ہماری بیوروکریسی ایسی ہے کہ چکر دینے پر آئے تو وزیر
اعلی اور چیف سیکریٹری بھی چکر کھا جائیں اگر کام کرنے پر آئے تو عام آدمی
کی بھی سنی جائے مشکلات اور پریشانیاں منٹوں میں ختم ہو جاتی ہیں مگر حالات
یہی بتاتے ہیں ہم ہماری پستی اور پسماندگی کے پیچھے جتنا ہاتھ سیاستدانوں
کا ہے اتنا ہی حصہ ہماری بیوروکریسی نے ڈالا ہوا ہے پچھلے دنوں ایک رپورٹ
پڑھ رہا تھا کہ غریب کسانوں کے نام پر بھی ہمارے ان بابوؤں نے لوٹ مار مچا
رکھی ہے ہمارے غریب کسان نے تو کئی کئی سال سے نئے کپڑے نہیں سلائے نئی
جوتی نہیں خریدی کبھی پیزا اور برگر نہیں دیکھا دھول اور مٹی کا لباس پہنے
ہمارے یہ محنت کش جو اﷲ کے دوست ہیں ہم نے انہیں بھی چونا لگا دیا ہمارے
دیہاتی بھائیوں کو بھی اب یاد نہیں ہوگا کہ انکی فلاح وبہبود کیلیے حکومت
نے ایک زرعی انجمن امداد ہائے باہمی بھی بنا رکھی ہے جو غریب کسانوں کو چند
ہزار روپے قرضہ دیتی ہے تاکہ وہ بیج ،کھاد اور سپرے وغیرہ خرید کر اپنے
بچوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرسکیں مگر ہم ان غریب کسانوں کے نام پر بھی
لوٹ مار اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں سب سے پہلے تو ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ
زرعی انجمن امداد ہائے باہمی ہے کیا ؟۔کوآپریٹو ایکٹ 1925کے مطابق حکومت
ایک گاؤں میں چھوٹے کسانوں کی ایک سوسائٹی بنا کر انہیں قرضے دیتی ہے اور
چھوٹے کسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ ساڑھے بارہ ایکٹر یا اس سے کم زمین کا
مالک ہو کسی ایک گاؤں میں کم از کم دس افراد پر مشتمل سوسائٹی بن سکتی ہے
سوسائٹی کی تشکیل کیلئے تحصیل سطح کا افسر اسسٹنٹ رجسٹرار کوآپریٹو
سوسائٹیز خود گاؤں میں جا کر لوگوں کو ڈھول پیٹ کر یا لاؤڈ سپیکر کے ذریعے
اعلان کر کے ایک جگہ جمع کرتا ہے اور ہم خیال لوگوں کو سوسائٹی بنا نے پر
آمادہ کرتا ہے سوسائٹی کا ممبر بننے کا خواہش مند کسان اپنے نام ولدیت کے
ساتھ اپنی اراضی (ایکڑ) کی تعداد بتاتا ہے جس کی تصدیق اسسٹنٹ رجسٹرار گاؤں
کے دوسرے لوگوں کی شہادت سے کرتا ہے اس عمل کے بعد اسسٹنٹ رجسٹرار علاقہ کے
تحصیل دار اور پٹواری سے سرکاری طور پر تحریری تصدیق کرواتا ہے اس کے بعد
ہر سوسائٹی کی ایک ایگزیکٹو باڈی (پریز یڈنٹ ، وائس پریزیڈنٹ، سیکرٹری ،
خزانچی ، دوممبر ایگزیکٹو کمیٹی )کل چھ افراد پر مشتمل بذریعہ انتخاب تشکیل
دی جاتی ہے ہر ممبر کے اسی سوسائٹی کے دو ممبران گارنٹر بنتے ہیں سوسائٹی
ممبران کو 2ہزار فی ایکڑ کی شرح سے ششماہی بنیاد پر قرضہ دیا جاتا ہے جو
زیادہ سے زیادہ 25000روپے بنتاہے قرضہ کے اجرا کے بعد ہر 60دن میں سوسائٹی
کا اجلاس ہونا لازمی ہوتا ہے جو اسسٹنٹ رجسٹرار کی عدم موجودگی میں نہیں ہو
سکتا اسسٹنٹ رجسٹرار اجلاس میں ہر ممبر کی حاضری لگاتاہے اور کسی ممبر کی
غیر حاضری کی صورت میں تمام ممبران اور عملہ کے ساتھ اسکے گھر جا کر غیر
حاضری کی وجہ دریافت کرتا ہے اسسٹنٹ رجسٹرار کی ذمہ داری ہے کہ ہر ممبر کو
اس کی حد قرضہ کے مطابق رقم مل جائے تمام ممبران اپنا اپنا حاصل کر دہ قرضہ
