یہ غالباً آج سے دو اڑھائی سال
پیشتر کی با ت ہے جب راقم السطور نوجوان عالم دین مولانا خلیل سرفراز ی کے
ہمراہ ممتازعلمی ، دینی شخصیت اور معروف قلم کار مولانا عطاءالحق قلبی
مدظلہ کے ہاں مدرسہ عربیہ اسلامیہ جی ٹی روڈ حاجی شاہ اٹک میں حاضر ہوا تھا
، اس سے قبل ہم نے مولانا کا نام نامی بطور ایک معروف نظم و نثر نگار کے
سنا تھا تاہم شومئی قسمت کہ ان کی کوئی تحریرہماری نظروں سے نہیں گزر سکی ۔سرپر
سفید ٹوپی اور چہرے پر سنت رسول ﷺ سجائے دھان پان سے مولانا عطاءالحق قلبی
مدظلہ عشق مصطفی ﷺسے سرشار اور صاحب دیدہ و بیدار ہیں،مولانا نہایت ہی قلیل
عرصے میں ملک کے قلمی و ادبی افق پر نمودار ہوئے اور چھاگئے، آپ کی دینی
بصیرت اور وسیع مطالعہ قابل رشک ہے ۔ جب مولانا مجھ ایسے ایک ادنیٰ سے
لکھاری کے سامنے تشریف فر ماءہوئے تو ایک لمحے کو بالکل یقین نہیں آیا کہ
یہی وہ مرنجان مرنج مولانا ہیں جن کے بے باک اور پر اثر قلم کے دور دور تک
چرچے ہیں۔ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مولانا کا قلم نظم اور نثر دونوں
میدانوں میں رواں دواں ہے اور ووہ اس فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ، ان کی
علم و ادب سے گہری وابستگی اور علمی مجلس میں انسان کو بہت دلچسپی محسوس
ہوتی ہے اور ان سے مل کر اسلاف کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں ۔ یہ مختصر سی
ملاقات جو اپنے حوالے سے ہر طرح سے خوشگوارتھی شاید راقم کبھی بھی بھول نہ
پائے گا ۔ پھر اس کے بعد یوں ہوا کہ مولانا کی قلمی جدو جہدکے حوالے سے
بھائی خلیل سر فرازی صاحب گاہے بگاہے آگاہ کر تے رہے جب کہ حال ہی میں انہی
کی طرف سے مولانا کے نئے قلمی شاہکار ”تحفہ حرم“اور ”عہد نبویﷺ“کا ترمیم
شدہ ایڈیشن مولانا قلبی صاحب کی ڈھیروں نیک خواہشات اور دعاﺅں کے ساتھ
موصول ہوئے ۔ ان کتابوں سے حقیقی معنوں میں مولانا کی اسلام سے محبت منعکس
ہوتی ہے اور ان میں موجود چاشنی کو قاری بڑی دیر تک محسوس کرتارہتا ہے ۔میں
سمجھتا ہوں کہ مولانا کی یہ کتابیں ان کے چاہنے والوں کے لیے کسی بھی طرح
سے نوید ِمسرت سے کم ہر گز نہیں ہیں ۔”تحفہ حرم “اور” عہد نبویﷺ“ میں
مولانا کی شاعری نے اسے یقینا چار چاند لگا دیے ہیں، اس سے پیشتر بھی
مولانا کی کئی کتابیں منصہ شہود پر آکر قارئین سے داد اور تحسین پا چکی ہیں
،ان کے قلمی شہہ پاروں کی فہرست کافی طویل ہے اور ایک بڑا حلقہ قارئین ان
کی تحریروں کا شیدائی اور گرویدہ ہے تاہم مولانا کی یہ دو کتابیں اپنے
جداگا نہ اسلوب کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہیں۔مصنف نے بڑی مہارت ،
جانفشانی ، عرق ریزی اور ذوق جستجو سے یہ قلمی شاہکا ر مرتب کر کے فیصلہ
اپنے حلقہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے ۔ گہرے الفاظ ہیں جو نہایت عمدگی سے قاری
کے دل میں اترنے لگتے ہیں۔ ”تحفہ حرم ‘ ‘ مولانا کے سفر حرم کی روداد ہے،
روداد کیا ہے۔۔۔۔ ؟ بس عشق حقیقی کی ایک کھلی کتا ب ہے جسے قلم کار نے بڑے
جذبات ، احساسات اور غم واندوہ کے ساتھ مرتب کیا ہے اور قلم کے ساتھ انصاف
کرنے کی پوری پوری سعی کی ہے ۔دین اسلام کے اس سچے خادم ، عالی دماغ عالم
دین کی بالغ نظر ی ، شائستہ پن اور خوبصورت نظم و نثر سے بندہ متاثر ہو ئے
بناءنہیں رہ سکتا۔ یہ دو کتابیں مضبوط اور خوبصور ت جلدپر مشتمل ہیںجو عوام
الناس کے لیے ”کسی تحفہ خاص“ کم ہر گز نہیں ہیں۔موصوف کی یہ علمی کاوش ہر
لحاظ سے اہم ہے ،عہد نبویﷺ کو ایک نئی آب اور تاب کے ساتھ قارئین کی خدمت
میں دوبارہ پیش کیا گیا ہے جس کے لفظ لفظ سے عشق رسالت ﷺکی ٹھنڈی ہوا کے
جھونکے محسوس ہوتے ہیں ۔ شیخ الحدیث مولانا مفتی عیسٰی خان صاحب اور مولانا
مفتی حسن مدظلہ العالی جیسی مستند علمی شخصیات نے ان کتب کی تقریظات لکھی
ہیں۔ مفتی عیسیٰ خان صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا عطا ءالحق قلبی فاضل ادیب ،باذو
ق طبیعت کے مالک ، قلبی تخلص ، سہل الکلام ہیں، جس ادا سے چاہیں بات کرنا
جانتے ہیں، مولانانے ”عہد نبوی ﷺ “کی طرح ”تحفہ حرم “ کو بھی مرقعہ ادب بنا
دیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ قارئین کی طرف سے مولانا کی اس بے مثل و بے مثال
جدوجہد کو بھی حسب سابق خوب سراہا جائے گا۔اہل اسلام کے لیے ان کتابوں کا
مطالعہ نہایت مفید ثابت ہوگااور یہ کتابیں اس بات کا پورا پورا حق رکھتی
ہیں کہ انہیں اپنے کتب خانے کی زینت بنایا جائے ۔ دعا ہے باری تعالیٰ
مولانا کی تخلیقات کو مزید تاثیر سے نوازتا رہے اور ان کا قلم سدا حق و
صداقت کا بول بالا کرتا رہے (آمین) |