سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے
پیچھے کون سے عوامل ہیں جن کو جواز بنا کر تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی؟اگر
تو یہ جواز شرعی وقانونی طور پر درست ہیں اور معاشرہ کے باشعور افراد کی
اکثریت ان کو درست تصور کرتی ہو تو اس کا ساتھ دینا شرعی و قانونی طور پر
واجب ہو جاتا ہے بلکہ یہ ایک مسلمان کا شرعی و قومی فریضہ بن جا تا ہے کہ
وہ حق کا ساتھ دے اور حق کی گواہی کو ہرگز نہ چھپائے ۔ وہ عوامل ، وہ قابل
قبول جواز یہ ہو سکتے ہیں کہ
1 ۔ کسی شرعی اصول و ضابطے کو کوئی خطرہ لاحق ہو ۔
2 ۔ حکومت کسی مجموعی قومی مفاد کے خلاف جا رہی ہو ۔
3 ۔ حکومتی اقدام سے ملکی خود مختاری اور سلامتی کو خطرہ ہو ۔
4 ۔ ملکی مفاد کو نظر انداز کر کے اغیار کے مفاد کو اہمیت دی جا رہی ہو ۔
ہر مجموعی قومی مفاداور قومی سلامتی کے ایشو پر عدم اعتماد قابل قبول
ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی مجموعی قومی ایشو نہیں اور اپوریشن پارٹیاں اپنے
اپنے ذاتی مفادات کو جواز بنا کر تحریک پیش کر رہی ہیں تو یہ ہرگز قابل
قبول نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں بھی کبھی حکومت سے خوش اور پر
اعتماد ہوئی ہیں ؟اپوزیشن کا تو کام ہی یہی ہے حکومتی امور میں رخنہ ڈالنا
، روڑے اٹکانا ۔ اپوزیشن کا مطلب ہے حکومت کی ٹانگیں کھینچنا، حکومت کو کام
نہ کرنے دینا، حکومت کو بہر صورت ناکامی کی طرف لے جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں
پر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا، اس کی کامیابی کے ہر راستے پر بند
باندھنا ، گاڑھا کھودنا اور ہمہ وقت حکومت کو ناکام کر کے، حکومت کو گرا کر
خود براجمند ہونے کی سازش کرتے رہنا ۔اپوزیشن اور بھی ملکوں میں ہوتی ہے
مگر جس طرح کی اپوزیشن ہمارے ملک میں ہوتی ہے اس کا سیدھا سیدھا مطلب ہے
فساد. یقنی کبھی بھی ملک میں سکون نہیں ہونے دینا ہمیشہ کوئی نہ کوئی فساد
برپا رکھنا ہے اور ملک میں فساد پھیلانے کا جرم قرآن و حدیث کے نزدیک قتال
ناحق سے بھی بڑھ کر ہے جو آج کی شیطانی اپوزیشن کھلے عام بڑے زور و شور سے
کر رہی ہے. اپوزیشن کہتی ہے کہ اگر حکومت کے ساتھ آپ کا کوئی اختلاف نہ
بھی ہو پھر بھی بنانا پڑتا ہے اس لئے یہ سارا کھیل ایک محض جھوٹا پروپیگنڈہ
ہوتا ہے جس کا عدلیہ اور دفاعیہ کو بغور جائزہ لےکر اس کا نوٹس لینا چاہیے
اگر کوئی قومی ایشو نہیں ہے تو اس پر ووٹنگ کی قطعاً اجازت نہیں دینی چاہیے
تاکہ حکومت کے وقت کا ضیاع نہ ہوکیونکہ حکومت کے یہ آخری ڈیڑھ دو سال
ڈیلیور کرنے کے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے ہیں جو ادھورے رہ
جائیں گے اور نقصان عوام کا ہوگا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ عدم اعتماد کے پیچھے کون سے عوامل ہیں ؟کون سے
قومی جواز ہیں اور کیا عوام کا ان کے ساتھ کھڑے ہونا قومی فریضہ بنتا
