قاضی کاشف نیاز
کسی کو گھر بیٹھے ایسا ذریعہ رزق مل رہا ہو،اسے پیشکش کی جا رہی ہو کہ آپ
گھر بیٹھے لاکھوں روپے حاصل کر سکتے ہیں اور ان کی جان ،مال اور عزت بھی
محفوظ رہے گی لیکن وہ ناشکرا انسان اتنی بڑی پیشکش ٹھکرا کے گلی گلی کی خاک
اور دھول چاٹ کے رزق ڈھونڈنا شروع کر دے اور اس طریقے کو زیادہ ترجیح دے تو
اسے یقینا پاگل، دیوانہ اور فاترالعقل ہی سمجھا جائے گا۔۔اخبارات کے آج کل
کے سب سے پرکشش اشتہارات یہی ہوتے ہیں کہ گھر بیٹھے روزگار حاصل کریں۔۔۔یہ
ہمارے دین اسلام کا کیسا اعجاز ہے کہ اس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی
انسانوں کے ایک کمزور اور نازک طبقے کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے اس کے لیے
ایسی ہی اعلی ترین اور پرکشش ترین سہولت کا بندوبست کر دیا۔۔۔اس طبقے کے
لیے اعلان کیا گیا کہ آپ صرف گھر سنبھالیں،اس کے بدلے آپ کی تمام ضروریات
آپ کا شوہر،آپ کا باپ،آپ کا بھائی اور آپ کا بیٹا پوری کرے گا۔۔لیکن افسوس
اتنی عظیم پیشکش کو ہمارے اس طبقے نے اپنے حقوق کے منافی قرار دے دیا۔۔
عورت کی ہر طرح کی ناز برداری برداشت کرنے والے ایک مرد کی اطاعت و
فرمانبرداری چھوڑ کر اس نے پورے معاشرے کے مردوں کی غلامی کو ترجیح دے
دی۔۔۔پہلے وہ صرف گھر داری کرتی تھی...نئی نسل کی پرورش و تربیت کا سب سے
کٹھن فریضہ ادا کرتی تھی اور گھر میں ملکہ اور شہزادیوں کی طرح رہتی
تھی۔۔۔اب وہ مغرب کے پھیلائے ہوئے جال میں آ کر ڈبل نوکری کر رہی ہے۔۔۔گھر
کی بھی اور باہر کی بھی جبکہ اس نے اپنی عزت و صحت کا الگ بٹہ لگایا ہوتا
ہے۔۔۔
ہم عورتوں کے جائز اسلامی حدود کے اندر رہ کر خاص شعبوں میں اور محفوظ
ماحول میں ان کی شرکت کے قطعاََ خلاف نہیں لیکن یہ سب ایک محدود حد کے اندر
ہی خود عورت کے لیے بہتر ہے لیکن جو عورتیں برابری کے حقوق کی دعویدار ہیں
تو پھر وہ خود بھی اس پر منصفانہ عمل کریں۔۔۔ ہماری اسلامی روایت ہے کہ
عورت اگر بس میں کھڑی ہو تو مرد احتراماََ اس کے لیے سیٹ چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔
برابری کے حقوق کی طلبگار عورتوں کو پھر مرد سے ایسے ایثار کی توقع نہیں
کرنی چاہیے۔۔۔ایک مرد کسی مرد کے سامنے تو کسی بھی مسئلے پر جیسا چاہے بول
لیتا ہے لیکن اگر یہی مرد کسی عورت کے سامنے ہو تو وہ عورت کا عموماََ لحاظ
کرتے ہوئے غلطی پر عورت کے ہونے کے باوجود احتراماََ یا مصلحتاََخاموش رہنا
پسند کرتا ہے۔۔۔برابری کے حقوق کی دعویدار ماڈرن مغرب زدہ عورتیں اس معاملے
میں بھی برابری کی قائل نہیں اور وہ مرد کا عورت کے سامنے خاموش رہنا ہی
اپنا حق سمجھتی ہیں چاہے عورت خود کتنی ہی غلطی پر کیوں نہ ہو۔۔۔ملازمت
پیشہ عورتیں اپنے خاوندوں کو عموماََ یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ جو آپ کے
پیسے ہیں ،وہ میرے پیسے ہیں اور جو میرے ہیں ،وہ تو ہیں ہی میرے یعنی وہ
اپنے پیسوں پر تو خاوند کا کوئی حق نہیں سمجھتیں لیکن خاوند کے پیسوں پر وہ
