اللہ کا دوست

نئے سکول میں آج میراپہلادن تھا۔اسی وجہ سے خوشی تھی اورڈربھی۔اسی خوشی میں میں نے ناشتہ بھی برائے نام کیااورپہلے ہی دن وقت پرسکول پہنچ گیا۔ سکول میں قدم رکھتے ہی سامنے پرنسپل آفس پرمیری نگاہیں جم گئیں۔اگلے لمحے میں اندرتھا۔

تحریر: عدیل الر حمان الہ آبادی

نئے سکول میں آج میراپہلادن تھا۔اسی وجہ سے خوشی تھی اورڈربھی۔اسی خوشی میں میں نے ناشتہ بھی برائے نام کیااورپہلے ہی دن وقت پرسکول پہنچ گیا۔ سکول میں قدم رکھتے ہی سامنے پرنسپل آفس پرمیری نگاہیں جم گئیں۔اگلے لمحے میں اندرتھا۔
”میں اسلامیات پڑھاتانہیں،سکھانے کی کوشش کرتاہوں۔“میں نے اپنے نئے سکول کے پرنسپل سے کہا۔
”میں سمجھانہیں“۔پرنسپل صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔”ذراوضاحت کردیں“۔
اسی لمحے چپراسی نے چائے لاکر ٹیبل پررکھی۔میں چائے کاکپ اٹھاکرپرنسپل صاحب کی طرف متوجہ ہوا۔
”بات یہ ہے۔جناب اس مضمون کی افادیت مطالعے میں نہیں،اسے سمجھنے اوراس پرعمل کرنے میں ہے۔اس مضمون کامقصدطالب علم کویہ بتاناہے کہ معاشرہ افراد سے بنتاہے۔ لہٰذاہرفرداپنی جگہ اہمیت رکھتاہے۔فردمعاشرے کی عمارت میں لگی اینٹ کی طرح ہے۔اینٹ ذرا بھی ٹیڑھی لگے توعمارت میں کمی ضرورآئے گی۔
یہ مضمون بتاتاہے کہ اچھاانسان کیا ہوتا ہے؟اسلام کیاہے؟ہمیں اپنے معاشرتی نظام اورزندگی کواسلامی اصولوں کے مطابق کیسے ڈھالنا چاہئے۔
اس کا مقصد طالب علم کوسچامسلمان اورسچاپاکستانی بناناہے۔کیونکہ ہرطالب علم مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک پاکستانی بھی ہے۔اس ناتے اس کی پہچان صرف اسلام اور پاکستان ہونی چاہئے۔“
”بہت دلچسپ تھیوری ہے۔“پرنسپل صاحب نے چائے کاگھونٹ لے کرکہا۔
”تھیوری نہیں یہ توخالص عملی بات ہے“۔میں نے زو ردے کرکہا۔”مثلاً استادکی حیثیت سے عزت اوراحترام میراحق ہے لیکن میری عزت کرنامیرے طلباء کا فرض بھی ہے اگروہ اپنے فرائض تومیرایہ حق کبھی مسئلہ بنے گاہی نہیں۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ“۔پرنسپل صاحب نے کہا”لیکن میرانظریہ یہ ہے کہ ہمیں نئی نسل کو بہتر بلکہ بہترین پاکستانی بنانے پرزوردینا چاہئے۔“
”یہ تومرحلے ہیں جناب!جواچھاشہری بنے گاوہ اچھاپاکستانی بھی بنے گا۔ہمیں نئی نسل کوان کی پہچان بتانی ہے کہ ان کی حقیقت کیاہے۔
ان کاتعلق کس امت اور کس قوم سے ہے۔ انہیں ہر لمحے اپنی پہچان یادرکھنی چاہئے۔وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جواپنی پہچان بناتی ہیں۔ہم ترقی میں چندقدم پیچھے ہیں اس لیے کہ ہم نے اپنوں کی بجائے اغیارکی تقلیدشروع کردی ہے۔“
”بہت خوب“۔پرنسپل صاحب کے ستائشی کلمات نے میرے اندرنئی روح پھونک دی۔ ”مگرآپ نے ایک چیزپربہت زیادہ زوردیناہے، وہ ہے محنت،جس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم ترقی سے محروم ہیں۔اپنی محنت کے بل بوتے پرمغربی اقوام ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔“
”واقعی یہ بہت شاندارآئیڈیاہے۔“میں نے پرنسپل صاحب کی باتوں کی تائیدکی۔”محنت سے جی چرانا اورکامیابی کیلئے مسلسل محنت کی بجائے شارٹ کٹ راستہ اختیارکرنا ہماری بہت بڑی کمزوری بن چکاہے۔ہمیں نئی نسل کے ذہن میں محنت کوبٹھاناہوگا۔انہیں محنت کی عظمت کا یقین دلاناہوگا۔“
”شکریہ!شہاب صاحب۔میں آپ کے خیالات کی قدرکرتاہوں۔اب یہ آپ کاکام ہے کہ آپ نئی نسل کوکس اندازسے اپناہم خیال بناتے ہیں۔