سوسائٹی کے خزانچی کو واپس کر دیتے ہیں جو سوسائٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی
متعلقہ کواپریٹو بینک کے منیجر کے پاس جمع کروا دیتی ہے اگلے چھ ماہ کیلئے
سوسائٹی کے اجلاس میں میں نیا Resolution of demandپاس ہو تا ہے یہ اجلاس
بھی اسسٹنٹ رجسٹرار کی گاؤں میں موجودگی اور صدارت میں منعقد ہوتا ہے نیا
قرضہ بھی مقامی کوآپریٹو بنک کا مینجر پروسیجر کے مطابق جاری کرتا ہے جبکہ
نادہندہ سے قرض کی واپسی کا بھی ایک طریقہ کار طے ہے اگر کوئی ممبر فوت ہو
جائے یا قرضہ واپس نہ کر سکے تو اس کے گارنٹر (ضمانتی )قرضہ واپس کر نیکے
ذمہ دارہوتے ہیں اگر کوئی بلکل قرضہ واپس نہ کرے تو اس کی ملکیتی زمین سے
کھڑی فصل (ڈھول کی تھاپ پر)کاٹ کر نیلام کر دی جاتی ہے اور قرضہ کی رقم
وصول کی جاتی ہے مگر صوبہ پنجاب میں کم و بیش پچاس ہزارسوسائٹیاں ڈیفالٹ
کرگئیں اور دیے گئے قرضے واپس نہ ہو سکے تقریباً سال 2003-4 میں پنجاب
کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ Disfunctionalکر دیا گیا ۔ گذشتہ برس وزیر اعظم اور
وزیراعلیٰ پنجاب نے کوآپریٹو ڈپارٹمنٹ کو ازسرنو بحال کر کے انہی جعلی
انجمن ہائے امداد باہمی کو 1536ملین کے نئے قرضے جاری کر دئے سال
2000/2001میں پنجاب اکنامکس ریسرچ انسٹیٹوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ
پنجاب کی 97.5فیصد زرعی کوآپریٹو سوسائٹیوں کوجعلی قرار دیا گیا تھا۔
سال2003میں صوبائی وزیر کواپریٹوملک ا نور نے میڈیا کو بتایا تھا کہ صوبہ
پنجاب میں چیف سیکریٹری کی ہدایت پر ہونیوالی سوسائٹیوں کی ا سکرونٹی کی
روشنی میں13اضلاع میں40فیصد سوسائٹیاں جعلی ثابت ہوئی تھیں پنجاب کے باقی
اضلاع کے نتائج ابھی آنا باقی تھے دراصل ان جعلی انجمنوں کی تشکیل (رجسٹریشن
)کیلئے محکمہ کواپریٹو نے محکمہ مال کی ملی بھگت سے بے زمین دیہاتیوں کا
جعلی لینڈ ریکارڈ بنا لیاتھااور قومی خزانہ کے اربوں روپے لوٹ لئے اس گندے
کھیل کا ظالمانہ پہلو یہ ہے کہ جن بے زمین دیہاتیوں کے نام پر قرضہ جاری
ہوا تھا ان ہی معصوم لوگوں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ستمبر2000
میں بھی ایک ایسا ہی بے گناہ قیدی ننکانہ صاحب کے قریبی گاؤں کوٹ بھٹیاں کا
رہائشی سترسالہ شاہ محمدننکانہ صاحب کی حوالات میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک
ہو گاتھااور یہ خبر 24/25ستمبر2000 کو قومی اخبارات میں چھپی یکم جون
2000کو سرکل رجسٹرار کواپریٹو شیخوپورہ اور دیگر عملہ کے خلاف اینٹی کرپشن
تھانہ شیخوپورہ میں2ایف آئی ارنمبر15-16بھی درج ہوئیں لیکن کسی ملزم کو
گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ کواپریٹو ایکٹ 1925میں کسی نا دہندہ کی گرفتاری
اور جیل میں ڈالنے کی کوئی گنجائش نہیں ڈیفالٹر سے دراصل ریکوری ضامنوں کے
ذریعے یا کھڑی فصل کاٹ کر ہی کی جاسکتی ہے مگر یہاں پر تو جن کے نام پر
قرضے جاری ہوئے نہ انہیں علم ہوا اور نہ ہی انکی کوئی زمین ہوتی ہے یہ
ہماری بیوروکریسی کا کمال ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی
آنکھوں میں بھی دھول جھونک کر ان انجمنوں کو نہ صرف بحال کروایا بلکہ انکے
نام پر کروڑوں روپے بھی ہڑپ کرلیے ۔
|