پاور شو ہوگیا، حتمی فیصلہ منتخب ایوان میں ہوگا، کاروائی شروع
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاور شو ہوگیا، حتمی فیصلہ منتخب ایوان میں ہوگا، کاروائی شروع ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کپتان نے اپنے منصوبے کے مطابق اسلام آباد میں بڑی خلقت کو جمع کر کے پاور شو کا عملی مظاہرہ کردیا۔ رہی بات تعداد کی تو وہ کچھ بھی ہو بہر کیف خلقت تو بہت تھی۔ اب مخالفین چند سو کہیں، چند لاکھ کہیں ان کی مرضی۔ ہمارے سیاست داں میڈیا پر سفیدجھوٹ بولنے میں زرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف بھی علیحدہ علیحدہ پاور شوکرتی رہی ہے۔ بلاول اپنے طور پر، مولانا اپنے طور پر اور مریم اور حمزہ شہباز اپنے طور عوامی قوت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ آج یعنی 28مارچ سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر عملی طور پر کاروائی شروع ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ تحریک عدم اعتمادکا فیصلہ قومی اسمبلی میں ہی ہونا ہے۔ اب تک جو کچھ ہوتا رہا وہ آج سے شروع ہونے والی کاروائی کے لیے اپنے لیے راہ ہموار کرنا تھا جو کہ دونوں فریقین نے بھر پور انداز سے کی۔ اب کیا ہوگا؟ حتمی فیصلہ منتخب ایوان میں ہی ہوگا۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور عمران خان کی حکومت برقرار رہے گی یا پھر تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوجائے گی اور عمران کو گھر چلے جانا ہوگا۔ گھر سے مراد اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کل کے جلسے میں عمران خان جن ترپ کے پتوں کا ذکر کرتے چلے آرہے تھے ان میں سے صرف ایک خط وہ دکھا سکے، اس کا ذکر کیا، اسے لہرایا لیکن اس خط کے بارے میں نا تو یہ بتایا کہ وہ کس ملک یا شخصیت کی جانب سے آیا ہے، البتہ یہ ضرور واضح کیا کہ اس خط کے ذریعہ ان کی حکومت کو گرانے کی کاروائی کی گئی ہے۔ گمان یہی ہے کہ یہ خط دنیا سپر پاور کی جانب سے ہوسکتا ہے۔ اس خط کے مندرجات بتانے سے عمران خان نے گریز کیا۔ ان کے مطابق وہ ملکی مفاد میں نہیں۔ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہو، طاقت ور قوتیں عمران خان کی خارجہ پالیسی کو پسند تو نہیں کر رہی تھیں۔ خاص طور پر عمران خان کا روس چلے جانا طاقت ترین وقوت کو سخت ناگوار لگا، عمران خان کا امریکہ کو ''Absolutely Not''کہنا امریکہ کو پسند نہیں آیا ہوگا، امریکہ کو ہی نہیں بلکہ امریکہ سے آشیرواد چاہنے والوں کو بھی اچھا نہیں لگا۔ لیکن پاکستان کو پہلے مرتبہ ایسا بہادر اور نڈر حکمراں ملا ورنہ تو ہمارے حکمراں ایک ٹیلی فون کال پر فرش راہ ہوجاتے رہے ہیں۔ ایک وجہ اس خط کے پیچھے یہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی امور ایسے ہیں جن میں اسلامی دنیا کے وزراء خارجہ کا اجلاس منعقد کرنا، اسلامو فوبیا کے لیے اقوام متحدہ سے 15مارچ کا دن عالمی سطح پر منظور کرالینا۔ افغانستان کے معاملے میں اسٹینڈ لینا جیسے امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے طاقت ور ہی نہیں کئی مغربی ممالک عمران خان کو نا پسند کرنے لگے۔ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے اور عمراں خان کو حکومت جاری رکھنے کی صورت میں اتنا فائدہ نہیں ہوگا جتنا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے اور حکومت حزب اختلاف کے بنانے میں ہوگا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حزب اختلاف صرف ایک نکتہ پر یکجا ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو کرسی سے نیچے گرادیا جائے۔ اس عمل کے بعد کیا یہ 11جماعتیں اگر عمران خان کے اتحادی بھی حکومت سازی میں شامل ہوگئے تو یہ تعداد اور بھی بڑھ جائے گی۔کیا یہ متحدرہ سکیں گیں؟ ان سب کے نظریات الگ، سوچ الگ، فکر الگ، دینی عقائد الگ، مفادات الگ، وزارتوں پر ایسی بندر بانٹ ہوگی کہ اللہ کی پناہ۔ دوسری جانب عمران خان انہیں سکون سے حکومت کرنے نہیں دے گا۔ وہ میدان میں نکل آئے گا۔ بیڈ گورنینس سے آزادجائے گا، مہنگائی سے آزاد تمام تر الزامات نئی بننے والی حکومت پر ڈال دے گا۔ لوگوں کو سڑکوں پر جمع کرے گا یہاں تک کہ حکومت کرنا میاں شہباز شریف کے لیے انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ عمران خان کے اتحادیوں کو اگر الگ بھی کردیا جائے تو عمران خان کے پاس بھاری تعداد منتخب اراکین کی ہوگی جن کے ٹوٹنے، بکنے کا ڈر بھی نہیں ہوگا۔ جو بک چکے، ٹوٹ چکے ان سے آزادی مل جائے گی۔ اتحادیوں سے تعلق ختم ہوجائے گا۔ ان کی خوشامد سے آزادی مل جائے گی۔ یہ بات عمران کی درست ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہوجانے سے قبل عمران کی مقبولیت کا گراف نیچے آچکا تھا، اس کے ساتھی، کارکن خاموش ہوکر بیٹھ چکے تھے، تحریک عدم اعتماد سے عمران اور اس کے شیدائی خواب غفلت سے بیدار ہوگئے۔ تحریک انصاف کا ورکر پھر سے چارج ہوگیا۔ عمران کی مقبولیت میں پہلے سے کہیں زیادہ اضافہ ہوچکاہے۔ حزب اختلاف اگر 172اراکین سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئی تو اس کے نتیجے میں عمران وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ حزب اختلاف حکومت میں آجائے گی۔ جیسا کے کہا جارہا ہے کہ میاں شہباز شریف وزیر اعظم ہوں گے، مولانا فضل الرحمن آئندہ دنوں میں صدارت کے منصب پر فائز ہوں گے، پنجاب کی حکومت مسلم لیگ (ق) کے پاس ہوگی۔ ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، جوڑ توڑ جاری ہے۔ چودھریوں نے اگر پنجاب حکومت لے بھی لی تو ان کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ اس انداز سے ایک صوبے کی حکومت وہ بھی چند ماہ کے لیے انہیں فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ وزارتیں کئی سیاسی جماعتوں کو دی جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کے پاس کیا عہدہ ہوگا۔ ممکن ہے قومی اسمبلی کا چیرئ مین اور سینٹ کا چیرئ مین شپ مل جائے۔ لیکن ڈیڑھ سال بعد 2023یا جلد انتخابات کی صورت میں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گی ان میں عمران خان کا پلڑا سب سے بھاریدکھائی دیتا ہے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ نیب کو ختم نہیں تو اس کے اختیارات کم کردے، کیسیز ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ میاں نواز شریف واپس تشریف لے آئیں گے ان پر سے پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ دیگر لوگوں پر جو مقدمات ہیں وہ ختم کرائے جائیں گے۔ ان سب باتوں کو عمران خان اپنے جلسوں میں خوب ہائی لائٹ کریں گے۔ دما دم مست قلندر ہوگا۔ راوی سیاست میں چین نہیں لکھتا۔ مختصر یہ کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہوجانا کپتان کے حق میں ہوگا۔ حکومت میں رہنا مشکلات سے دوچار کرتا رہے گا۔حزب اختلاف کے لیے مختصر مدت کے لیے حکومت بنانا اور اسے چلانا آسان نہ ہوگا مشکلات سے دوچار رہیں گے۔ ان کے حق میں بہتر ہوگا کہ تحریک عدم اعتمادناکام ہوجائے اور عمران خان وقت سے قبل انتخابات کرادے۔ تحریک عدم اعتماد واپس لے کر دونوں فریق بجٹ کے فوری بعد انتخابات کے عمل میں چلے جائیں اور نئی حکومت پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے۔ آج کی اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتباد ایوان میں پیش کردی۔ اس کی تائید 162اراکین نے کی۔ اس طرح یہ قرارداد آئندہ کاروائی کے لیے منظور کر لی گئی۔ اب اجلاس ملتوی کردیا گیا ہے آئندہ اجلاس میں اس قرار داد پر بحث شروع ہوگی، تین یا ساتھ دن، پھر اس پر حتمی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔(28مارچ2022)
|