سیاست یا معاشرت میں جب کوئی غیر متوقع واقعہ رونما
ہوجائے تو لوگ کنفیوز ہوجاتے ہیں اور غلطیاں کرنے لگتے ہیں ۔ اس خلط مبحث
کا فائدہ اٹھانے والا کامیاب ہوجاتا ہے۔ 2013میں جب بی جے پی نے بلاواسطہ
گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنایا تو ایسا
ہی ہوا۔ اقتدار پر فائز کانگریس سمیت دیگر غیر بی جے پی جماعتیں اس کے لیے
تیار نہیں تھیں۔ انہیں یقین تھا کہ لال کرشن اڈوانی پھر ایک بار اپنا پرانا
قافلہ لے کر نکلیں گے اور اس پنچر رتھ پر سوار تھکے ہوئے سارتھی کو وہ بہ
آسانی روک دیں گے لیکن حیرت انگیز طور پران کے بجائے مودی نامی ایک نیا
چہرا اڑن کھٹولے پر سوار ہوکر وارد ہوگیا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ اور لال کرشن
اڈوانی کے درمیان نریندر مودی جواں سال لگتے تھے ۔ وہ تو راہل اور اکھلیش
نے ان کو فی الحال بوڑھا کردیا ہے اور خود انہوں نے بھی ایک بابا کا روپ
دھار لیا ہے ورنہ وہ ایسے نہ تھے۔ اس وقت بوکھلاہٹ کے عالم میں نریندر مودی
کے خلاف کی جانے والی اوٹ پٹانگ الزام تراشی کا خاطر خواہ فائدہ انہیں کو
ہوا اور وہ ملک کے وزیر اعظم بن گئے ۔
تاریخ اپنے آپ کو نت نئے انداز میں دوہراتی رہتی ہے۔ اترپردیش میں فی
الحال وہی کہانی دوہرائی جارہی ہے ۔ اکھلیش کے خلاف بی جے پی کی ہڑ بڑاہٹ
سے سماجوادی پارٹی کا فائدہ ہورہا ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کو
ذرائع ابلاغ نے قومی سطح پر مسلمانوں کے حاشیہ پر بھیج دیئے جانے کا مترادف
قرار دیا حالانکہ خود لال کرشن اڈاونی نے اس کا سہرا کانگریس بیزاری کے
سرباندھا تھا ۔ اس کے بعد اترپردیش میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد بھی یہی
بیانیہ خوب زور و شور کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بدقسمتی سے ماتمی مسلمانوں نے
اسے ہاتھوں ہاتھ لے کر چلادیا حالانکہ ہر جمہوریت میں اس وقت تک اقلیت
حاشیے پر رہتی ہے جب تک کہ اکثریت بری طرح منتشر نہ ہو۔ ہر قوم کو متحد
ہونے کا حق ہے اور کسی دوسری قوم کو اسے منتشر کرنے پر قدرت نہیں ہوتی ۔ اس
لیے اگر ہندو قوم متحد ہوکر بی جے پی کو کامیاب کرتی ہے تو اس فتح کے لیے
مسلمان بالواسطہ یا بلا واسطہ ذمہ دار نہیں ہو سکتے ۔
اترپردیش انتخابی مہم کی ابتداء میں جب بی جے پی خود اعتمادی سے سرشار تھی
تو مسلمانوں کے حوالے سے اس کی حکمت عملی واضح تھی لیکن جیسے جیسے اس کی
حالت بگڑتی گئی پارٹی کا کنفیوژن بڑھتا چلا گیا۔ وزیر اعظم نے اپنی پہلی
آف لائن ریلی کو خطاب کرتے ہوئے سہارنپور میں مظلوم مسلم خواتین کے تئیں
اپنی تائید و حمایت کا حوالہ دیا اور اسی لب و لہجے میں گفتگو کی کہ جس پر
بھاجپائی منہ بھرائی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ اس کے بعد انہوں کانپور میں
یہ حیرت انگیز انکشاف فرمایا کہ پچاس فیصد مسلمان خواتین خاموشی سے بی جے
پی کو ووٹ دینے والی ہیں ۔جس انتریامی جیوتش نے مودی جی کو مسلمان خواتین
کے تعلق سے اس بڑی خوش فہمی کا شکارکیا ہے اسے نوبل انعام دیا جانا چاہیے ۔
تین طلاق کا قانون بناتے وقت بھی وزیر اعظم غلط فہمی کا شکار تھے۔ اس کے
بعد سی اے اے تحریک میں انہوں جامعہ کی جانباز طالبات اور دبنگ دادی کو
