عالمی سیاست کی حالیہ کروٹ سے کئی ملکوں کی کایا پلٹ گئی
ہے جبکہ چند مخصوص ملک" تنہا ئی" کی گہری" کھائی" میں جاگرے ہیں۔پاکستان کی
اپنے ایک نام نہاد دیرینہ اتحادی امریکا سے" بیزاری" اورسفارتی
طورپر"بیداری" کے بعددنیا میں نئی دوستیاں ،دشمنیاں اورصف بندیاں منظرعام
پرآئی ہیں، طویل مدت کے بعد طاقت کاتوازن" بحال" جبکہ امریکا" بے حال" ہوتا
ہوا نظرآرہا ہے۔اسلام آباد میں جوبائیڈن حکومت کانیا سفیر اپنی ہرشاطرانہ
تدبیر کے باوجود تقدیراورتاریخ کاراستہ نہیں روک سکتا۔ روس نے یوکرین کو
للکارتے ہوئے اسے گردن سے دبوچ لیا اوربری طرح بھنبھوڑدیا ہے جبکہ نیٹو
اتحاد اقدامات کی بجائے محض بیانات تک محدود رہا، نیٹواتحاد کے نزدیک
یوکرین کی حیثیت ایک پیادے سے زیادہ کچھ نہیں لہٰذاء اس کی خاطردور دور تک
تھرڈورلڈ وار کاکوئی امکان نہیں۔دوسری طرف نڈر "چینی "قیادت کے دبنگ موقف
سے نیٹواتحاد کی "بے چینی" مزید بڑھ گئی ہے اورامریکا سمیت اس کے اتحاد ی
نرم پڑگئے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے حالیہ کامیاب دورہ روس کے عالمی سیاست
پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے ، ہرآزاد ریاست کی طرح پاکستان نے بھی اپنے
دوام اوراستحکام کیلئے درست راستہ چنا ہے۔ پاکستان جغرافیائی اورسفارتی
طورپرمقتدرقوتوں کیلئے مزید اہمیت اختیار کر گیا ،اب پاکستان کی
تقدیراورتوقیر کے فیصلے اسلام آباد میں ہوں گے ۔پاکستان اب مزید کسی مخصوص
کیمپ یابلاک کاحصہ نہیں رہا،کپتان کایہ اقدام ہماری اجتماعی آزادی
،خودمختاری اورخوددداری کاغماز ہے۔پاکستان کوچین کے بعد روس کے ساتھ" قرب"
کی پاداش میں عارضی طورپر" کرب"برداشت کرنا پڑے گاتاہم یہ کرب ہماری ریاست
اورقیادت کوکندن بنائے گا۔ امریکا کی منافقانہ دوستی سے اس کی دشمنی
پاکستان کیلئے زیادہ سودمند ہے، اگر ہم مزید امریکا کیـ" سہارے" رہے تودنیا
کی کوئی طاقت ہمیں" کنارے "تک نہیں پہنچاسکتی۔جوملک اپنے زوربازو اورقومی
وسائل پرانحصارکرتے ہیں،ان کامستقبل روشن ہوتا ہے،یادرکھیں"قرض" سے زیادہ
مہلک کوئی" مرض" نہیں ۔پاکستان کی مٹی آج بھی سونااگلتی ہے ،منتخب قیادت
کومالیاتی اداروں کی منت سماجت کرنے کی بجائے مادروطن کومعاشی طورپرخودکفیل
اورخوشحال بنانے کیلئے انتھک محنت کرنا ہوگی ۔
پشاور کی جامعہ مسجد میں خودکش حملے کے نتیجہ میں بچوں سمیت متعددنمازیوں
کی شہادت ملک دشمن قوتوں کی شیطانی اورکارستانی ہے ، مختلف طبقات کے
نمائندہ افرادکی طرف سے اس دلخراش سانحہ کی شدید مذمت کی گئی۔ اس قسم کے
اندوہناک واقعات سے پاکستان کے عوام مایوس یامنتشر ہونے کی بجائے
شرپسندعناصر کیخلاف مزید متحد اور امن وامان کیلئے مستعد ہوجاتے ہیں
۔پاکستان کوسات دہائیوں کے دوران امریکا کی نام نہاد دوستی کے نتیجہ میں"
دھوکے" اور"دھماکے " ملتے رہے ہیں ۔ خودغرض اوروفا کے مفہوم سے ناآشنا
امریکا کے چنگل سے نکلنا پاکستان کیلئے نیک فال ہے ،ماضی میں امریکا کے
ساتھ بظاہر مثبت تعلقات کے سبب" سوجوتے اورسوپیاز"کامحاورہ ہماری سیاسی
قیادت پرصادق آتا تھا تاہم موجودہ خوددار اورخودمختار منتخب ودفاعی قیادت
نے اس منافقت کیخلاف علم بغاوت بلندکردیا ہے جس کے بعد عنقریب ہمیں کوئی
جوتے مارنے کاتصوربھی نہیں کرے گا۔اب طوطاچشم امریکا ہمیں جوتو ں کے ساتھ