اپنا پورا حق سمجھتی ہیں۔۔۔یہ عورتیں عموماََ یہ چاہتی ہیں کہ ملازمت تو وہ
جہاں مرضی،جیسی چاہیں کریں کہ یہ ان کے برابر کے حقوق کا مسئلہ ہے لیکن جب
گھر میں اخراجات کا مسئلہ ہو تو تب وہ کہتی ہیں، یہ تو شوہر کی ذمہ داری
ہے۔۔بھائی شوہر تو یہ ذمہ داری پوری ادا کرنا چاہتا ہے اور کرتا بھی ہے
لیکن یہ کیا ہوا کہ جب آپ نے حق لینا ہو تو مغربی ایجنڈے پہ سوار ہوجائیں
اور جب حق دینے کی باری آئے تو آپ فوراََ بگٹٹ اسلامی گھوڑے پہ سوار
ہوجائیں۔۔۔پھر آپ کو پورا اسلام یاد آ جاتا ہے۔۔۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ماڈرن عورتوں کو اسلام کے بنیادی احکام کا بھی شاید
ہی علم ہوتا ہے لیکن اسلام نے انہیں جو حقوق دیئے ہوتے ہیں ،اس کی ایک ایک
بات کا انہیں اتنا علم ہوتا ہے کہ شاید کسی عالم کو بھی نہ ہو،انہیں نہیں
معلوم ہوتا تو اسلام میں ان کے فرائض کا۔۔۔فرائض کے معاملے میں وہ ایسے
لاعلم ہو جاتی ہیں جیسے انہوں نے اس بارے کبھی کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔یہ مغرب
زدہ دوہرے رویئے کی حامل عورتیں کسی غیر محرم مرد کے ساتھ بازاروں ،ہوٹلوں
اور پارکوں میں جانا تو اپنے برابری کے حقوق کا تقاضا سمجھے۔۔۔مردوں کو خود
اپنے ساتھ ہلا گلا کے لیے بلائے۔۔اور کہے میر ا جسم میری مرضی۔۔۔پھر ان کے
ساتھ مل کے بے باکانہ ڈانس کرے۔۔۔ لیکن جب کسی جگہ اس کے ساتھ انہونی ہو
جائے تو پھر سارا قصور مرد کا اور مردوں کا۔۔دنیا کے تمام قوانین میں یہ
بات سنی اور تسلیم کی گئی ہے کہ اگر کسی سے اشتعال میں آ کر اچانک قتل
ہوجائے تو اسے بہرحال ویسی سزا کا مستحق نہیں سمجھا جاتاجو قانون میں واقعی
ایک قاتل کی سزا ہوتی ہے۔۔۔لیکن یہاں مرد کو اس قدر جنسی طور پر مشتعل کیا
جائے اور عورت کے دیئے گئے اشتعال یا دیئے گئے فری ہینڈ کی وجہ سے مرد بھی
جواباََ کوئی غلطی کر بیٹھے تو ظالم صرف مرد اور عورت مکمل معصوم کی معصوم
اور مظلوم کی مظلوم۔۔۔مرد عورت کی عریانی و فحاشی،بے پردگی اور آزاد روی و
آوارہ پن کی وجہ سے اسے گھور بھی بیٹھے تو مرد پر فورا جنسی ہراسانی کا
الزام حالانکہ جنسی طور پہ ایسی عورت ہی مرد کو ہراساں کرتی ہے لیکن اس
عورت پر کوئی مقدمہ نہیں...شوبز کی بڑی بڑی اداکارائیں اور ماڈلز آج یہ راز
لیک آؤٹ کرتی پھرتی ہیں کہ فلاں مرد اداکار نے انہیں جنسی طور پہ ہراساں
کیایا دست درازی کی۔۔ لیکن یہ موقع انہیں کس نے دیا۔۔۔ شوبز میں ،فلموں میں
عام طور پر اداکار کا اداکارہ کو ہاتھ لگانایاگلے لگانا کوئی معیوب بات
نہیں سمجھی جاتی بلکہ اسے پروفیشن اور سین کا تقاضا کہہ کر نظر انداز کیا
جاتا ہے۔۔ اس آڑ میں جو فحش ترین سین فلمائے جاتے ہیں ، انہیں فحش سین کی
بجائے" بولڈ سین"اور ایسی اداکارہ کو "بولڈ اداکارہ" کا معززانہ نام دیا
جاتا ہے۔۔۔ ہاں اگر اس ماڈل و اداکارہ کی کسی مرد اداکار سے اس کی شان میں
کوئی سبکی ہو گئی تو پھر یکدم اسی مادر پدر آزاد عورت کو اسلام کے سارے
