جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے

سیاسی موسم اور منظرنامہ بدلنے والی بے رحم ہواؤں کے رخ بدلنے کا کوئی 6 ماہ پہلے انہی کالموں میں ذکر کیا تھا یہ ہوائیں اب کے سیاسی موسم بدلنے کے در پہ ہیں چنانچہ گرج چمک کے ساتھ بارش لانے والے بادلوں نے شہر اقتدار کو گھیر رکھا ہے اور وزیر اعظم پھونکیں مارمار کے بادل اڑانے کی کوشش کر ر ہے ہیں مگر انکی شُوک اب بے کار ہوچکی ہے لب و لہجے میں ایک بار پھر تلخی گھل چکی کنٹینر کی چیختی کرلاتی دھمکاتی تقریریں انکی بے بسی کا اظہار کر رہی ہیں انہیں معلوم بھی نہیں ہوا کب زمین سرک گئی ایک دوست نے بتایا وزیر اعظم منڈی بہاؤالدین جلسے کے سٹیج پر موجود تھے تو کسی نے دانستہ پتنگ کاٹ کر پنڈال کی جانب چھوڑ دی اورکہیں سے بوکاٹا کی صدا بھی لگوا دی گئی عمران خان کو مگر اس روز بوکاٹا کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا اب ساتھی دور ہوئے ہیں تو وہ دل اور دماغ کی کشمکش میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن دل کا بس نہیں چلنے والاسیاست کے سینے میں دل ہوتا تو سیاسی بساط کے مہروں اوراقتدار کے جنگجوؤں میں خال خال ہی سہی مگر اہل دل بھی ملتے مگر یہاں اسکا قحط ہے یہاں ہاتھ چھوٹتے ہیں تو پتا تک نہیں چلتا اور پھر اپنے لمحوں میں بیگانے ہو جاتے ہیں اور آنکھیں حیران رہ جاتی ہیں ہیرو لمحوں میں زیرو ہوجاتا ہے
وہ مجھ کو چھوڑگیا تو یقین آیا
کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لئے

میاں نواز شریف نااہلی کے بعد اہلیہ کی عیادت کے لئے ملک سے باہر تھے ان کے ایک منسٹر نے متبادل وزیر اعظم خاقان عباسی کی اجازت کے بغیر ایک اعلیٰ شخصیت سے ملاقات کی تو پارٹی میں طوفان برپا ہوگیااور ساتھی وزراء اس پر سخت سیخ پاتھے وطن واپس آکر میاں نواز شریف ایک کھانے پر اسی وزیر کا ہاتھ پکڑ کر انہیں الگ لے گئے اور ان سے بے رحم ہواؤں کی بے وفائی کی داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ کبھی وہ خود بھی انکے بہت پیارے اور لاڈلے تھے مگرپھرظلم و ستم کا شکار ہوئے اسلئے برخوردار’’ ذرا بچ کے رہا کرو‘‘ میاں نواز شریف کا تلخ تجربہ سب سے زیادہ مگر بھٹو کا بھی ان سے کم نہیں ہے کہ انکی تواس عشق میں جان ہی چلی گئی واقفان حال بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے ہوئے اکثر بتایاکرتے کہ ہم نے مارشل لاء سے دوماہ پہلے بھٹو کی گرفتاری کا سوچ رکھا تھا مگر انکے ساتھ کھانا چائے اور تصاویر ہمارامعمول تھا لیکن ذہین فطین لیڈ رکے طور پر پہچانے جانے والے شخص کو ہم نے اپنے ارادوں کی ذراسی بھنک بھی پڑنے نہیں دی تھی پھر وہ وقت بھی آیا جنرل ضیاء الحق جب طیارے میں خاک ہونے کے لئے سوا رہوئے اور بھنک تو انہیں بھی نہیں پڑی تھی کہ یہ انکا سفر آخرت تھا،عمران خان ضد اور ہٹ دھرمی کا مزاج رکھتے ہیں کرکٹ میں یہی انکی پہچان تھی حکومت میں آکر انہوں نے اتحادیوں کو کبھی’’ محتاجوں‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دی اب ان پر وقت پڑا ہے تو عظیم لیڈر عمران خان اب ایکدم سے بونا سالگنے لگا ہے وہ اسلام آباد میں ایکبا رپھربندے جمع کر کے بادلوں کو ڈرانا دھمکانا چاہتے ہیں مگر اب انکا رعب ختم ہو چکا ہے وزیر اعظم اپنی شمع تمنا کو آندھیوں کی زد میں دیکھ رہے ہیں تو انہیں یقین نہیں ہو رہا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے
تم اپنی شمعِ تمنا کو رو رہے ہو فرازـ ؔ
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے

وزیر اعظم عمران خان کے لئے یہ سب نیا ہے سیاست انکا کبھی بھی میدان نہیں تھا مگر وہ سیاست میں آگئے انہیں ملک کے بڑوں کی لڑائی کا فائدہ ہوااور حادثاتی طور پر اقتدار بھی مل گیا اب انکی’’ پہلی محبت‘‘چھن رہی ہے توحوصلے جواب دے رہے ہیں ،عمران خان کو مشورے دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے وہ کسی معجزے کے انتظار میں ہیں مگر انکی حالت سے قطع نظرانکی ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں مارنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے ،انکے اپنے لوگ اب ان سے کی گئی ’’سچی محبت‘‘ واپس کرنے کے لئے لائن میں لگے ہوئے ہیں شاید یہی مکافات عمل ہے
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر
تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے
تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67092 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.