ہے؟پہلا جواز جو بیان کیا کہ کسی شرعی اصول و ضابطے کو خطرہ لاحق ہے ۔ کیا
حقیقت میں ایسا ہے؟کیا واقعی حکومت سے کسی شرعی اصول کو کوئی خطرہ لاحق
ہے؟ایسا بالکل نہیں ! بلکہ گذشتہ حکومتوں میں شرعی اصولوں کو خطرہ لاحق رہا
۔ کئی اصولوں میں من پسند ترمیم کی گئی ۔ شریفوں کی قیادت میں ختم نبوت ﷺ
کے قوانین میں چھیڑ خوانی کی گئی ۔ عمران خان صاحب تو گذشتہ حکومتوں سے بڑھ
کر قوم کو زیادہ دین کی طرف راغب کر رہے ہیں ۔ نظریہ پاکستان کی تکمیل ان
کا عزم ہے ۔ آج خان صاحب پر الزام لگ رہا ہے کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کر
رہے ہیں تو میں ان حقیر غلام ذہنوں سے پوچھتا ہوں کہ بتائیں نظریہ پاکستان
کیا تھا؟کیا نظریہ پاکستان اسلام کی بنیاد نہیں تھا؟اور خان صاحب انہی
اسلام کے بنیادی اصولوں کی بات کر رہے ہیں جس کی ان کو تکلیف ہو رہی ہے ۔
اور فضلو ملاں دیکھو ویسے تو بڑا دین کا ٹھیکیدار بنتا ہے اور جب دین کے
بنیادی اصولوں کی بات ہو رہی ہے تو اسے آگ لگی ہوئی ہے، شریر شر پھیلانے
کےلئے دوڑتا پھرتاہے ، فتنہ انگیز ملک میں فتنہ پیدا کر رہا ہے، قصور
تمہارا نہیں ملاں جی! جب تمہارے باپ دادا نظریہ پاکستان کے مخالف تھے تو ان
کی گندی موروثی اولاد تکمیل پاکستان کی مخالف نہ ہو یہ کیسے ہو سکتاہے?
گذشتہ اسمبلیوں میں اللہ و رسول ﷺ کی باتیں اور دین کی طرف رغبت سننے کو
نہیں ملتی تھی مگر آج ایسا لگتا ہے جیسے کوئی پائے کا اسلامی سکالر خطاب
کر رہا ہو ۔ گذشتہ حکومتیں کسی انٹر نیشنل فورم پر دین کی بات کرنے ، اللہ
و رسول ﷺ اور اسلام کا نام لینے سے ڈرتی تھیں اسلام کے مفاد کی بات کرنا تو
بہت دور کی بات تھی ۔ اور عمران خان صاحب نے جس جرات اور بے باکی سے دنیا
کے سب سے بڑے انٹرنیشنل فورم پر اسلام کا مقدمہ لڑا،ناموس ِ رسالت ﷺ کا
مقدمہ لڑا، اسلامک فوبیا کا مقدمہ لڑا اور جس کامیابی سے سرفراز ہوئے اس کی
تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ آج دنیا میں اسلام کی عزت بن رہی ہے،
لوگ عمران خان صاحب کی شخصیت سے متاثر ہو کر اسلام کو قریب سے دیکھ رہے ہیں
، اسلام کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ ناموس ِ رسالت ﷺ کی اہمیت و حساسیت کو دنیا
مان چکی ہے اور انٹرنیشنل سطح پر باقاعدہ قانون بن رہا ہے تاکہ آئندہ کوئی
ناموس ِ رسالت ﷺ پر حملہ کی جرات نہ کر سکے ۔ بڑے بڑے طاقتور ملکوں کے
سربراہوں نے اس کی حساسیت کو سمجھا اور دنیا کو باور کروایا کہ وہ پیغمبر
اسلام ﷺ کی گستاخی کے خلاف عالمی قانون بنایا جائے ۔ دنیا اسلامک فوبیا پر
15مارچ’ جس روز نیوزی لینڈ میں ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا ٗ کو
اسلامک فو بیا کے خلاف عالمی دن قرار دے چکی ہے ۔ قلیل عرصہ میں اتنی بڑی
کامیابیاں سمیٹنے پر قوم کو، خاص طور پر مذہبی طبقوں کو خان صاحب کے ساتھ
کھڑے ہونا چاہیے تھا اور ان کی حوصلہ افزائی کے لئے گلی بازاروں میں ریلیوں
کی صورت میں نکلنا چاہیے تھاکہ ایک تن تنہا شخص دنیا میں اسلام کی عزت و