تقاضے یاد آ جاتے ہیں اور وہ عموماََ اپنی کسی ذاتی انا کی توہین کا بدلہ
لینے کے لیے مرد کو اسلام کی سولی اور بلی چڑھا دیتی ہے۔۔اب وہ اسلامی عزت
و غیرت اور ناموس کی پیکر بن جاتی ہے۔۔۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ عورت کے جو جائز حقوق ہیں ، وہ ہر صورت اسے ملنے
چاہئیں۔۔۔اس کے اصل حقوق تو یہ ہیں کہ اس پر اندر اور باہر کی ڈبل ڈیوٹی
ختم کی جائے۔۔۔اس کی ڈیوٹی کو آدھا کیا جائے۔۔۔اسے مردوں اور درندوں کے
جنگل میں جانے پہ مجبور نہ کیا جائے۔۔۔جہاں اس کے ساتھ آئے دن ’’ انہونیاں
‘‘ ہوتی ہیں۔۔۔یہ ’’ انہونیاں ‘‘ مغرب میں تو عام ہوچکی ہیں۔۔۔ وہاں کی
عورت یہ آزادی پا کر آج اس بے بسی کی حالت میں ہے کہ اپنے اوپر زیادتی اور
ظلم کو وہ ظلم اور زیادتی بھی نہیں کہہ سکتی۔۔۔وہاں ان آزادیوں کے طفیل
بغیر نکاح کے اس سے اس کی جوانی تک خوب فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور بہانہ یہ
کیا جاتا ہے کہ ابھی ہم انڈر سٹینڈنگ پیدا کر رہے ہیں۔۔۔لیکن انڈر سٹینڈنگ
ہونے تک لڑکی کی جوانی ختم ہو جاتی ہے تو اس میں شادی کے لیے وہ کشش ہی ختم
ہوجاتی ہے اور پھر اس کی ساری عمر اولڈ ہوم کی نذر ھو جاتی ھے۔اﷲ تعالیٰ
ہماری ماؤں بہنوں کو ایسی دردناک آزادی اور ان کے برے انجام سے بچائے۔۔۔
انہیں اس دین اسلام پر چلائے جس میں الحمدﷲ اس کے حقوق سے بھی بڑھ کر تحفظ
کیا گیا ہے۔۔۔جہاں اس کے قدموں میں جنت تک رکھ دی گئی اور یہ اعزاز مرد کو
نہیں،صرف عورت کو دیا گیا ہے۔۔جہاں اس کو ہر طرح کی وراثت میں حق دیا
گیا۔۔باپ کی طرف سے بھی اور شوہر کی طرف سے بھی۔۔اس وقت جب وراثت تو دور کی
بات،لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔۔۔پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم
ایسے معاشرہ میں اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی آمد پر بھی ان کا کھڑے
ہوکر اور ماتھا چوم کر استقبال کرتے،آپ ﷺ نے عورت کا حق مہر مقرر کیا اور
وہ بھی مرد نہیں ، عورت کی صوابدید پر کہ وہ جتنا چاہے مقرر کر سکتی
ہے۔۔دوسری طرف عورت کو جہیز کی لعنت سے آزاد کیا۔۔گویا رحمت اللعالمین صلی
اﷲ علیہ وسلم نے گھر کے سوا عورت پر ہر معاملے میں کم سے کم بوجھ اور ذمہ
داری رکھی۔۔۔ اپنے آخری خطبہ تک میں حضورﷺ یہی کہتے رہے کہ عورتوں کے
معاملے میں اﷲ سے ڈرتے رہو۔۔۔ڈرتے رہو۔۔ان کو بھی وہی کچھ کھلاؤ، پہناؤجو
تم خود کھاؤ اور پہنو۔۔۔یعنی معروف قاعدے کے مطابق۔۔
افسوس کہ ہم عہد جدید و قدیم کی ہر بری بات کو تو فوراََ گلے لگا لیتے
ہیں۔۔نہ جہیز چھوڑتے ہیں نہ وراثت میں حق دیتے ہیں اور نہ عورت کو مادر پدر
آزادی دے کر ننگ دھڑنگ ہونے سے روکتے ہیں۔۔۔اور الزام اسلام پر۔۔کاش ہم دین
اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات پر پورے پورے
عمل پیرا ہونے والے بن جائیں تو نہ کہیں عورت کے حقوق کا مسئلہ رہے نہ اس
کا کوئی کسی طرح بھی استحصال کر سکے۔۔۔
|