وہ ایک قبر کے کنارے بیٹھا اپنے آپ ھی مُسکرا رھا تھا.
مریم کے سا تھ گُزرے حسِین لمحے اُس کے دماغ میں فلم کی طرح چل رھے تھے. وہ
سارے خواب ایک ایک کر کے جینا چاھتے تھے وہ جن کی حقیقت ھونے کا سلسلہ شروع
ھو چُکا تھا.
پامپ پامپ...
اچانک تیز ھارن کی اس آواز کے ساتھ اُس کی مُسکراھٹ اُداسی میں بدل گئی اور
سارے خواب ٹوٹ گئے.
اُس اندھو ناک حادثے نے اُس کی پیاری بیوی مریم کو چھین لیا تھا. اُن کی
شادی کو صرف سات ماہ ھوئے تھے اور مریم کی عمر صرف 22 سال تھی. آج مریم کی
قبر پے بیٹھا اُس کی یادوں کو فل میں پیوست کر رھا تھا.
تم ابھی صرف 25 سال کے ھو ساری زندگی پڑی ھے تمہارے آگے کب تک مریم کی یاد
میں اکیلے رھو گے. اور تمہارے اس اکیلے پن مریم خوش ھو گی کیا...؟
میری بات مانو شادی کے لیے ھاں کر دو.
اُس کی ماں اُس کی دوسری شادی کروانا چاھتی تھی. میں ابھی زھنی طور پر تیار
نہیں ھوں. اُس نے کہا, آپ حِرا کی شادی کی فکر کریں اُس کے بعد میں بھی مان
جاؤں گا...
حِرا اُس کی چھوٹی بہن کا نام تھا.
بیٹے کی بات سنتے ھی ماں نے حِرا کے رشتے دیکھنے شروع کر دیے جلد ھی ایک
بہت اچھے خاندان میں اچھی طرح چھان بین کے بعد شادی کر دی گئی.
اب ماں نے اُس سے دوبارہ شادی کی بات چھڑی, وہ مان تو گیا پر اُس نے ایک
شرط رکھ دی کے کسی طلاق یافتہ لڑکی سے شادی کرے گا تاکہ کسی کی بےرنگ زندگی
میں رنگ بھر سکے. اور شرط سنتے ھی اُس کی ماں کا رنگ غیر ھو گیا اور غصے سے
لال پیلی ھو گئی.
میں کسی آوارہ بدکردار لڑکی ھو ھرگز اپنی بہو نہ بناؤں گی...
بھلا شریف لڑکی کو طلاق ھوتی
طلاق تو تیز طرار فیطین اور آوارہ لڑکیوں کو ھوتی ھے. میں ھرگز کسی طلاق
یافتہ گھر نہیں لاؤں گی.
اب تو ماں بیٹے میں اسی بات پر اَن بن رھنے لگی.
وہ اپنی ماں کو سمجھاتا کے ھمیشہ برائی لڑکی میں نہیں ھوتی, لڑکے بھی خراب
ھو سکتے ھیں.
اسی اَن بن میں 18 مہینے کا کا عرصہ گزر گیا.
ایک دن اُس کی بہن کے ساس سُسر اور اُس کی بہن گھر آئے. حِرا بلکل ٹھیک لگ
رھی تھی.
ارے اچھا ھوا آپ لوگ آگئے میں کافی دن سے حِرا سے ملنے کا سوچ رھی تھی لیکن
آنا نہیں ھو پایا.
حِرا کی ماں نے کہاں.
اب سب کمرے میں موجود تھے حِرا کے سُسر بولے...
مجھے سمجھ نہیں آ رھا آپ لوگوں سے کیسے کہوں
دیکھیے بہن, حِرا بہت اچھی لڑکی ھے، ھمیں اس سے کوئی شکایت نہیں...
لیکن
اب ھمارا بیٹا شاید اس کے قابل نہیں رھا. شادی کے کچھ مہینوں بعد سے میرا
بیٹا نا جانے کن لوگوں کے ساتھ بیٹھنے لگا. وہ نشے کا عادی بن چُکا ھے,
شراب نوشی بھی کرتا ھے اور پہلے تو صرف لڑائی جھگڑا کرتا تھا اب حِرا پر
ھاتھ بھی اُٹھانے لگا ھے. اسی وجہ سے ھم نے اُسے گھر سے نکال دیا ھے. اور
بہت سوچ بچار کے بعد ھم نے یہ فیصلہ کیا ھے کہ آپ کی بیٹی کی زندگی خراب نہ
کی جائےاسے ھم اپنے بیٹے سے طلاق دلوا دیں گے اور خود اس کی شادی کسی دوسری
جگہ کروائیں گے...
ھم اپنے بیٹے کی وجہ سے بہت شرمندہ ھیں. اور حِرا کو اپنی بیٹی کی طرح کسی
اور کے ساتھ رخصت کریں گے. اور.... اور
وہ بولتے گئے اور اُس کی ماں سکتے کی سی حالت میں بیٹھی سنتی رھی اور آنسو
بہاتی رھی...
اب اُس کی اپنی بیٹی بھی طلاق یافتہ تھی. اور طلاق یافتہ لڑکیوں کے لیے اُس
نے جو الفاظ ادا کیے تھے وہ اُس کے کانوں میں گونج رھے تھے.
اب ماں کو سمجھ آگیا تھا کہ بیٹا ٹھیک کہتا تھا ھر بار لڑکی قصور وار نہیں
ھوتی...
چاھے جتنی بھی چھان بین کرلو لڑکیوں کی شادی نصیب سے ھوتی ھے. ایک جُوے کی
طرح، قسمت اچھی تو لڑکی خوشحال. طلاق یافتہ ھونا کوئی بُرائی نہیں یہ تو
قسمت کے کھیل ھیں اکثر بُرے سے بُرے اعمال والی لڑکیوں کے گھر بس جاتے ہیں
اور اچھی سے اچھی لڑکیوں کے نہیں بس پاتے. تربیت سے پرکھیں صرف اس وجہ سے
کوئی رائے قائم کر لینا کہ طلاق یافتہ ھے بہت زیادتی ھے...
معاشرے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ھمیں اپنی سوچ کُشادہ رکھنے کی ضرورت
ھے.
طلاق یافتہ لڑکیوں کی دوبارہ شادی ھونے سے معاشرہ بے راہ روی سے بچے گا.
|