دیکھا اس کے باوجود ان کی عقل ٹھکانے نہیں آئی اور انہیں پتہ نہیں چلا کہ
مسلمان خواتین کس قدر باشعور اور دلیر ہیں ۔
مودی جی تقریر کے وقت حجاب کا معاملہ سارے عالم میں گونج رہا تھا اور
غالباً اسی نے انہیں مسلمان خواتین پر لب کشائی کے لیے مجبور کردیا تھا ۔
اس وقت ہر کوئی سوال کررہا تھا کہ کرناٹک میں ہندو احیاء پرست دہشت گردوں
کی بدمعاشی پر وزیر اعظم کیوں خاموش ہیں ؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ مسکان خان
کے نعرۂ تکبیر کو سننے کے باوجود اگر کوئی سوچتا ہے کہ مسلمان خواتین اس
قدر احمق ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ دیں گی تو اس سے بڑا بیوقوف کون ہوسکتا ؟
اتر ہردیش میں بی جے پی کا واحد مسلمان ووٹر وسیم رضوی تھا۔ اس نے بھی مرتد
ہوکر اپنا نام ہر بیر سنگھ نرائن سنگھ تیاگی رکھ لیا ہے اس لیے اگر اس کا
ووٹ بھی اب ہندو کا ووٹ ہوگا۔ فی الحال دین اسلام کے تیاگی کو بی جے پی نے
تیاگ دیا ہے اور وہ جیل کے اندر چکی پیس رہا ہے ۔ اس لیے وزیر اعظم اطمینان
رکھیں کمل پر کوئی مسلمان بھول کر بھی مہر نہیں لگائے گا۔
کانپور سے ہردوئی کا فاصلہ بہت زیادہ نہیں ہے مگر انتخاب کے چوتھےمرحلے سے
قبل جب مودی جی وہاں پہنچے تو مسلم رائے دہندگان سے بالکل مایوس ہوچکے تھے
تو یعنی دم ُنلکی سے باہر نکل کر پھر سے ٹیڑھی ہو چکی تھی ۔ اب وہ پھر سے
مسلمان اور دہشت گردی کی جانب لوٹنا چاہتے تھے اس لیے ایک سازش کے تحت پہلے
احمد آباد دھماکوں کا راتوں رات فیصلہ کروا یا گیا۔ ا س کے بعد مودی جی نے
نہ صرف مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم کوشش کی بلکہ سماجوادی
پارٹی کو بھی دہشت گردوں کا حامی بنادیا ۔ اس کے لیے ان کے پاس دلیل یہ تھی
کہ ان دھماکوں کے لیے سائیکل کو استعمال کیا گیا تھا جو سماجوادی پارٹی کا
انتخابی نشان ہے۔ یہ اس قدر بودی منطق ہے کہ سائیکل کے ساتھ مودی جی کی
شخصیت بھی موضوعِ بحث بن گئی۔ سائیکل پر دفتر میں آنے وا لے نیدر لینڈ کے
صدر مارک روٹے کی مودی جی کے ذریعہ کی جانے والی تعریف پر یہ سوال پیدا
ہوگیا کہ کیا وہ انہیں دہشت گردی کی مبارکباد دے رہے تھے ۔ موصوف کے سامنے
سائیکل کی سواری کرکے کیا مودی جی نےخود دہشت گرد بتایا تھا۔
2019میں دوبارہ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد مودی جی اڑیسہ سے رکن پارلیمان
پرتاپ سارنگی کو مرکزی وزیر بنایا تھا؟ ویسے توسارنگی کے آسٹریلیائی راہب
گراہم اسٹینس اور ان کے دوبیٹوں دس سالہ فلپ اور چھ سالہ ٹموکے قاتل دارا
سنگھ سے قریبی تعلقات تھے۔انہیں 23 جنوری 1999ء کو اس وقت زندہ جلا دیا گیا
تھا جب وہ اوڈیشا میں ایک جیپ کے اندر سو رہے تھے۔ گراہم اسٹینس کا قصور یہ
تھا کہ وہ کوڑھ کے مریضوں کے لیے کام کرتے تھے ۔ بجرنگ دل نے ان پر تبدیلیٔ
مذہب کا الزام لگا کر قتل کردیا ۔ پرتاپ سارنگی دراصل سائیکل والا وزیر کی
حیثیت سے مشہور تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھی دہشت گرد تھا اس لیے اسے
وزیر بنایا گیا ۔ مودی جی یہ بھول گئے کہ انہوں نے طالبات میں سائیکل تقسیم
کرکےاپنی پیٹھ تھپتھپائی تھی تو کیا وہ دہشت گردی کی جانب مائل کرنے کی