وقار کا باعث بن رہا ہے مگر مذہبی طبقوں کی طرف سے کوئی ایسا اقدام دیکھنے
کو نہیں ملا جو ان کی کم ظرفی اور عصبیت پرستی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہ
کہ انہیں اسلام کی عزت و وقار سے نہیں اپنی خودنمائی سے غرض ہے ۔ اگر انہیں
صرف اسلام اور ناموس کے عزت و وقار سے غرض ہوتی تو خواہ جس کے ہاتھ سے بھی
ہوتی یہ خوشی سے جھوم نہ اٹھتے ۔ ساری مسلم دنیا، ساری مسلم لیڈر شپ مان
چکی ہے کہ خان صاحب اسلام کے ہیرو ہیں ، عرب میڈیا اور اینکر صلاح الدین
ایوبی رحمتہ اللہ علیہ اور نور الدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ کے روپ میں
دکھاکر ان کے ترانے گا رہا ہے اور یہاں کے خود غرض، خود نما بغض کی آگ میں
جل رہے ہیں ۔ اچھے کو اچھا کہنا بھی گوارا نہیں ۔ یاد رکھیں ! جو قوم اچھے
اور برے کی تمیز نہیں کرتی وہ تباہ ہو جاتی ہے ۔ اگر اس کے مقابلہ میں ایک
ذرا برابر سی کامیابی اگر کوئی ملاں سمیٹتا، اگر کوئی دین اور ناموس کا
ٹھیکیدار سمیٹتا تو آپ دیکھتے گلی بازاروں میں جگہ جگہ ریلیاں اور
مبارکبادی کے بینرز آویزاں ہوتے، ہیرو، ہیرو، مجددِ ملت، مجاہد ملت اور
پتہ نہیں کیا کیا القابات دے کر سر پر اٹھایا ہوتا ۔ یہی سب سے بڑی کم بختی
ہے اس قوم کی کہ محراب و ممبر والوں کے دل و دماغ میں بڑئی رعنائی کے ساتھ
رخنائی بھری ہوئی ہے اور وہ اپنی عصبیتی حدوں سے آگے نکل کر حق شناسی عبث
خیال کرتے ہیں ۔ وہ اپنے جیسوں کے علاوہ کسی دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنے کو
تیار نہیں ۔ اس طبقہ کے یہی وہ اسلوب ہیں جو خدا کو پسند نہیں ہیں وگرنہ
کیا وجہ ہے کہ خدا کے پسندیدہ ہونے کے باوجود خدا نے ان کو قوم کی قیادت
کےلئے پسند نہیں کیا اس لئے کہ جن کی اپنی صفوں میں اتحاد نہ ہو وہ امت کا
اتحاد کیسے کر سکتے ہیں ؟جن کی اپنی صفوں میں انتشار ہو وہ امت کو ایک پلیٹ
فارم پر کیسے لا سکتے ہیں ؟برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کےلئے
قدرت الہٰیہ نے ان کے مقابلہ میں ایک نڈر، خود دارلبرل شخص کا انتخاب کیا
جسے قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں ۔ دانائے راز، حکیم
امت، واقف ِ رموز ِ اسرارِ حقیقت حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ
کیوں قائد کو بے تابی سے خط لکھتے تھے کہ آپ کے سوا کوئی اسلامیان ہند کے
دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتا آپ خدارا !واپس آئیں اور امہ کی قیادت کریں
؟انہیں امہ کی قیادت کےلئے بڑے بڑے نامور علماء اور گدیاں نظر نہیں آ رہی
تھیں ؟وہ جانتے تھے کہ ان چمکتی ہوئی رگوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ ملک و
قوم کے لئے لڑ سکیں ۔ اگر تحریک پاکستان کی قیادت علماء کے ہاتھ ہوتی تو
انہوں نے آپس میں ہی جائز اور ناجائز کے چکر میں لڑ مرنا تھا اور نہ ہی ان
کی بات انگریز کے ایوانیوں میں سنی جانی تھی جن سے قیام پاکستان کا مطلب