“پرنسپل صاحب نے الوداعی کلمات کہے۔ ”بس آپ اپنی ذمہ داری سنبھالیں۔دس بجے آپ نے کلاس لینی ہے۔“
میں نے اٹھ کر مصافحے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔
”آپ کوہرمرحلے پر،ہرمعاملے میں میراتعاون حاصل رہے گا۔“پرنسپل صاحب مسکرائے۔
کلاس روم میں خوب شورشراباتھا۔تمام بچے اپنی عادت وفطرت کے مطابق گپیں ہانک رہے تھے۔میں نے کمرے میں قدم رکھا تو سب کو سانپ سونگھ گیا۔ سب کے سب خاموشی سے سیدھے بیٹھ گئے۔پھراچانک کلاس کی دائیں جانب ”کلاس سٹینڈ“کی آواز گونجی۔ یقینا یہ کلاس مانیٹر تھا۔ اس کی آوازسن کر سب بچے باادب کھڑے ہوگئے۔
”سِٹ ڈاؤن پلیز“۔سب بیٹھ گئے۔
”شایدآپ جانتے ہوں میں آپ کااسلامیات کانیااستادہوں“۔
”یس سر۔“چندبچوں کی آوازآئی۔
”آج پہلی بارآپ کی کلاس لے رہاہوں۔اورآج کچھ پڑھاؤں گا نہیں۔ میرا اصول ہے کہ پہلے میں خودکواپنی کلاس میں متعارف کراتا ہوں پھرخود اپنے شاگردوں سے تعارف حاصل کرتاہوں۔کیونکہ استادکاشاگردوں سے بڑاگہراتعلق ہوتاہے۔استادمعلم ہے۔

اس کاکام علم وآگہی دینا ہے۔یہی کام گھرمیں ماں باپ بھی کرتے ہیں۔اس لحاظ سے کہاجا تا ہے کہ استاد باپ کی جگہ ہوتا ہے۔ اورمیرے نزدیک استادہی بہترین ہی دوست ہے۔ شاگردوں کواستادکااحترام کرتے ہوئے اس سے بے تکلف بھی ہوناچاہئے تاکہ وہ اپنے مسائل پراستاد سے بات کرسکیں۔اس سے مشورہ لے سکیں اور استادان کی راہنمائی کرسکے۔“
چندلمحے کلاس میں خاموشی چھائی رہی پھرکچھ ملی جلی آوازیں ابھریں۔
”تھینک یوسر“۔
”اب میں اپناتعارف کرادوں۔میرانام شہاب حیدرہے۔صحافت میں ماسٹرز کیا ہے۔مگرعملی طورپر تدریسی میدان میں آ گیا۔پڑھانامیرا پروفیشن ہی نہیں بلکہ اس سے مجھے دلی طمانیت ملتی ہے۔اورمیں نے اسلامیات کامضمون اس لیے منتخب کیاہے کہ آپ کو اس پرفتن دور میں حقیقی اسلام سے آگاہ کروں اورآپ کو محب وطن شہری بناؤں۔

