعد سامنے آیا تھا جب انہوں نے سکھ
مت کو ہندو مذہب کا فرقہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ خالصہ کی تشکیل ہندوؤں کو
مغل جبر و استبداد سے محفوظ رکھنے کیلئے کی گئی تھی حالانکہ گرونانک کی
تعلیمات تو برہمنیت کےبرخلاف مساواتِ انسانی کی دعوت دیتاہے ۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ گرو نانک کو بالخصوص سنت کبیر اور بابا
فرید سے تحریک حاصل ہوئی تھی۔ سکھوں کے سب سے بڑے گردوارہ 'گولڈن ٹمپل' کا
سنگ بنیاد میاں میر نے رکھا تھا۔ سکھ گروؤں نے ذات پات، گائے کی پوجا اور
مقدس دھاگے جیسے عقائدکی مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجودونائک دامودر ساورکر نے
سندھ ندی کے اس طرف بسنے والے سارے لوگوں کو ہندو قرار دے کرانہیں جھانسا
دینے کی کوشش کی مگر عمران خان نے گرونانک کے گرودوارا تک کاریوڈور بنواکر
اس کا خواب چکنا چور کردیا ۔ سکھ دھرم میں مساوات کا پہلو دب گیا تھا مگر
چرن جیت سنگھ چنی کے وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد وہ ابھر آیا ۔ یہی وجہ ہے
کہ الیکشن میں اچانک ، سَنت روی داس کا یوم پیدائش یعنی ’روی داس جینتی‘ کو
غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی ورنہ کون نہیں جانتا کہ اس چودھویں صدی کے
سَنت اور شمالی ہند میں بھکتی تحریک کے بانی نے ملک کیا اہم کارنامہ انجام
دیا ہے۔
سنت روی داس سے منسوب دہلی کے تغلق آباد مندر کو سپریم کورٹ نے 19اگست2019
کے دن جنگلاتی علاقہ میں واقع ہونے کا بہانہ بناکر توڑنے کا حکم دے دیا تھا
۔ اس زیادتی کے خلاف صرف بھیم آرمی کا راون میدان میں آیا ۔ ان کے علاوہ
مودی سے لے کر کیجریوال اور راہل سے سدھو تک کوئی رام بھکت گھر سے باہر
نہیں نکلا لیکن اس بار صدر جمہوریہ کے ساتھ ساتھ ان کے نائب نے بھی گرو روی
داس کی جیتنی پر خراج عقیدت پیش کیا ۔ وزیراعظم نریندر مودی دلّی کے قرول
باغ میں ’گرو رَوی داس وِشرام دھام مندر‘ پہنچ گئے اور شبد کیرتن میں حصہ
لے کر عوام کی بہبود کے لئے دعا کی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ان کی حکومت نے
ہر ایک قدم اور ہر ایک اسکیم میں گرو رَوی داس کے جذبے کو اخذ کیا ہے۔ اسی
کے ساتھ کاشی میں گرو رَوی داس کی یاد میں جاری تعمیراتی کام کا کریڈٹ بھی
لے لیا۔اس موقع پر ان کی لکھے ہوئے پیغام پر قلم چلانے کی ویڈیو خوب عوامی
تفریح کا سبب بنی۔
سنت روی داس جینتی کا فائدہ نہ صرف پنجاب بلکہ اتر پردیش میں بھی اٹھانے کی
کوشش کی گئی۔ پنجاب کے وزیر اعلی چرنجیت سنگھ چنی اس کام کے لیے وارانسی کے
سرگووردھن پور میں سنت روی داس مہاراج کی جائے پیدائش پر پہنچ گئے۔ انہوں
نے وہاں پر پوجا کی تو وزیر اعلی یوگی ادیتیہ ناتھ کیسے پیچھے رہتے ، انہوں
نے بھی صبح 10 بجے روی داس مندر میں ماتھا ٹیکا۔ اترپردیش کانگریس کی
انچارج پرینکا گاندھی نے وہاں جاکر سنت نرنجن داس کا آشیرواد لیا ۔ اس موقع
پرمایا وتی نےبھارتیہ جنتا پارٹی اور سماج وادی پارٹی پر سنت روی داس کے
احکامات کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ووٹوں کی خاطر یہ لوگ
ماتھا تو ٹیکتے ہیں لیکن ان کی ہدایت کے مطابق کروڑوں غریبوں کا بھلا نہیں
کرتے۔ مایاوتی نے کہا کہ ’من چنگا تو کٹھوتی میں گنگا‘ کا لافانی پیغام
دینے والے عظیم سنت روی کا پیغام مذہب اور سیاسی و انتخابی مفاد کے لئے
نہیں بلکہ انسانیت اور خدمت خلق کے لئے وقف ہونے کا ہے۔ موجودہ حکومتوں نے
اسے بھلا دیا۔ مایا وتی نے کانگریس، بی جے پی اور دیگر مخالف پارٹیوں پر
طرح طرح کی ناٹک بازی کرنے کا الزام لگایا۔
وزیر اعظم مودی کی پنجاب سے بیرنگ واپسی کے بعد کانگریس کے اندرونی چپقلش
کی خبریں ذرائع ابلاغ پر چھائی رہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اس امید میں اپنی ہی
پارٹی کے وزیر اعلیٰ کی مخالفت کرتے رہے کہ کانگریس کا اعلیٰ کمان ان کے
دباو میں آکر انہیں وزیر اعلیٰ کا چہرا بنادے گا۔ دراصل کچھ دن بی جے پی
میں رہنے کے سبب نوجوت سدھو کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ ان کو سوچنا چاہیے تھا
کہ جو اعلیٰ کمان امریندر سنگھ جیسے وزیر اعلیٰ کے دباو میں نہیں آیا اور
اس نے نوجوت سدھو کے بجائے چرن جیت سنگھ چنیّ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا وہ
بھلا کسی اور کی کیا سنے گا؟ چرن جیت سنگھ چنیّ کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ
سونپنا کانگریس کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی ۔ اس فیصلے ذریعہ اس نے پہلی
بار ایک دلت کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بناکر 35فیصد آبادی کو اپنے ساتھ لینے
کی ایک کوشش کرڈالی جو اس کو دوبارہ کامیاب سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ اس لیے
کانگریس نے چنیّ کو ہی وزیر اعلیٰ کا چہرا بنا ئے رکھا۔ اس کا انتخاب میں
کتنا فائدہ ملتا ہے وہ دس مارچ کو معلوم ہو جائے گا۔
|