نکالنا مقصود تھا ۔ جن سے کوئی غرض نکالنا مقصود ہو قدرت ان کے مقابلہ انہی
جیسی باعزم خود دار اور با اصول شخصیت کو لاتی ہے تاکہ اس کی بات ان کے
ایوانیوں میں سنی جا سکے ۔ آج بھی قدرت کا یہی اصول کار فرما ہے ۔ آج بھی
قدرت نے غربوں کے مقابلہ میں بظاہر انہی جیسا مگر اندر سے نڈر، بے باک،
اسلامی فلاحی ریاست کے جذبہ سے سرشار با اصول اور خود دارشخصیت کو لا کھڑا
کیا ہے جس کی بات ان کے ایوانیوں میں سنی بھی جاتی ہے اور مانی بھی جاتی ہے
۔ اور آج جب پچھتر سال گذرنے کے باوجود مسلمان قیام پاکستان کے مقاصد کے
حصول میں ناکام جا رہے تھے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے دردوں کا مداوا
کرنے والا کوئی نہیں تھاتو خدا نے پھر ایک نڈر، خود دار و بے باک لبرل شخص
کا انتخاب کیا جسے عمران خان کہتے ہیں ۔ آج قدرت ایک بار پھر اسلامیان
عالم کو مشکلات سے نکالنے کے لئے اسی کامیاب تجربہ اور حکمت عملی کو دہرا
رہی ہے جو قیام پاکستان میں کار آمد ثابت ہوئی اور انشاء اللہ یہ قیام
پاکستان کے مقاصد کے حصول میں بھی کارآمد ثابت ہوگی اور امت کے باہمی
اتحاد ویکجہتی میں بھی ۔ اور یہ تحریک نہایت خوش اسلوبی سے اس طرف بڑھتی
بھی نظر آر ہی ہے ۔ آج ملک کے ایوانوں میں ، اغیار کے فورمز پر علماء کی
محافل سے زیادہ دین و ملت، ملک و قوم کی بقاء و سلامتی کی سنجیدہ کوششیں
دیکھنے کو ملتی ہیں ،قوم کی اخلاقی قدریں بڑھانے اور سنورنے کی کوششیں ہو
رہی ہیں جبکہ علماء کے خطابات شخصی فضائل و کمالات سے نکل ہی نہیں رہے ۔
آج قرآن کریم باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر سکولوں و کالجز اور یونیورسٹیز
میں نافذ ہو رہا ہے اور یہ ایک تن تنہا لبرل شخص ’’جسے مذہبی حلقوں کی طرف
سے یہودی ایجنٹ کہا جاتا تھا ‘‘ کا کارنامہ ہے ۔ اس کے پیچھے کسی مذہبی
حلقہ کا ہاتھ نہیں اور نہ ہی پچھتر سال گذرنے کے باوجود مذہبی حلقوں نے اس
کا مطالبہ کیا کہ قرآن کریم کو باقاعدہ ایک مضمون کے طور پر راج ہونا
چاہیے ۔ یہ آواز اس لئے نہیں اٹھائی گئی ، یہ مطالبہ اس لئے نہیں کیا گیا
کہ اس سے ان کے مدارس کی حیثیت ختم ہو کر رہ جانی تھی جس سے ان کا کاروبار
ٹھپ ہو جانا تھا ۔
دوسرا جواز جو شروع میں بیان گیا وہ یہ کہ حکومت کسی مجموعی قومی مفاد کے
خلاف جا رہی ہو ۔ ایسا بھی بالکل نہیں ہے ۔ موجودہ حکومت سے کسی قومی مفاد
کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ حکومت دنیاکے ہر فورم پر نہ صرف ملکی بلکہ
عالم اسلام کے باہمی مفادات کا تحفظ بھی یقینی بنا رہی ہے ۔ موجودہ حکومت
دنیا کے بڑے سے بڑے حکمران کے ساتھ برابری کی سطح پر آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کے بات کرتی ہے کسی کے قدموں میں لیٹ کر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے
قدموں میں لیٹنے والوں کو تکلیف ہو رہی ہے کہ خان صاحب نے ان کے آقاو مولا