اب آپ لوگ باری باری اپناتعارف کرا دیں۔ میں نے پہلی قطارمیں داہنی جانب بیٹھے لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔“
سر!میرانام عمراحمدہے۔میرے ابوکانام حیات احمدہے۔وہ ایک بنک منیجرہیں۔
اس کے والدکاسن کر ساری کلاس پررعب طاری ہوگیا۔اتنے میں دوسرالڑکاکھڑاہوگیا۔
سر!میرانام حمزہ ہے۔میرے ابوایک پرائیویٹ فرم میں جنرل منیجرہیں۔
”اوہ ……یہ بھی منیجر……“۔میرے منہ سے نکلا۔
اس کے بعدتیسرالڑکاکھڑاہوا۔وہ بھی پہلے دونوں سے کم نظرنہیں آرہاتھا۔
مجھے ذیشان کہتے ہیں۔میرے ابوایک تاجرہیں ان کاکپڑے کابزنس ہے۔
ان سب کے تعارف میں حیران کن بات ان کابیک گراؤنڈتھا۔جسے وہ فخریہ اندازمیں بیان کررہے تھے۔یہ بات مجھے اچھی نہ لگی۔

آگے بھی تعارف ہواتوتمام لڑکے اعلیٰ اورکھاتے پیتے گھرانوں کے چشم وچراغ ثابت ہوئے۔کیونکہ یہ ایک مہنگا اور معیاری سکول تھا۔غریب لوگوں کے بچے تواس کاصرف سوچ سکتے تھے۔
ابھی انہی خیالوں میں مگن تھاکہ ایک لڑکاجولائن کے آخری ڈیسک پربیٹھاتھا،اٹھ کھڑاہوا۔اس کاچہرہ اعتمادسے عاری نظر آ رہا تھا۔

میں نے اسے تعارف کرانے کاکہا تووہ قدرے ہچکچاتے ہوئے بولا:
سر!میرانام محمدعلی ہے۔میراتعلق ایک عام سے گھرانے سے۔کلاس کے تمام لڑکے اس کامنہ تکنے لگے تووہ نروس ہونے لگا۔
”آپ کے ابوکیاکام کرتے ہیں۔“میں نے تجسس سے پوچھا۔
”جی ……جی ……وہ ……اللہ کے دوست ہیں“۔اس کاجواب سن کرکلاس میں قہقہے گونجنے لگے۔ مگرمیری سنجیدگی سے خاموش ہوگئے۔
”اللہ کے دوست ……وہ کیسے۔کیاآپ اس کی وضاحت کرناپسندکریں گے۔“
جی وہ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ہمارے نبی کریم ﷺکاارشاد ہے کہ ہاتھ سے کمانے والااللہ کادوست ہے تومیرے ابوبھی اللہ کے دوست ہوئے۔کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں۔وہ سارادن محنت مزدوری کرتے ہیں تاکہ میری فیس اداکرسکیں اورمجھے بہترسے بہتر تعلیم دلوا سکیں۔

وہ کہتے ہیں تم خوب محنت کرواوربڑاآدمی بننا۔“اس کاجواب سن کر میں حیران رہ گیا۔ اس قدرپختہ یقین کے لوگ دیکھ کردل کوسرورملا۔میں نے اسے شاباش دی اورپوری کلاس سے مخاطب ہوا۔
”واقعی ہاتھ سے کمانے والااللہ کادوست ہوتاہے۔محنت کی عظمت اوربرکت سے کون واقف نہیں ہے۔آپ کے ابوکامقام بہت بلندہے۔ آپ کواس پرفخرہوناچاہئے۔اللہ کے نبی حضرت داؤدعلیہ السلام بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایاکرتے تھے۔“
میری بات سن کر پوری کلاس محمدعلی کورشک کی نگاہ سے دیکھنے لگی۔محمدعلی بھی پرسکون نظرآرہاتھا۔ مجھے خوشی تھی کہ میں نے پہلے ہی دن کلاس کو محنت کی عظمت سمجھادی۔

Adeel ur Rahman
About the Author: Adeel ur Rahman Read More Articles by Adeel ur Rahman: 5 Articles with 6569 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.