بھارت میں حجاب کے بڑھتے تنازعات، جانیے مختلف مذاہب میں پردے کی کیا اہمیت ہے؟

image
 
بھارت میں مسلمان طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کرنے کے بعد تنازعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ فروری میں بھارت کی ریاست کرناٹک میں انتہا پسند ہندوؤں کے شر پسند نعروں کے جواب میں نہتی لڑکی مسکان کے اللہ اکبرکے نعروں کی گونج پوری دنیا میں پہنچ گئی اور اب بھارتی شہر بھوپال کی ایک یونیورسٹی میں باہمت طالبہ نے کلاس روم میں حجاب کے ساتھ نماز ادا کی ہے جس کے بعد انتظامیہ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
 
سوال یہ ہے کہ بھارت اور مغرب میں حجاب کے حوالے سے خوف کی وجہ کیا ہے اور مختلف مذاہب میں پردے کی کیا اہمیت ہے؟
 
حجاب کی تاریخ
عام طور پر حجاب کا لفظ نقاب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔حجاب عربی زبان کے لفظ حجب سے نکلا ہے جسکے معنی ہیں کسی کو کسی چہرہ تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا- تاہم آج کل حجاب کی اصطلاح صرف سر پر اسکارف لینے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
 
عموماً حجاب یا پردے کو مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو اس کا استعمال قدیم زمانے سے ہی چلا آرہا تھا۔ پردے کا رواج آشوریوں، بابلیوں، میسوپوٹیمیا، سومریوں، اور قدیم یونان میں بھی پایا جاتا تھا۔ گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین سر ڈھانپا کرتی تھیں۔ سر کو کھلا چھوڑنا گناہ سمجھا جاتا تھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزا بھی دی جاتی تھی۔
 
image
 
یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کیے ہوں۔ یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر کی عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیوں کہ اسے عریانیت سمجھا جاتا تھا اور ننگے سر کے جرم کی پاداش میں جرمانہ تک کیا جاتا تھا۔ اس کے برعکس طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ آزاد اور غلام عورت میں فرق کیا جاسکے۔
 
بھارت میں نماز پڑھنے کا تنازعہ
ریاست مدھیا پردیش کے شہر بھوپال میں ڈاکٹر ہری سنگھ گور ساگر یونیورسٹی میں ایک مسلمان طالبہ نے کلاس روم میں حجاب کے ساتھ نماز ادا کی جس کے بعد انتظامیہ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
 
15مارچ کو بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کا پابندی کے خلاف درخواست کو خارج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حجاب مذہب میں لازم نہیں ہے جبکہ اس فیصلے کو ایک طالبہ نے بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
 
بھوپال میں طالبہ کے نماز پڑھنے پر بھارت میں ہندوتوا نظرئیے کی پیروکار اور دائیں بازو کی طلبہ تنظیم ہندو جاگرن منچ نے یونیورسٹی انتظامیہ سے طالبہ کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کیا ۔ہندو جاگرن منچ کے چیف امیش سراف نے الزام عائد کیا کہ وہ کافی عرصے سے حجاب پہن کر کلاسز لے رہی ہیں۔
 
یونیورسٹی کی وائس چانسلر نیلما گپتا کا کہنا ہے کہ انہوں نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی ہے۔ پانچ ممبران پر مشتمل کمیٹی تین روز میں تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے گی جس کی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔
 
image
 
مسکان خان کا عزم اور بشریٰ متین کا ریکارڈ
بھارت میں حجاب پر پابندی کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی مسکان خان حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت نہ ملنے پر امتحان میں نہیں بیٹھیں جبکہ ان کے والد بھی بیٹی کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔
 
بھارتی ٹی وی کے مطابق مسکان نے کالج انتظامیہ سے حجاب میں امتحان دینے کی درخواست کی تھی جس پر انتظامیہ نے انکار کردیا اور اب پھر مسکان نے بطور احتجاج امتحان نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے والد محمد حسین کا کہنا تھا کہ ہائیکورٹ نے ہمارے بچوں کی امید پر پانی پھیر دیا ہے اور مسکان اب امتحانات بھی نہیں دے گی۔
 
بھارت میں جہاں حجاب کو تعلیم میں بڑی رکاوٹ قرار دیا جارہا ہے وہیں کرناٹک کے علاقے رائچور کی طالبہ بشریٰ متین نے اپنی بے پناہ تعلیمی صلاحیتوں اور بہترین قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس ایل این کالج آف انجینئرنگ،رائچور سے بی ای سول میں 9اعشاریہ 47 گریڈ کے ساتھ شاندار کامیابی حاصل کی اور 16 گولڈ میڈلز اپنے نام کرکے وشویشوریا ٹیکنیکل یونیورسٹی بیلگام کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔
 
مذہب اور حجاب
دنیا کا کوئی بھی مذہب بے پردگی کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ تمام مذاہب میں خواتین کی عزت و حرمت کو واضح اہمیت دی جاتی ہے، اسلام میں زیادہ تر علما کی رائے میں عورتوں کا حجاب پہننا لازم ہے جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے جبکہ مسیحیت میں بھی پردے کے حوالے سے بائبل میں احکامات واضح ہیں، بائبل میں یہ بھی مرقوم ہے کہ جو عورت بنا سر ڈھکے دعا یا عبادت کرے وہ اپنے سر کو بےحُرمت کرتی ہے جبکہ وہ سرمنڈھی کے برابر ہے۔
 
مسیحی مذہب میں راہبائیں آج بھی عبایا نما لباس پہنتی اور سر ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔ مسیحی کتب میں بھی جا بجا برقع یا پردہ کا ذکر ملتا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے حجاب اور نقاب کو ایک عرصہ سے مغربی دنیا میں مسلمانوں کی ثقافت کی علامت قرار دے کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سیکولرازم کے دعویدار کسی مسلمان خاتون کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ اپنے سر یا منہ پر نقاب ڈالے ۔
 
عالمی چارٹر
انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کی دفعہ 27 میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق ہے، مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے کا حق تو دیا جا رہا ہے مگر کسی قوم کا ’’ثقافتی تشخص و امتیاز‘‘ تسلیم کرنے کے لیے بھارت اور کئی دیگر ممالک تیار نہیں ۔
 
 دنیا بھر کے مسلمانوں سے خاص طور پر تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے عقیدے، مذہب اور ثقافت سے متعلق ہر چیز سے دستبردار ہو کر مغرب کی مسلط کردہ ثقافت کو بہرحال قبول کریں۔ گویا سیکولرازم کا معنی یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین و ثقافت سے دستبردار ہونے کا حق تو ہے مگر اس پر عمل کرنے اور اپنے معاشرے میں اپنے دین و ثقافت کا ماحول قائم رکھنے کا حق حاصل نہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: