کاش میرا کوئی بھائی نہ ہوتا

یہ ایک ایسی بہن کی کہانی ہے جس نے محنت کر کے اپنے بھائیوں کو باہر کے ملک بھیجا اور انھی بھائیوں نے اپنی بہن کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا

پچھلے دنوں اٹک سے ایک خاتون کی کہانی شائع کی گئی جسکو پڑھنے پر لاہور سے ایک خاتون نے ہم سے رابطہ کیا اور اپنی روداد سنانے لگیں کہنے لگی سر میرے والد پی آئی اے کے ریٹائرڈ افسر تھے میں ابا جان کی اکلوتی بیٹی تھی ہم تین بہن بھائی ہیں ابا جان مجھ سے بہت محبت کرتے تھے جیسا کہ اہل مشرق کا طرز ہے کہ وہ بیٹیوں کو زیادہ لاڈ لڈاتے ہیں کیونکہ انھیں ایک دن پرایا ہونا ہوتا ہے بڑے بھائی کو شروع سے ہی احساس کمتری کا وہم تھا کہ بہن کو زیادہ چاہا جاتا ہے نسبتا میرے زندگی کے نشیب و فراز نے وقت کی دھاریں تبدیل کردی اور ابا جان کو تجارت میں خسارہ ہوا پھر وہ وقت آن پڑا کہ ابا جان کو گھر گاڑی سب بیچنا پڑا اور ہم بے یارو مددگار ہوگئے اور پھر گھر کا بیڑا اٹھانے کی ذمہ داری بیس سالہ اس لڑکی نے لی اور ماں باپ سمیت دونوں بھائیوں کی ذمہ داری کیلیئے خوب محنت کی اور اسکول ٹیوشن پڑھانے والی یہ لڑکی ایک بیٹے کا کردار ادا کرنے لگی صبح کو گھر سے نکلنے والی یہ لڑکی رات نو بجے تک بچوں کو پڑھا پڑھا کر اپنے گھر کی کفالت کرنے لگی اسی کردار کی بدولت والدین کی دعاؤں اور محبتوں کا رخ تیز ہواؤں کی طرح میری شخصیت کو بااثر بنانے میں مددگار رہا یکے بعد دیگرے دونوں بھائیوں کو سعودیہ کمانے کیلیئے بھیجا اور وہ وہاں برسوں رہنے کے بعد بھی والدین کو ایک پیسہ بھی نہ بھیجتے تھے پھر انکی شادی ہوئی تو تھوڑی بہت جو بھائیوں میں انسانیت باقی تھی اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے دونوں بھائیوں کی پسند کی شادی اور پھر وہ شادیاں ہمارے لیئے جیسے میدان جنگ کا تصور پیش کرنے لگی وہ بہن کہ جس نے انھیں اپنی مشقت اور پیسوں سے قربانیوں سے گزر کر انھیں قابل بنانے کی وجہ بنی پھر اسے شادی شدہ نہ ہونے کہ طعنے دینے لگے ماں باپ کے علاج سے اور انکی زندگی اور موت سے انکے رنج و غم کے خوف سے آزاد ہوکر بہن پر بیوی کی حمایت کے ساتھ یاروں کے بہتان باندھ کر نہ جانے کیسے جی لیتے ہیں محترمہ کی گفتگو سن کر دل اسقدر رنجیدہ ہوا کہ میں کہنے لگا بس کیجیئے محترمہ ہم لکھاری ہیں اب دل میں آپکے درد سہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں دل ہول رہا تھا کہ محترمہ کہنے لگی سر ابھی کہانی مکمل نہیں ہوئی بلآخر میں نے ایک گہری سانس لی آنکھوں میں ڈبڈباتے آنسوؤں کو اپنی گرفت میں کرتے ہوئے کہا جی کہیں تو محترمہ کہنے لگی سر میں نے ابا جان کی موت کے بعد اپنی کمائی سے گھر خریدا گراؤنڈ فلور پر ہم رہتے تھے کچھ رقم اور جمع کی فرسٹ فلور بنوایا کہ کرائے پر چڑھا کر آمدن کا ذریعہ بن جائے پر بھائیوں نے سعودیہ سے واپس آکر اس گھر پر مکمل قبضہ کر لیا ہے اور وہ مجھے گالیوں سے نوازتے ہیں مجھ پر ہاتھ اٹھاتے ہیں میں نے مزدوروں کیساتھ کھڑے ہوکر گھر بنوایا مجھے کماتے ہوئے اکیس سال گزر گئے آج تک میری والدہ میری ذمہ داری ہیں بدقسمتی سے میری شادی بہت تاخیر سے ہوئی اور ہمسفر بھی انسان صفت نہ ملا کہ اب پھر سے اس گھر میں رہنا دشوار ہے کہ جس گھر کی مالک میں ہوں بوڑھی ماں کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو میری راہ تکتا ہو ہاں مگر گالیاں دینے کے باوجود بھی وہ مجھ سے میرے ہی گھر میں رہنے کا کرایہ وصول کرتے ہیں بہن کی روداد سن کر مجھے رات بھر نیند نہ آسکی دل سسکیاں مارتا رہا تو میرے ضمیر نے مجھے مخاطب کر کے کہا تو سن کر اتنا پریشان ہے جس پر گزری ہے وہ کس کرب سے گزرا ہوگا آؤ مل کر لوگوں کی تربیت کریں کہ وہ اپنے رشتوں کو اپنوں کو اور پرایوں کو سبھی کو اپنی ذات سے تحفظ بخشیں آؤ کہ اب وقت ہے لوگوں کی تربیت کرنے کا معاشرے کے بڑھتے بگاڑ پر اپنے مثبت کردار گفتار سے بند باندھنے کا آؤ ان بے ضمیر لوگوں کو انکی خطاؤں کا احساس دلائیں اس سماج کو گھریلو مسائل سے آزادی دلا کر ایک بہترین معاشرے کا اعزاز دلائیں اور اسکے لیئے ہر فرد کو اپنے کردار سے میدان عمل میں ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا۔
 

Kashif Sultan
About the Author: Kashif Sultan Read More Articles by Kashif Sultan: 9 Articles with 22529 views میں تو آوارہ ہوں دیوانہ ہوں
سودائی ہوں
چلتی پھرتی ہوئی رسوائی بھی
رسوائی ہوں
.. View More