"پیاز"زہرمار کرنے پرمجبورنہیں کرسکتا۔کپتان کاجرأتمندانہ اورآبرومندانہ
انکار قومی حمیت کاآئینہ دار ہے، اس ہمت میں حکمت کارازپنہاں ہے۔مقتدرقوتیں
اب ماضی کی طرح پاکستا ن کومرعوب اورمغلوب کرنے کی پوزیشن میں نہیں
رہیں۔پاکستان کی بیداری اورغیرجانبداری دیکھتے ہوئے ہمارے متعدد دشمن ملک
ہماری ریاست کو عدم استحکام سے دوچارکرنے ،ہماری نڈرسیاسی قیادت
کاوجودمٹانے اورتخت اسلام آباد کو کنٹرول کرنے کیلئے نیا جال بچھاتے رہیں
گے لہٰذاء منتخب اوردفاعی قیادت کاقومی مفادات کی حفاظت کیلئے متفق ،متحد
اورمستعد رہنا ناگزیر ہے۔ کپتان کوروس اورچین کے حالیہ کامیا ب دوروں کی
سزا کے طورپرہٹانے کی سازش میں شریک کوئی اندرونی کردارہم وطنوں کیلئے قابل
اعتماد اورقابل رحم نہیں ہوسکتا،ان میں سے نناوے فیصد نیب زدگان اوراپنے
سیاسی مستقبل سے پریشان ہیں۔مسلم لیگ (ن)اور پیپلزپارٹی کے درمیان نظریاتی
فرق اب قصہ پارینہ بن گیا ہے ۔پرویزمشرف کی طرح عمران خان سے عداوت نے ان
دونوں پارٹیوں کوپھر سے عارضی طورپر ایک کشتی میں سوار کردیاہے ۔کپتان کو
اقتدار سے ہٹانے اوراحتساب کے شکنجے سے اپنی گردن بچانے کیلئے ماضی کے
بدترین سیاسی حریف آج حلیف بنے بیٹھے ہیں ۔
متحدہ اپوزیشن کومردہ اپوزیشن کہنا بیجا نہیں ہوگاکیونکہ مسلم لیگ (ن)
اورپیپلزپارٹی کے عمائدین ساتھ ہوتے ہوئے بھی ساتھ نہیں ،ان کاحال بھی ریل
کی دو پٹریوں جیسا ہے جودورتک ساتھ ساتھ چلنے کے باوجود کبھی ایک نہیں
ہوتیں۔مولانا فضل الرحمن بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اﷲ خان مرحوم
کامتبادل نہیں ہوسکتے ،ہماری ریاست کوانتخابی یااتحادی نہیں بلکہ انقلابی
سیاست سے دوام ملے گا۔"اصولی" کی بجائے "وصولی" اور"نظریاتی" کی بجائے
"مالیاتی "سیاست کازہر ہماری ریاست کی رگ رگ میں سرائیت کرگیا ہے۔شب
وروزایمپائر کے نیوٹرل ہونے کی دوہائی دینے والی مسلم لیگ (ن)
اورپیپلزپارٹی درحقیقت خود Establishment کے ساتھ Settlement کیلئے کوشاں
ہیں،غرضیکہ اپوزیشن کے بڑوں کاایک دوسرے پر"عدم اعتماد" کسی سے ڈھکا چھپا
نہیں ہے ،باہمی اعتماد اورخوداعتماد ی سے محروم متحدہ اپوزیشن کی وزیراعظم
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اگر ایوان میں آئی توپسپائی اس کامقدر
ہوگی،راقم نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی ناکامی کا
بھی قبل ازوقت بتادیاتھا۔اپوزیشن کوممکنہ تحریک اعتماد کے انجام کاعلم ہے ،
عوام کوگمراہ نہیں کیاجاسکتا۔اپوزیشن نے مرکزاورپنجاب میں پی ٹی آئی کی
حکومت گرانے کاتاثر دینے کیلئے تحریک عدم اعتماد کاڈھونگ رچایا ورنہ شریف
خاندان اورزرداری خاندان دونوں میں سے کوئی کپتان کوسیاسی شہیدبنانے کے حق
میں نہیں۔ہوشربامہنگائی کے بدترین منفی اثرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا
لیکن مہنگائی کی دوہائی دینے والی اپوزیشن بتائے اس کے پاس مہنگائی
اوربیروزگاری سے نجات کاکیا روڈ میپ ہے ۔اپوزیشن بتائے وہ عوام کی زندگی
میں کس طرح آسانیاں پیداکرے گی،پاکستان کابیرونی قرض کس طرح ادا ہوگا
۔جوسیاسی گروہ خود کو کپتان کامتبادل بتارہاہے وہ مسلسل چاردہائیاں باری
باری پاکستان اورپاکستانیوں کی بوٹیاں نوچتا رہاہے،وزیراعظم کیخلاف تحریک
