کلینڈر کی رو سے ہم 2022ء جبکہ قومی سیاست کامنظرنامہ
دیکھیں توہم 1990ء کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔سیاستدانوں کے ہاتھوں روزانہ
کئی بار سیاست کاجنازہ اٹھتا ہے ، سیاستدانوں سے متنفر ہونے کے بعد اب عوام
سیاست سے بھی بیزار ہورہے ہیں۔اس طرز سیاست سے ہماری ریاست معاشی طورپرٹیک
آف نہیں کرسکتی ۔تحریک عدم اعتماد نے ملک میں عدم استحکام پیداکردیا، حکومت
اوراپوزیشن نے ایوان میں ایک دوسرے کاآئینی انداز سے مقابلہ کرنے کی بجائے
میدان لگالیا اوردونوں طرف سے بدزبان ایک دوسرے پرسیاسی وذاتی حملے کررہے
ہیں۔دنیا بھر کے کئی ارب انسانوں کی پہچان اور قدر و منزلت کا اصل پیمانہ
ان کا انفرادی واجتماعی کردار ہوتا ہے، اخلاقی قدروں اور عادات و اطوار سے
معاشروں کی بیداری کاپتا چلتا ہے۔ کسی مجلس میں ایک اجنبی شخص آکر بیٹھ
جائے تواس کی شناخت کا تجسس ایک فطری عمل ہے۔ اس کی گفتگو اور لب و لہجہ سے
ہی اس کی شخصیت کے پہلو اجاگرہوتے ہیں اور ہمارے ذہن پر اس کی شخصیت کا ایک
نقش ثبت ہو جاتا ہے۔ جب کبھی دوبارہ اس سے ہمارا آمناسامنا ہو تو وہی نقش
دوبارہ عود کر آتا ہے۔ مذہب ہو یا سیاست، معاشرت ہو یا ثقافت و اخلاقیات
ہرجگہ اپنا ایک خاص اثر و رسوخ اور اہمیت رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام
میں اخلاقی اقدار کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ ایمانیات، عبادات اور معاملات کے
ساتھ ساتھ اخلاقیات بھی ہمارے دین کا اہم اور بنیادی حصہ ہیں۔ نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ مجھے تو بھیجا ہی اسلئے گیا ہے کہ
اچھے اخلاق کی تکمیل کرسکوں‘‘۔
وطن عزیز پاکستان کی تخلیق ہی اسلام سے منسوب ہے۔ ہمیں اپنے سیاسی کلچر میں
اسلامی اخلاقیات کو فروغ دینا چاہئے تھا۔ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت
ہمارا قومی شعار ہونا چاہیے تھا۔ انفرادی طور پر بہت سے پارسا لوگ اور شریف
النفس گھرانے موجود ہیں۔ لیکن اس کڑوے سچ کو ہمیں ماننا چاہیے کہ بد قسمتی
سے بحیثیت مجموعی ایسا معاشرہ تشکیل پاسکا اور نہ ہی ا یسا ماحول بن سکا
جہاں ان قدروں کی حفاظت کی پاسداری کا اہم فریضہ بجا لایا جاتا۔ ایوب خان
کے دور میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے محترمہ فاطمہ جناحؒ کی جس طرح کردار
کشی کی مہم چلائی گئی یہ اس بیہودہ کلچر کا آغاز تھا۔ مختلف ادوار میں اس
میں کمی اورشدت آتی رہی۔ آج کل پرنٹ ، الیکٹرانک اورخصوصا سوشل میڈیا ان
ناشائستہ کلمات سے بھرا پڑا ہے۔ ماں، بہن ،بیٹی اوربزرگ شہریوں کی عزت کا
کوئی پاس نہیں۔سیاسی رہنماؤں کی اخلاق سے گری ہوئی باتیں اور بیہودہ
ڈائیلاگ سن کربہت افسوس ہوتا اورسرشرم سے جھک جاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتاکہ
اپنی آنیوالی نسل کو ہم کیا پیغام دینا اوراس کی کس قسم کی تربیت کرنا
چاہتے ہیں۔ میڈیا کی آنکھوں کا تارہ بھی وہی زبان دراز سیاستدان ہے جو
دوسروں کی پگڑیاں اچھالتا اور چادر و چار دیواری کی عصمتوں کو تارتار کر
تاہو۔ سیاسی ورکروں کی نئی پروان چڑھنے والی نسل کو کسی کی رداوچادر کی
پرواہ ہے اور نہ ہی کسی کے سفید بالوں کا حیاء ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کے
نزدیک جنگ کے میدان اور نفرت کے طوفان میں سبھی کچھ جائز ہے۔حلال کی پرواہ
ہے اور نہ حرام کی فکر، جھوٹ، تہمت، گالی گلوچ اور طعنہ زنی ایسے بے دھڑک
انداز میں ہو رہے ہیں جیسے کہ مرنے کاڈر ختم ہوگیا ہو۔ نظریاتی اورتعمیری
سیاست کی بجائے ہم لوگ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ ذہن میں
ایک ہی بات سمائی ہوئی ہے کہ جس کو میں لیڈر مانتا ہوں یا جس پارٹی سے میرے
مفادات وابستہ ہیں اس کا گراف بلندہونا چاہئے۔ اس بات کی ذرا بھر پرواہ