امریکہ کو ABSOLUTELY NOT کیوں بولا ۔ ہمارے پیرو مرشد یورپین یونین کو
کیوں کہا کہ ہم تمہارے غلام نہیں ہیں ۔ جو جو ان کے غلام ذہن تھے اس سے
انہی کو تکلیف پہنچی ہے کہ ہمارے آقا کو ایسا جواب کیوں ملا ۔ غلام چہرے
اور غلام ذہن قوم کے سامنے پوری طرح عیاں ہو گئے ہیں ۔ خود دار ذہن تو اس
پر فخر کر رہے ہیں اور اپنے لیڈر پر نازاں ہیں ۔ اغیار کے سامنے لیٹ کر یا
اپنی عزت و غیرت اورخودمختاری کو اس کے پاوں تلے روند کر یا اس کی غلامی
قبول کر کے کرسی بچا لیناکوئی بہادری نہیں اور یہ زندگی کوئی زندگی نہیں
،زندگی شیر کی بھی ہوتی ہے اور گیڈر کی بھی،زندگی عقاب کی بھی ہوتی ہے اور
ممولے کی بھی، زندگی گھوڑے کی بھی ہوتی ہے اور گدھے کی بھی، زندگی مچھلی کی
بھی ہوتی ہے اور غلاظت سے بھر ے کیڑے کی بھی،مگر زندگی، زندگی میں فرق ہے ۔
دنیا میں عزت کی زندگی سر اٹھا کر جینا ہے ، سر اٹھا کر چلنے کی تمنا ہے ،
اپنی خودی کو بلند کرناہے، آزادی و خودمختاری سے لگاءو اور محبت ہے جو خا
ن صاحب میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ خان صاحب جہاں جاتے ہیں اپنے قومی لباس
میں جاتے ہیں ، دنیا بھر میں اپنے قومی لباس کی پہچان کروا رہے ہیں ۔ اپنے
قومی مفاوات کے ساتھ ساتھ قومی لباس کو بھی اغیار کے لباس پر فوقیت دے رہے
ہیں ۔ شریف لٹیرے اور زر خوار ڈاکو تو اپنے قومی لباس میں ملک سے باہر جانا
اپنی ہتک سمجھتے تھے ۔
ایک انگریز مورخ ’’ نپولین (Napoleon)‘‘ نے کہا تھا کہ’’ اگرسو کتے اکٹھے
کرلیے جائیں اور ان کی قیادت ایک شیر کے ہاتھ دی جائے تو سارے شیر کی طرح
لڑیں گے، اس کے برعکس اگر سو شیر اکٹھے کرلیے جائیں اور ان کی قیادت ایک
کتے کے ہاتھ دے دی جائے تو سارے کتے کی موت مریں گے ۔ ‘‘
اور آج ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہماری قیادت ایک شیر کے ہاتھوں میں ہے
ذہنی غلام کتوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ خان صاحب نے پورے عالم اسلام کو اپنے
باہمی مفادات کے تحفظ اور اتحاد و یکجہتی کی سنجیدہ سوچ اورفکر دی ہے اور
خود داری کی سمت کا تعین کیا ہے ۔ آج ملت اسلامیہ خان کی آواز پر لبیک
کہتے ہوئے ایک مرکز پر آرہی ہے اور بات ایک طاقتور اسلامی بلاک کی طرف بڑھ
رہی ہے جس کی وجہ سے بیرونی اسلام مخالف عناصر متحرک ہوئے ہیں اور اپوریشن
کو آلہ کار بنا کر خان صاحب کی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں ۔ وہ انہیں
عالمی منظر نامہ سے ہٹانا چاہتے ہیں اور اقتدار پھر اپنے غلام ذہنوں کو
سوپنا چاہتے ہیں جو آج کی باشعور عوام ہرگز نہیں ہونے دے گی ۔
تیسرا جواز جو عدم اعتماد کے مد میں شروع میں پیش کیا گیا وہ یہ کہ حکومتی
اقدام سے ملکی خود مختاری اور سلامتی کو خطرہ ہو ۔ ایسا بھی بالکل نہیں ہے
۔ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلے ملکی دفاع اور خود مختاری کی ضامن عظیم پاک
افواج حرکت میں آتیں ۔ خان صاحب ملک و ملت کے محافظ ہیں وہ کبھی بھی کسی