عدم اعتماد کیلئے سرگرم سیاستدان خود قابل اعتماد نہیں ۔اپوزیشن کو ممکنہ
تحریک عد م کے باوصف وزیراعظم عمران خان اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے سلسلہ
میں پرامید اورپراعتماد ہیں ۔چوہدری برادران اورجہانگیر ترین یقینا کپتان
کے مقابلے میں شریف برادران کاساتھ نہیں دیں گے کیونکہ بدعہدی اور مطلب
براری کے معاملے میں شریف برادران کا"ماضی "بہت "داغی" ہے۔سیاسی روایات
اوراخلاقیات کے علمبردار،دھڑے باز ،باوفا اورباصفاچوہدری برادران یقینا ایک
سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کیلئے تیار نہیں ہوں گے ۔تاہم کپتان پرحکمران
اتحاد کے ارکان پارلیمنٹ کااعتماد کافی نہیں ہوگا،انہیں اپنے
ووٹرکااعتمادبحال اورعام آدمی کامورال بلند کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کی
ضرورت ہے ۔مہنگائی کی ستائی عوام حکمران اتحاد اورمتحدہ اپوزیشن دونوں سے
مایوس ہے ۔
کپتان کاپٹرول اورڈیزل سمیت بجلی کے نرخوں میں حالیہ معمولی کمی کااعلان
کافی نہیں ،حکومت عوام کومزید ریلیف کے ساتھ ساتھ محفوظ ماحول اور" انصاف"
کی فراہمی یقینی بنائے ،بینچ اوربار کی مشاورت ومعاونت سے انصاف کے ایوانوں
میں دوررس اصلاحات کرناہوں گی کیونکہ انصاف سے محرومی مایوسی بلکہ مزاحمت
میں بدل جاتی ہے،جہاں انصاف کانظام منہدم ہوجائے وہاں ظلم اور انتقام
کاراستہ بندنہیں ہوتا۔ریاست زناکاراوربدکارکوتختہ دارپربھی لٹکادے تو قوم
کی بیٹی سے ہونیوالی زیادتی کی تلافی نہیں ہوسکتی لہٰذاء ایسا نظام
بنایاجائے جہاں کوئی جنسی درندہ درندگی کاخیال آنے پرقانون کی گرفت اوراپنے
انجام بد سے دہشت زدہ ہو جائے ۔میں سمجھتاہوں شہرلاہور سمیت صوبہ پنجاب کی
سطح پرسائلین کی مالی حیثیت اور عزت نفس کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں
بروقت انصاف کی فراہمی کے معاملے میں صوبائی محتسب میجر(ر)اعظم سلیمان خان
کا طریقہ کار اور کلیدی کردارسرمایہ افتخارہے ۔نیک نیت صوبائی محتسب پنجاب
نے اپنے ہاں آنیوالے پریشان حال خواتین وحضرات کیلئے انصاف تک رسائی
انتہائی سہل بنادی ہے ۔وہاں استقلال اوراستدلال سے تنازعات اورکمزوروں
کااستحصال کرنیوالے ہر"طاغوت" کا"تابوت" نیست ونابودکردیاجاتا ہے جبکہ
سچائی کی بنیاد پرانصاف کیلئے رجوع کرنیوالے سائلین بامراد ہوتے ہیں۔ میجر
(ر)اعظم سلیمان خان کی بحیثیت صوبائی محتسب تقرری کے بعدسے اب تک اس محکمے
کی اصلاحات ، خدمات کے ثمرات، کارکردگی کامعیار اوراس کے اعدادوشمار قابل
رشک ہیں ۔میں صوبائی محتسب پنجاب میجر (ر)اعظم سلیمان خان کے اوصاف حمیدہ
،ان کی سحرانگیز شخصیت اوران کے پیشہ ورانہ کام کاباریک بین ابزرور اورمداح
ہوں ،راقم نے انہیں پنجاب میں ہوم سیکرٹری اورپھر چیف سیکرٹری کی حیثیت سے
ڈیلیورکرتے ہوئے دیکھا ہے ،وہ ایک زیرک ،انتھک اورپروفیشنل منتظم
ہیں۔صوبائی محتسب پنجاب سے سیراب ہونیوالے سائلین کی فہرست بہت طویل ہے ،
وہاں انصاف کیلئے کسی سفارش یاسازش کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ سچائی تک رسائی
یقینی بنانے سے حصول انصاف کاراستہ ہموار ہوجاتا ہے۔صوبائی محتسب پنجاب
میجر(ر)اعظم سلیمان خان نے ستم زدہ اورمسائل زدہ انسانوں کو انصاف کی فرا
ہمی کیلئے قرآن مجید فرقان حمید کی مقدس تعلیمات کواپنی اصلاحات
کامحورومرکز بنایاہے ۔
|