حیران ہوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس میں ہر دوسرے کے
منہ سے جمہوریت کا راگ سننے کو ملتا ہے ۔ اور ہر پہلا بیچ میں کچھ عرصے کے
بعد ٹھیک اس طرح ہی آتا ہے جیسے ٹی وی پر فلم دیکھتے وقت بیچ بیچ میں کمرشل
آ جایا کرتی ہے ۔ ن لیگ کو جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں "ووٹ کو عزت دو " کا
نعرہ لگائے ہوئے لیکن بھول گئے ۔ اقتدار کی ہوس میں سیاستدان اکثر اپنی کہی
باتیں بڑی آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ن لیگ کی کیا کررہی ہے ن لیگ ووٹ کی عزت
کا تماشا لگا کر منتخب وزیر اعظم کو گرانے کی سعی میں ہے ٹھیک اسی طرح جیسے
پچھلے دورانیے میں عمران خان نواز شریف کو گرانے کی سعی میں تھا۔کل نواز
شریف اس سٹیج پر تھا آج عمران خان ہے اورکل نیا کوئی منتخب وزیر اعظم اسی
سٹیج پر ہوگا ۔ سیاستدانوں کو یہ کھیل پچھلے ستر سالوں سے کھلتے دیکھا
جاسکتاہے لیکن آج تک کسی سیاستدان نے پورے پانچ سال حکومت کر کے اس کھیل کو
انجام تک نہیں پہنچایا کوئی بھی اس کے اہل ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا وہ
شخص آئین کا دیا ہوا مقرر وقت بھی آج تک نہیں لے سکے وہ ملک و قوم کی خاک
خدمت کرئے گا۔ پاکستان میں وزیر اعظم کی حیثیت اتنی سی رہ گئی ہے ۔وزیر
اعظم جو ملک کا سربراہ ہوتاہے ، سردار ہوتا ہے وہ اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ
ریاست کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے بڑی آسانی سے لے سکے۔ ہمارے ملک میں وزیر
اعظم کی کرسی سے نہ صرف عشق کیا جاتا ہے بلکہ کسی دوسرے کو رقیب سمجھ کر اس
کرسی پر تسلی سے بیٹھنے بھی نہیں دیا جاتا۔ بھئی کرپشن کے لیے چار سال بہت
ہوتے ہیں اگر کسی نے ملک کو سنوارنا ہے تو اسے کم از کم پانچ سال ضرور ملنے
چاہیے ۔ میرے خیال میں تو وزیر اعظم کا دورانیہ کم از کم دس سال ہونا چاہیے
اور اسے کسی بھی اوچھے ہتکنڈے مثلاتحریک عدم اعتماد یا پھر مارشل لا کے
ذریعے ڈسٹرب نہیں کرناچاہیے ۔ستر سالوں سے ہمارے سیاستدان کرسی کرسی کھیل
رہے ہیں کسی کو کوئی فکر نہیں کہ عوام کس حال میں جی رہی ہے جی بھی رہی ہے
یا مر چکی ہے کوئی خبر نہیں ہے۔ پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جس میں
ٹیکنالوجی کی بھرپور ترقی کے باوجود آج تک صحیح آبادی کی تعداد معلوم نہیں
کی جاسکی۔ ریاستی معاملات کو بہتر طریقے سے سرانجام دینے کی طرف ہم نے ایک
قدم بھی نہیں بڑھایا۔ غریب اپنی نگاہیں وزیر اعظم کی کرسی پرپچھلے ستر
سالوں سے ٹکائے غریب تر ہوتا گیا۔ حجام میں بال بنانے والا بھی وزیر اعظم
کے آنے اور جانے کی خوش گپیوں میں مصروف ملتا ہے ۔ وزیراعظم، وزیر اعظم
ریاست کا سردار اور گلیوں، کوچوں اور بازاروں میں بس ایک انٹر ٹینمنٹ رہ
گیا ہے۔ اس تباہی کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہماری ریاست سیاسی طور پر
مستحکم نہیں ہے اور اس وقت تک مستحکم ہو بھی نہیں سکتی جب تک کوئی عوامی
لیڈر ریاست کی باگ دوڑ نہ سنبھالے اور تسلی سے سنبھالے ۔کرپشن زدہ بدنما
چہرے کے ہاتھوں کبھی بھی ریاست میں بہتری نہیں آسکتی ۔ ریاست کو ایماندار ،
