کراچی سے شروع ہونے والا عوامی لانگ مارچ کراچی سے سجاول،
بدین، حیدرآباد، مٹیاری اور سندھ کے مختلف شہروں - گھوٹکی سے ہوتا ہوا صوبہ
پنجاب میں داخل ہوا، جس کی قیادت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری
اور ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری اور پارٹی ارکان. مرکزی قیادت کر رہے تھے۔
جو کہ دیکھا جا رہا تھا کہ عوامي مارچ اپنی کھوئی ہوئی عوامی مقبولیت کی
طرف لوٹتا دکھائی دے رہا ہے، تو یہ سب کچھ صوبہ پنجاب اور اسلام آباد میں
اختتامی جلسے سے ديکھا جا رہا تھا۔
پنجاب میں عوامی مارچ جہاں پی ٹی آئی کے مختلف لوگ جو پارٹی کے مضبوط لوگ
کہلائے جاتے ہیں پ پ پ میں شامل ہو گئے۔ جو بلاشبہ تحریک کو مضبوط کرنے اور
پی ٹی آئی کے صفحات کو کمزور کرنے کہ برابر ہے۔ یہ تحریک یقیناً اسلام آباد
میں لانگ مارچ کے اختتام پر منتج ہوئی جہاں چیئرمین آصف علی زرداری نے
خصوصی خطاب کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ سندھ سے شروع ہونے والے حقوقِ سندھ لانگ مارچ صوبہ سندھ
یعنی گھوٹکی، سکھر، خیرپور، لاڑکانہ، نوابشاہ، سانگھڑ، میرپورخاص سمیت
حیدرآباد، عمرکوٹ سے ہوتا ہوا بدین اور سندھ کے تقریباً ہر اضلاع میں عوامی
پاور شو کا مظاہرہ کیا گیا۔
معمول کے مطابق خالی اعلانات کے سوا کچھ نہیں تھا، جس میں وفاقی وزیر شاہ
محمود قریشی، پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی، حلیم عادل شیخ، اور دیگر پی
ٹی آئی عہدیدار شامل تھے، جو آخر میں مختلف شہروں سے نکل کر کراچی میں ایک
بہت بڑی عوامی جلسے کے صورت میں اختتام پذیر ہوا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کیا
گیا تھا جو کہ ابھی اعلان ئی لگ رہا ہے لیکن کہیں سے شروع نہیں ہوا تاہم اس
حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ دو تین روز قبل 23 مارچ سے اسلام آباد تک لانگ
مارچ کا اعلان کیا گیا تھا۔لیکن ایک بار پھر تاریخ میں تبدیلی کی گئی ہے،
تو ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام
رہے ہیں یا کچھ اور معاملہ چل رہا ہے جو یقیناً آگے چل کر ضرور پتا پڑ جائے
گی.
پنجاب کی مضبوط جماعت نون لیگ بھی میدان عمل میں ہے جو کہ بہت مقبول ہے
لیکن بذات خود مثبت صفوں میں نظر نہیں آتی. اپوزیشن لیڈر شہباز شریف خود
عدم اعتماد کے تحریک کے علاوہ کسی اور حکمت عملی سے انحراف کرتے نظر آ رہے
ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے جارحانہ انداز سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے
لیے جلسوں کا آغاز کر دیا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد جلسے میں شرکت کر رہے
ہیں، تاہم اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا جو بھی لائحہ عمل دیا
گیا اس کا فیصلہ کسی کے حق میں ہو گا وہ تو ان کو اگلی اسمبلی اجلاس میں
پتا لگ جائے گا،
نمبر گیم پوری کرنے کے لیے ایم این ایز که اوپر جو کالے بادل گردش کر رہی
ہے انهون نے حکومتی صفحوں میں مشکل پیدا کر رکھے ہے. جس میں اپوزیشن کی طرف
سے وزیر اعظم کی کرسی پر دلچسپ مناظر بھی دکھائے دے رے ہیں کہ وزیراعظم
عمران خان کرسی بچا لیتا ہے یا اپوزیشن کرسی کو لے اڑتے ہے. کیونکہ پی پی
پی سندھ میں ایم کیو ایم کے ایم این ایز کی وفاداریاں تبدیل کر رہی ہے،
پنجاب میں مسلم لیگ نون جو کہ قوف لیگ کی وفاداریاں تبدیل کر رہی ہے کیونکہ
ان کو طرح طرح کی لالچی دی جا رہی ہے جی ڈی اے کے ساتھ، اور دیگر اتحادی
اراکین کو توڑنے کے سازشی جاری ہیں یہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کتنا
اچھا ثابت ہوگا یہ تو آنے والے وقت ئی بتائے گا- |