نہیں کہ وہ لیڈر چور ہو، ڈاکو ہو، بد کردار ہو یا منافق ہو۔’’ را‘‘ کا
ایجنٹ ہو یا’’ موساد‘‘ کا وظیفہ خور۔ ہر ایک گالی گلوچ کو تکیہ کلام بنا کر
دوسروں کی عزت کو تارتار کر نے کو کامیابی سمجھا اور اسی میں دلی سکون تلاش
کیاجاتا ہے۔ اب سیاسی ماحول گرم ہے۔
متحدہ اپوزیشن نے وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر دی
ہے۔ کچھ دنوں تک اس کا جو بھی نتیجہ ہوا منظرعام پر آجائے گا۔ لیکن اس کے
ساتھ ساتھ دونوں طرف سے ایک دوسرے کابدترین میڈیاٹرائل کیاجارہا ہے۔ اس طرح
کی بلیم گیم میں ہمیں تو کادامن محفوظ نظر نہیں آتا کیونکہ یہ فرشتوں کا
نہیں انسانوں کا معاشرہ ہے ۔ چھوٹی موٹی کوہتاہیاں اورخامیاں زندگی کے کسی
حصے میں انسان سے کبھی کبھار سر زد ہو ہی جاتی ہیں۔ کوئی توبہ کرکے آئندہ
کیلئے راہ راست پر آجائے تواﷲ رب العزت بھی معاف کردیتا ہے۔ ہمیں بھی اس
طرح کی باتیں نظر انداز کرکے بڑے مقاصد پر فوکس کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس
کے برعکس سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بد تمیزی برپا ہے کہ فی الوقت تو اس کی
دھند میں مقصد تخلیق پاکستان نظروں سے اوجھل نظر آتا ہے اور اسی کی گرد میں
استحکام پاکستان کی راہیں بھی گم ہیں۔ بھونڈے اور لا یعنی الزامات کی تو
کوئی وقعت نہیں ہوتی البتہ جہاں تک سنجیدہ اور معقول الزامات کا تعلق ہے،
گالم گلوچ اور ایک دوسرے کی کردار کشی کی بجائے ان کو عدالت میں لے کے جاؤ۔
ان تمام الزامات کی تحقیق ہو اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔
سیاستدان ’’ بڑے لوگ‘‘ ہیں اورہماراریاستی نظام تو ان کاغلام ہے ، ان کے
بڑے بڑے مقدمات کے فیصلوں کیلئے بھی’’ دن‘‘ مقرر کیے جاتے ہیں جبکہ عام
آدمی اور غریب شہری چھوٹے چھوٹے مقدمات میں سالہا سال تک اور نسل در نسل
انصاف کیلئے ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے لیکن اس کی کوئی نتیجہ خیز شنوائی نہیں
ہوتی۔ لہٰذاء زبان اور قلم گندا کرنے کی بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا
بہتر ہوگا۔ میں مانتاہوں تنقیدکرنا قلم کاروں اورسیاسی کارکنوں کابنیادی حق
ہے لیکن دوسروں کی توہین سے گریزکیاجائے ۔ راقم کانکتہ صرف یہ ہے کہ
تمیزوتہذیب کے دائرے میں رہ کر شائستگی کے ساتھ اختلاف یا تنقید کریں۔ مانا
کہ آپ کسی سیاسی پارٹی کے ورکر ہیں، یہ بھی مانا کہ آپ تبدیلی، ترقی یا نئے
پاکستان کے علمبردار ہیں۔ ہم آپ کی حب الوطنی پر قطعی شک نہیں کرتے۔ ہمیں
صرف اور صرف آپ کو یہ یاد دلانا ہے کہ اس سب کچھ کے ساتھ ساتھ آپ مسلمان
بھی ہیں۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ وقت انتہائی قریب ہے جب ہمیں اپنے ایک
ایک قول اور فعل پر قادروکارساز اﷲ تعالیٰ کی پاک بارگاہ میں جوابدہ ہونا
پڑے گا۔ وہاں کسی پارٹی کا کوئی لیڈر ہمیں بچانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ یاد
رہے کہ اسلام میں گالی گلوچ کو فسق سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ بڑے بڑے
گناہوں کی فہرست میں شامل ہے اور اسی طرح کسی پر تہمت لگانا بھی سخت ترین
گناہ ہے۔ یہ تعلیمات کسی کی ذہنی اختراع یا خود ساختہ فلسفہ اخلاقیات کے
اسرار و رموز نہیں بلکہ قرآن مجیدفرقان حمید میں واشگاف الفاظ میں ہمیں ان
گناہوں سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے جنہیں کہ ہم نے صبح و شام اپنا وطیرہ
بنایا ہوا ہے۔ قرآن پاک کے چھبیسویں پارے کی سورہ الحجرات میں اخوت کی
تعلیم کے ساتھ ساتھ غیبت، طعن و تشنیع، برے القابات سے کسی کو یاد کرنے سے
سختی سے منع فرمایا گیا اور یہ تلقین بھی کی گئی کہ مسلمان ہو کر اس طرح کی
بیہودگی میں مبتلا ہونا تمہیں قطعاً زیب نہیں دیتا۔ |