باہمت، باکرداراور ایک بہادر ہی ترقی کی راہوں پر ڈال سکتا ہے۔ موجودہ وزیر
اعظم جناب عمران خان ماشااﷲ سے باہمت ہیاﷲ تعالی عمران خان کو روایتی چار
سالہ سیاسی موت سے محفوظ رکھے۔ یہ دعا صرف عمران خان کے لیے نہیں آگے آنے
والے نئے لوگوں کے لیے ہے یہ دعا شہباز شریف کے لیے بھی ہوسکتی ہے مریم کے
لیے بھی اور بلاول کے لیے بھی ۔ یہ دعا اصل میں پاکستان کے لیے ہے یہ دعا
اصل میں ہماری ریاست کے لیے ہے تاکہ ہماری ریاست مستحکم ہو سکے۔ امید ہے آپ
میری بات سمجھ گئے ہوں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے پہلی ضرورت ہر حال
میں ایگزیٹو کو اپنی مقرر ہ مدت پوری کرنی چاہیے ۔اور اگر موجودہ ایگزیٹو
کی بات کریں تو ہر لحاظ سے عمران خان کو اپنی مقررہ مدت پوری کرنی چاہیے ۔
یہ کہیں درجے زیادہ بہتر ہو گا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتمار کا
اختیار پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوؤں کی بجائے عوام کو ریفرینڈم کے ذریعے دیا
جائے۔ پارلیمنٹ مکو ریفرینڈم کرانے تک فیصلے کا اختیار ہو۔اور ریاست ہارس
ٹریڈنگ جیسی لت سے پاک وہ سکے۔ جب بھی حکومت اپنا دورانیہ شروع کرتی ہے تو
تقریبا ساٹھ فیصد دورانیہ معاملات کو سمجھنے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور
پچھلی حکومتوں کوکوسنے میں گزارتی ہے ۔ جب معاملات سمجھ میں آجائیں اور
ٹھیک سمت جانے لگیں تو پچھلی حکومتیں آڑے آ جاتی ہے تو کبھی فوج لہر میں
آجاتی ہے تو کبھی عدالتیں بیدار ہوجاتی ہیں معاملات ٹھیک نہیں ہوپاتے جب
بھی کوئی معاملات کو سمجھنے کے قریب پہنچتا ہے دوسرا آگے آکر نئے سرے سے
معاملات کو سمجھنے میں لگ جاتا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ تو
بقول ڈاکٹر اسد اﷲ ہم کھائی میں جارہے ہیں ۔ نواز شریف کا نعرہ "ووٹ کو عزت
دو" ہر سیاستدان کا نعرہ ہونا چاہیے یہ نعرہ کسی اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ کے
خلاف ہر گز نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی ووٹ کا تعلق اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے
کسی صورت بنتا ہے۔ یہ تم ہی ہو جوووٹ ووٹ کا کھیل کھیلتے ہو اور جیتتے ہو
یا ہارتے ۔ عملی طور پر ووٹ کی عزت اپنے گھر پارلیمنٹ سے شروع کرو اور پانچ
سال کے لیے عمران خان کو دیے ہوئے ووٹ کی عزت کرو اور اپنے گھر بیٹھواور
ایک شریف انسان کو ملک و قوم اور ریاست کے لیے وہ کرنے دو جو تمہاری دو دو،
تین تین اور چار چارنسلوں نے بھی نہیں کرنا۔ فضل الرحمن کے متعلق کہنے کو
بہت کچھ ہے لیکن کہنا نہیں چاہیے کیوں کہ اقتدار سے پہلا پہلا ہجر ہے اور
تکلیف دے ہے ہم مولانا کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں۔غلام محمد قاصر کی روح سے
معذرت کے ساتھ ان کا شعر ترمیم کے ساتھ فضل الرحمن کے لیے۔کروں گا کیا
جوسیاست میں ہو گیا ناکام مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتانوٹ:چوہدریوں
اور سندھ والوں کو نصیحتیں اگلی تاریخ پر دی جائیں گی۔بشکریہ سی سی پی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|