آپ سے مل کر خوشی ہوئی

آنے والا مورئخ جب ہمارے زمانہ کی تاریخ لکھے گا تو وہ عجیب حیرت کے عالم میں ہوگا، وہ دیکھے گا کہ ایک طرف ملک کے سیاسی مستقبل کے مصالح تو دوسری طرف سیاسی خدع و فریب کے بل بوتے پر کوشاں اپنی مساعی کو حقوق کا نام دینے والے نامراد لوگ ہیں۔عوام کی مثال ایک ایسے نحیف و لاغر انسان کی سی ہے، جس کے پاس نہ قومی دولت کے انبار ہے۔ نہ سرمایہ داروں کا گروہ۔ نہ میڈیا اس کے پاس ہے۔ نہ پلیٹ فارم۔ نہ کام کرنے والوں کا لشکر ساتھ ہے نہ مشیروں کی جماعت۔ بس سوشل میڈیا ہی رہ گیا ہے جس میں فرد واحد، ملّی درد سے مجبور اپنے خود ساختہ تدبر کے زور پر، اپنی جیب سے خرچ کرکے نقار خانے میں طوطی کی آواز بنا ہوا ہے۔ دو چار ساتھی جو کہیں ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں، ان کی آواز تشتت و انتشار کے صحرا میں کھوجاتی ہے۔ جلسوں میں کی گئی تقاریر سے ملکی فضا میں ہیجان خیزی اورسنسنی پھیل رہی ہے کہ معیشت کے بدترین حالات میں کیا کوئی جماعت الہ دین کا چراغ رگڑ کر ریاست کو درست سمت پرلانے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں۔

روایتی بیان بازی جس کا لب لبا ب ’ملک کے وسیع تر مفاد‘ اور آئین کا تحفظ قرار دیا جاتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یقیناََ نہیں چاہتی کہ قانونی و سیاسی محاذ آرائی میں ذاتیات کو نشانہ بنایا جائے۔ پارلیمنٹ جمہوری نظام میں بالاتر ہے، ارباب اختیار اپنی ذاتی انا کو ایک جانب رکھ کر اگر مسائل کا حل باہمی مشاورت سے نکالتے تو ضرورت ہی نہ پڑتی کہ پورے ملک کی قسمت کو داؤ پر لگا دیا جاتا۔ سیاست کا دوسرا نام مفاہمت اور مصالحت قرار دیا جاتاہے۔ افہام و تفہیم کے ذریعے بھی دیرینہ مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات ریاست کے تمام اداروں کے لئے نوشتہ دیوار ہیں کہ اس سے سوائے نقصان کے کبھی فائدہ نہیں ہوا۔ موجودہ صورت حال کو آئینی و قانونی تقاضوں سے دیکھا جارہا ہے۔ مسلسل کشاکش و جنگ جیسے ٹھن چکی ہے، منافرت نے معاشرت کو تلخ و زہر آلود بنادیا اور قوم کی طاقت بے سود خرچ ہو رہی ہے۔ غرض ایسی فرماں روائیاں، فقط بے جا امتیازات ہیں جو جبراََ و قہراََ کوئی حاصل کرلیتا ہے۔ چہرے بدلتے ہیں لیکن نظام نہیں بدلتا۔

