لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتِ حال

لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورتِ حال
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
لمحہ بہ لمحہ بدلتی سیاسی صورت حال نے ملک میں عجیب کیفیت پیدا کردی ہے۔ ہر شخص تذبذب میں ہے کہ آئندہ ملک میں کیا ہونے جارہا ہے۔متحدہ اپوزیشن اور تحریک انصاف کے اراکین کو توڑنے اور حکومت کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں ہر جائز و ناجائز طریقے استعمال کررہی ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھی چودھری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامذد کر کے وہی کچھ کیا جو اپوزیشن کر رہی ہے۔ ماضی میں ہونے والے چھانگا مانگا اور مری کے واقعات کے سامنے موجودہ توڑ جوڑ بہت آگے نکل گئے ہیں۔ لوٹابننا بہت ہی معیوب بات سمجھی جاتی تھی لیکن اب یہ کام کھلے عام اور دھڑلے سے کیا جارہا ہے۔ حکومت خط کو لے کر حکمت عملی تیار کررہی ہے۔ اس خط کے مندراج کو بہتر الفاظ میں چند صحافیوں سے شیئر کیا گیا، حکومت خط کو پاکستان کے چیف جسٹس کو بھی پیش کرنے پر تیارہیں۔ اب منتخب ایوان میں اگر اپوزیشن تیار ہو تو پیش کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ تحریک عدم اعتمادکے لیے اپنے ووٹ ظاہر کرنے کا عمل جیسے جیسے قریب آرہا ہے مخالفین کے اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کا عمل بھی تیز ترہوتا جارہا ہے۔ اس کام میں قبلہ آصف علی زرداری ماہر ہیں انہوں نے اپنی اس مہارت کو کام میں لاتے ہوئے، بلوچستان عوامی پارٹی جسے عرف عام میں باپ پارٹی کہا جاتا ہے کو اپنے ساتھ ملایا اور ایک پریس کانفرنس میں اس پارٹی کے چند اراکین نے متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان بھی کیا تاہم اس کے دو اراکین جن میں سے ایک وفاقی وزیر زبیدہ جلال صاحبہ شامل ہیں حکومت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا، جی ڈی اے بھی حکومت کے ساتھ ہے۔ اس سے قبل زین بگٹی نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ زرداری صاحب شہری جماعت ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملانے کی سر توڑ کوشش میں تھے، دوسری جانب حکومت بھی کوشش کررہی تھی لیکن حکومت کو ناکامی ہوئی اور اپوزیشن نے متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے ساتھ ملالیا۔ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس کی اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا۔ جب تک ایم کیو ایم نے اپوزیشن میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تھا، خیال یہ کیا جارہا تھا کہ اگر ایم کیو ایم حکومت کا ساتھ دیتی ہے تو تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی۔ حکومت کی کامیابی اس وقت بھی محسوس کی گئی جب کپتان نے ترپ کا پتہ استعمال کر کے چودھری پرویز الہٰی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ نامذد کردیا۔ اس وقت صورت حال ایسی بنی کے اب حکومت کا پلڑا بھاری ہوگیا اور جیت حکومت کی ہوگی۔ آصف علی زرداری صاحب نے جس انداز سے پرویز الہٰی کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا افسوس کیا لگ رہا تھا کہ انہیں اس کا بہت دکھ ہوا۔ انہوں نے فرمایا کہ رات بارہ بجے وہ مجھے مبارک دینے اور مبارک باد لینے آئے صبح ہوئی تو وہ حکومت کے ساتھ چلے گئے۔اب اس کا توڑ متحدہ اپویشن کے پاس یہ تھا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے ساتھ ملالے۔ چناچہ کاروائی میں تیزی آئی، اجلاس پر اجلاس، ملاقات پر ملاقات۔ ایم کیوں ایم ماضی میں پیپلز پارٹی سے کئی معا ہدے کر چکی ہے۔ ان معاہدوں کاانجام کبھی بھی اچھا نہیں نکلا۔ اس وقت ایم کیوں ایم نے جو زرداری صاحب سے مانگا اس پر انہوں نے آمنا و صدقنا کہا۔ ہمیں سب کچھ منظور بس تم ایک بار ہمارے ساتھ بیٹھ کر ہمارے ساتھ رہنے کااعلان کردو۔ وہی ہوا، متحدہ کو اور کیا چاہیے تھا۔ اعلان ہوگیا۔ متحدہ بہت خوش، متحدہ اپوزیشن بہت خوش، اب ایک نئی صورت حال سامنے آگئی ہے۔ ادھر پنجاب میں چودھری پرویز الہٰی کی پارٹی میں وہ رکن جو گزشتہ تین سال سے وفاقی وزیر کے مزے لیتے رہے تھے، چیمہ صاحب اعلان کررہے ہیں کہ وہ عمران خان کو ووٹ نہیں دیں گے، حالانکہ عمران کو ووٹ نہیں پڑیں گے، وہ متحدہ کو ووٹ دیں گے۔ چیمہ صاحب ق لیگ کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ لگتا ہے کہ چودھری صاحبان ابھی تک انہیں منانے کی کوشش میں ہیں۔ اگر وہ اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہیں تو انہیں ق لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے ہٹادینا چاہیے۔
حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ اب جب کہ عددی گنتی کے اعتبار سے متحدہ اپوزیشن کے پاس 172سے کہیں زیادہ اراکین کی حمایت بہ ظاہر حاصل ہوچکی ہے، حکومتی وزراء اب بھی عمران خان کی کامیابی کی باتیں کر رہے ہیں۔ سمجھ سے باہر ہے یا تو انہیں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین نے ووٹنگ کے عمل والے دن غائب ہوجانے، کا یقین دلایا ہے ایسے ہی جیسے سینٹ کے چیرئمین کے الیکشن میں سینٹ میں بیٹھے اراکین کی تعداد اتنی تھی کہ اپوزیشن کا چیرئ مین منتخب ہوسکتا تھا لیکن نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے کچھ لوگ محض ایوان میں بیٹھے رہے، ووٹ حکومت کے نمائندے کودیا۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس بار بھی متحدہ اپوزیشن، یا حکومتی اتحاد یوں کے کچھ اراکین، باغی اراکین ووٹنگ والے دن ایوان سے غیر حاضر ہوجائیں، کچھ بیمار ہوجائیں، کچھ کو بیرونِ ملک جانا ضروری ہوجائے۔مختصر یہ کہ کپتان نے اپنے جلسہ میں جس خط کا ذکر کیا تھا اس کے بعد سے صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہی۔ کبھی کپتان کا پلڑا بھاری دکھائی دیا اور کبھی متحدہ اپوزیشن بازی لے جاتی نظر آئی۔ لیکن ایم کیوایم کے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ چلے جانے کے بعد عددی برتری بہت واضح ہوچکی لیکن اس صورت حال کے باوجود کپتان اور اس کی ٹیم مسلسل خوش فہمی میں مبتلاہے۔ اب کوئی معجزہ ہی کپتان کووزارت اعظمیٰ کے عہدہ پر رکھ سکتا ہے۔(31مارچ2022)



Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436937 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More