ایک دوست فیملی سعودی عرب میں مقیم تھی صاحب خانہ اچھے
پڑھے لکھے ہنرمند تھے اور اچھی پوسٹ اور تنخواہ پر کام کرتے تھے ۔ پھر کچھ
اپنا کاروبار بھی کرنے لگے ۔ ہر سال پاکستان جاتے تھے قیمتی سامان سے بھرے
ہوئے سوٹ کیس ساتھ لے کر ۔ اور پورے خاندان میں تھیلے بھر بھر کر بانٹتے
تھے ۔ ایکمرتبہ ایسا ہؤا کہ ان کے بیٹے کا کسی یورپی یونیورسٹی میں داخلہ
ہو گیا اس کی فیس اور سفر روانگی پر بہت خرچ آیا اور ساتھ ہی اسی دوران
انہیں کاروبار میں نقصان بھی ہؤا ۔ اس مالی بحران کے باوجود انہوں نے اپنا
پاکستان کا معمول کا دورہ منسوخ نہیں کیا بس یہ ہؤا کہ اس بار تحائف سے
بھرے ہوئے سوٹ کیس ساتھ نہیں لے جا سکے ۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنی مالی
تنگدستی کا ذکر بھی کر دیا ، اتنا سنتے ہی سب کی نظریں ہی بدل گئیں اور
چہروں پر سرد مہری چھا گئی ۔ ان صاحب کے اپنے الفاظ ہیں کہ کوئی ہم سے
سیدھے منہ بات ہی نہیں کر رہا تھا ہم نے کہا اچھا تو یہ بات ہے اب آئندہ سے
تم لے لو ہم سے کچھ ۔ کہتے ، پھر اس کے بعد ہم کبھی کسی کے لئے کچھ لے کر
نہیں گئے بیسیوں بار اتنا کچھ کر کے ایکبار نہ کر سکے تو سب نے اپنی اوقات
دکھا دی اور ہماری آنکھیں کھول دیں ۔
پاکستان میں انہی کی اپنی محنت کی کمائی سے خریدا گیا ایک اپارٹمنٹ بھی تھا
جس میں ان کا ایک چھوٹا بھائی اپنی فیملی اور ماں کے ساتھ مقیم تھا ۔ ماں
کے جیب خرچ کے نام پر یہ ایک معقول رقم بہت باقاعدگی کے ساتھ بھیجا کرتے
تھے ۔ اس کے باوجود اکثر ہی بھائی گھر میں نکلنے والے کسی مرمت وغیرہ کے
کام کے لئے انہی کو فون کھڑکا دیا کرتا تھا ۔ کبھی اضافی اخراجات کا رونا
رو کر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی بھی انہی کے ذمہ لگا دیتا تھا ۔ اور یہ صرف
اسی ایک گھرانے کی بات نہیں ہے ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے
بیرون ملک مقیم پاکستانی جب اپنی باہر کی کمائی سے وطن میں کوئی گھر وغیرہ
خریدتے ہیں تو اس پر قبضہ ہو جانے کے ڈر سے اسے کرائے پر نہیں چڑھاتے بلکہ
خود اپنے ہی گھر والوں میں سے کسی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ پھر کرائے کی مد
میں حاصل ہونے والی آمدنی تو رہی ایک طرف اُلٹا گھر میں نکلنے والے کسی بھی
کام پر پیسے خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے حالانکہ وہ کام کثرت
استعمال اور مناسب دیکھ بھال اور بروقت توجہ نہ ہونے ہی کی بدولت نکلتا ہے
مگر گھر میں مزے سے مفت میں رہنے والے گویا کوئی احسان کر رہے ہوں ۔ ایسے
قصے بھی پتہ چلتے ہیں کہ وہاں جاتے ہوئے تحائف میں کوئی کمی کسر رہ جائے تو
سگے بہن بھائی اور ان کے بال بچے پیچھے سے کہتے ہیں کہ ہمیں ٹکے ٹکے کی
چیزیں دیں ۔ لوگ پردیس میں گدھوں کی طرح محنت کرتے ہیں پھر گدھوں ہی کی طرح
لد پھند کر جاتے ہیں مگر پھر بھی کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا ۔ مطالبات و
فرمائشوں کا سلسلہ بھی نہیں رکتا اور آخر میں جا کر پتہ چلتا ہے کہ ہم تو
کسی کے لئے کچھ کر ہی نہیں سکے ۔
|