کوشش تھی۔ 2015میں وزیر اعظم نے عام ہندوستانیوں اتوار کے دن سائیکل چلانے
کا مشورہ دیا تھا ۔ اب انہیں بتانا ہوگا کہ کیا وہ بھی دہشت گردی کے فروغ
کی خاطر کیا جانے والا کوئی اقدام تھا ؟ اس لیے ہر جگہ اس سائیکل کا
استعمال ہوا تھا سماجوادی کا نشان ہے۔
مودی جی کا پہلے تو خود کو مسلمان خواتین کا حامی و مددگار کہنا اور پھر ان
کو اپنے رائے دہندگان میں شامل کرنے کے بعد اچانک پوری قوم کو دہشت گرد
بنادینا اس بات کا ثبوت ہے کہ فی الحال بی جے پی مسلمانوں کے حوالے زبردست
کنفیوژن کا شکار ہے۔ ملک کے ایسے صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے
اس کنفیوژن کا کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا مگراترپردیش کی 403 اسمبلی سیٹوں
میں سے 107 حلقوں میں مسلمان اہم کردارادا کرتے ہیں۔36 سیٹیں ایسی ہیں جہاں
مسلمان اپنے بل بوتے پر امیدوار کامیاب کر سکتے ہیں۔ بعض حلقوں میں مسلم
ووٹروں کی تعداد 45 فیصد ہے،73 حلقوں میں مسلم ووٹروں کی تعداد 20 تا 30
فیصد اور40 حلقوں میں 30 فیصد سے زیادہ۔سال 2017 میں مسلمان غفلت کا شکار
تھے اس لیے ووٹ کی تقسیم کے سبب بی جے پی نے 57 مسلم اکثریتی حلقوں میں سے
37 میں کامیابی حاصل کی تھی اور مجموعی طور پر صرف 24 مسلم امیدوار کامیاب
ہوسکے تھے لیکن اس بار مسلمان ووٹرہوشیار ہوگیاہے۔ وہ کمال صبرو تحمل سے
کام لیتے ہوئے خاموشی سے یکمشت سائیکل کی حمایت کررہا ہے۔ اس کی ایک مثال
یہ ہے کہ پہلے جب مسلمان ایک ساتھ ووٹ دینے کے لیے آتے تھے تو بی جے پی
والے اس کی ویڈیو بناکر ہندورائے دہندگان کو عار دلاتے تھے ۔ اس بار رک رک
کر آئے مگر جم کر ووٹنگ کی ۔ اس حکمت عملی نے فسطائیوں کے ہوش اڑا دئیے
ہیں ۔
مسلمانوں کی مخالفت بی جے پی کی ہمیشہ سے ایک فکری مجبوری رہی ہے ۔ اس کے
علاوہ بی جے پی جب سے علی الاعلان فسطائیت کی راہ پر چل پڑی ہے اسے اپنے
رائے دہندگان کو خوف دلانے کی خاطر کسی دشمن قوم کی ضرورت ہے۔ ملک کے
مسلمانوں سے فی الحال اس ضرورت کو پورا کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ جی
کبھی نظام کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو کبھی اعظم گڑھ کو
آتنک گڑھ کا نام دیتے ہیں۔اٹھتے بیٹھتے انہیں مختار انصاری کی یاد تو آتی
ہے لیکن وکاس دوبے کا نام بھول کر بھی ان کی زبان پر نہیں آتا۔ یہی مجبوری
یوگی ادیتیہ ناتھ سے اسیّ اور بیس کا فارمولا کہلواتی ہے۔ یہ کسی بھی سیاسی
جماعت کا حق ہے کہ وہ جو چاہے نظریہ رکھے اور اس کی بنیاد پر ووٹ مانگ کر
انتخاب جیتے لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا جب وہ ایسی اوٹ پٹانگ باتیں
مسلمانوں سے منسوب کرنے لگے جس ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسا کرنے سے اس
کا اعتماد جاتا رہتا ہے۔ سیاستداں کی کذب بیانی جگ ظاہر یہ لیکن جب وہ اپنے
ہی بیان کو توڑ مروڈ کر واپس لےتو پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف بزدل بلکہ
کنفیوژ بھی ہے ۔یہی کنفیوژن جب یوگی جی کو مئی کے مہینے میں شملہ بنا کر
گرمی نکالنے کی دھمکی دینے پر مجبور کرتا ہے تو جینت چودھری جیسے ذہیں
مخالفین اس کا فائدہ اٹھاکر ان کی چربی نکال دیتے ہیں۔ فی الحال اترپردیش
میں یہی ہورہا ہے۔
|