سے بھی ملکی سلامتی اور قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ہاں البتہ
گذشتہ حکومتوں سے ایک نہیں کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ انہوں نے ملکی
قومی سلامتی کو بالکل داؤں پر لگا دیا، کرسی کی خاطر ملک کو دو لخت کروا
دیا، کرسی بچا لی اور ملک کو تقسیم ہونے دیا ۔ محض ایک کرسی کی خاطر مشرقی
اور مغربی پاکستان میں رخنہ کس نے ڈالا؟اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ کس
لگایا؟کس نے پاکستان توڑا؟کون پاکستان توڑنے کا سبب بنا؟بھٹو ! جسے بڑا
عظیم لیڈر کہا جاتا ہے ۔ کیا عظیم لیڈر شپ یہ ہوتی ہے کہ کرسی بچانے کی
خاطر ملک کو تقسیم ہونے دیا جائے ۔ اور پھر اِسی عظیم لیڈر نے ملکی معیشت
کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا نیشنلائزیشن کا قانون لا کر جس سے ساری انڈسٹری
مایوس ہو کر ملک سے باہر منتقل ہو گئی ۔ پاکستان جو دنیا کی تیزی سے پروان
چڑھتی ہوئی معیشت تھیں اور جرمنی جیسے ملک اس سے اپنی ترقی کے لئے قرض لیا
کرتے تھے وہ معیشت پل بھر میں منہ کے بل آگری بڑے عظیم لیڈر کے بڑے عظیم
اقدامات کی وجہ سے ۔ شرم آنی چاہیے ایسے ملک توڑنے والے اور اس کی معیشت
کا بیڑہ غرق کرنے والے کو عظیم لیڈر کہتے ہوئے ۔ عظیم لیڈر تد ہم مانتے جب
وہ ملک کی تقسیم بھی بچاتا، اس کی معیشت بھی بچاتا اور کرسی بھی ۔ اور پھر
وہ دوسرا بھگوڑا لیگیوں کا عظیم لیڈر بھارت نواز، مجھے کیوں نکالا ایک نہیں
کئی بار ملکی قومی سلامتی کے در پے ہوا ۔ کارگل پاکستان کی عظیم افواج فتح
کر چکی تھیں اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی تھی اور پھروہ پاک فوج کی فتح
بھارت نواز نے بھارت جا کر معذرت کر تے ہوئے بھارت کو نواز دی اور پاک فوج
کو کارگل خالی کرنے پر مجبور کیا ۔ پاک فوج کے سپہ سالار کا طیارہ پاکستان
میں لینڈ کرنے سے روکا گیا، عدلیہ پر حملے کیے گئے ۔ ملک دشمن عناصر کو
شادیوں پر مہمان خصوصی کا اعزاز دیا گیا، بھارت نواز بھارت جا کر تسلیم
کرتا ہے کہ بھارت میں ہونے والی دہشتگردی میں پاکستان کی ایجنسیاں ملوث ہیں
کیا یہ سب قومی سلامتی پر حملہ نہیں تھا؟ملک و قوم سے غداری نہیں تھی؟
چوتھا جواز جو شروع میں پیش کیا گیا وہ یہ کہ ملکی مفاد کو نظر انداز کر کے
اغیار کے مفاد کو اہمیت دی جا رہی ہو تو یہ آج کون کر رہا ہے؟کون ملکی
مفاد نظر انداز کر کے اغیار کے مفا کو اہمیت دے رہا ہے؟عدم اعتماد کس کی
ایماء پر لایا گیا؟اس کے پیچھے کون سے بیرونی عوامل ہیں ؟کونسے بیرونی ہاتھ
ہیں ؟کونسی بیرونی سازشیں ہیں ؟یہ اپوریشن سب جانتی ہے اور ان کی آلہ کار
بن کر میدان میں نکلی ہے ۔ اگر فرض کیا خدانخوستہ کہ حکومت گر جاتی ہے تو
کس کے مفاد نکلیں گے؟کس کے مفاد پورے ہوں گے وطن ِ عزیز کے یا ملک دشمن
عناصر کے؟اپوزیشن کو تو صرف عہدے ملیں گے اور مفاد ملک دشمن عناصر کے پورے
ہوں گے جو اس سازش اور تخریب کاری کے پیچھے ہیں پھر وہ تخریب کار ان کو
اپنے اشاروں پر نچائیں گے جیسے آج ان کی شہ پر ناچ رہے ہیں ۔ اور میری ملت
دیکھے کہ یہ کیامحض ایک عجب اتفاق ہے یا حقیقت کہ محب ِ وطن،ملی جذبہ سے
سرشار محب ِملت عمران خان صاحب ملک دشمن عناصر کےلئے برے اور ناپسندیدہ ہیں
اور بھارت نواز اور اس کی لیگ ملک دشمن عناصر کےلئے اچھی اور نہایت پسندیدہ
ہے ۔ حافظ سعید ملک دشمن عناصر کے نزدیک کے نہایت بُرے اور بہت ہی
ناپسندیدہ ہیں جبکہ شریر مولانا صاحب بہت ہی اچھے اور نہایت پسندیدہ ہیں ۔
ملت کو بہت گہرائی سے اس منطق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
اس بیرونی سا زش اور تخریب کاری کو کامیاب کرنے کےلئے جو انہوں نے تحریک
انصاف کے رکن خریدے ہیں ان کے دوٹ کی قانونی و شرعی حیثیت کیا ہے ۔ کیا ان
کا خود ساختہ اپنی پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی کو ووٹ دینا شرعی و قانونی
طور پر جائز ہے ؟بالکل ہی نہیں ۔ شرعی طور پر کوئی بھی ممبر خود ساختہ کسی
پارٹی کو دوٹ نہیں دے سکتا یا ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری میں نہیں جا سکتا
ہے، کامیاب آزاد امیدوار بھی کوئی پارٹی جائن کرنے کا فیصلہ خود نہیں کر
سکتا اس لئے کہ وہ اپنے حلقے کے لاکھوں لوگوں کے ووٹ اور رائے کا امین ہے
مالک نہیں ۔ مالک خود ساختہ فیصلہ کر سکتا ہے امین نہیں کر سکتا ۔ امین پاس
رکھی ہوئی امانت کو بیچ کر کھا نہیں سکتا ۔ اور جنہوں نے کسی پارٹی کے ٹکٹ
پر الیکشن لڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے حلقہ کے لوگوں اور پارٹی دونوں کی رائے
اور حقوق کا امین ہوتا ہے ۔ اس نے پارٹی اور حلقہ کے عوام کے حقوق کے تحفظ
کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اس لئے اس کا خود ساختہ اقدام دونوں کے ساتھ خیانت
ہو گی ۔ ممبر اسمبلی کیونکہ وہ لاکھوں لوگوں کی رائے کا امین ہے، اس کے ووٹ
کی طاقت لاکھوں لوگوں کے ووٹس کی وجہ سے ہے اور ہر شخص کی رائے اور ضمیر
مختلف ہوتا ہے اس لئے شریعت اسلامیہ اسے کبھی تنہا فیصلہ کرنے کا اختیار
نہیں دے گی ۔ اس کے اگر کوئی ممبر ایک پارٹی سے دوسری میں جانا چاہتا ہے تو
اس کا فرض بنتا ہے کہ اپنے حلقہ میں پورے حلقہ کے معززین کا اجلاس بلائے یا
ہر حلقہ کی مجلس شوریٰ ہو جس میں حلقہ کے ہر محلہ اور دیہہ کے لوگ ہوں ، کو
جمع کرے ، ایک غیر جانب دار منصف اور اوبزور (Observer)کے طور پر میڈیا کو
بھی بلایا جائے اور ان کے سامنے پارٹی تبدیل کرنے کا معاملہ رکھ کر باقاعدہ
ووٹنگ کروائی جائے اور منصف ووٹوں کا شمار کرکے جس طرف کے دوٹ زیادہ ہوں ان
کے حق میں فیصلہ دے ۔ یہ طریقہ شرعی اور قانونی دونو ں لحاظ سے قابل قبول
ہو گا ۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا اور خود ساختہ فیصلہ کرتا ہے تو امانت میں
خیانت کا مرتکب ہو گا اور خیانت کرنے والوں کو قرآن کریم نے خائن کا لقب
دیا ہے اور لعنت بھیجی ہے اور ان پر آئندہ کا اعتماد اور ان کی گواہی کو
بھی رد کیا ہے ۔
|