دنیا کے مہذب اور جمہوری ملکوں میں یہ روایت ہے کہ بڑا سے بڑا انتظامی عہدے دار بھی آئین اور قانون کے مطابق جواب دہ ہوتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا کہ فلاں ادارہ معتصب یا جانبدار ہے۔ سب سے پہلے کرنے کا کام یہ ہے کہ سیاسی تقاریر میں میانہ روی اور حزب اختلاف پر یا وہ خود الزام تراشیوں یا طعنوں سے پرہیز کریں۔ کوئی اخبارات میں بیان شائع کرارہا ہے، کسی کو دیکھئے برسرعام آنسو بہا رہا ہے۔ کوئی اسٹیج پر کھڑا عوام کے جذبات بھڑکا رہا ہے۔ ان حضرات سے پوچھئے کہ ذرا سنجیدگی اور متنات سے غور کرکے بتائیں کہ ایسی کونسی بات خلاف آئین ہوگئی جس پر یوں شور مچایا جارہا ہے، اس میں گالی تو ایک طرف سوقیانہ پن کی بھی کوئی بات نہیں، منافقت کے خوش آئند پردوں میں کالے کو کالا کہہ دینا اگر غلط ہے تو پھر سچ کے لئے دنیا میں کوئی جگہ باقی نہیں بچی۔ وزیراعظم کے خلاف معاملہ صرف کسی دو سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ اس کے اثرات سے دنیا بھر میں ملکی انتظامی گرفت پر سوال اٹھتے ہیں۔ بارہا اس اَمر کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا کہ ایسے نمائندوں کو اہمیت دی جائے جو حقیقی معنوں میں عوام کے دکھ درد اور تکالیف سے آگاہ ہوں اور وہ قانون ساز ادارے کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

ملکی صورت حال گھمبیر ہے، بیرونی دنیا سے بھی معاملات طے کرنے اور اندرون ملک بھی نظام کو چلانا ہے۔ کوئی بھی منتخب جماعت اگر اقتدار کا مسند سنبھال لیتی ہے تو معاملات کو سیاسی انداز سے آگے بڑھائے تاکہ نظام بہتری کی جانب گامزن ہو۔ بد قسمتی سے جس قسم کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے یہ طرز عمل خطرناک ہوسکتا ہے۔ سادہ لفظوں میں کہوں کہ آئینی او ر قانونی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کا حربہ تباہ کن ہوسکتا ہے۔ اب بھی معالات کو سنبھالا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے آخری دور میں ہے، سیاسی رہنماء خود پر لگے الزامات ختم کرانے کے لئے ایسا راستہ چنیں کہ عوام کو اس امر کا یقین ہو کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں، اس حوالے سے انصاف فراہم کرنے والے اداروں کا کردار سب سے اہم ہے کہ وہ سیاسی معاملات اور قانونی مسائل پر مبنی مقدمات کے لئے اصلاحات کی جانب جائے۔

بادی النظر حزب اختلاف کا دعویٰ کہ ان کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود اور حکومت کی حکمت عملی بھی عیاں کہ وہ اس تحریک کو شائد یا یقیناََ ناکام بنا سکتی ہے لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دونوں جانب کامیابی کا محرک وہ جماعتیں ہیں جن کے کم تعداد میں اراکین اکثریتی جماعتوں پر غالب ہیں اور وہ ہمیشہ کی طرح کنگ میکر کی پوزیشن میں۔ تحریک کا جو بھی انجام ہو، اس قطع نظر ضرورت اس امر کی پہلے سے زیادہ بڑھ چکی کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر آنے والی کوئی بھی حکومت سیاسی خلفشار کے دباؤ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ قبل از وقت انتخابات کا بار حکومت برداشت نہیں کرسکتی کیونکہ کھربوں روپوں کا ایک ایسی لاحاصل مشق پر اخراجات کرنا، جس کے وقعت ہی نہ ہو، جس کے اختیارات مفلوج کردیئے جاتے ہوں، جہاں اجلاسوں پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود مقصد ثمر آور نہ ہوتا ہو، سینکڑوں اراکین کو تنخواہوں اور مراعات کی مد میں اربوں روپے ملتے ہوں لیکن ان کی گفتاریاں فروعی مفادات تک محدود ہوں تو ایسے کھیت سے دہقان کو کیا فائدہ، کیا ہی اچھا نہ ہو کہ اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو آگ لگا دی جائے۔

دیار غیر سے جہاں اور لعنتیں آئیں وہاں ایک بہت بڑی لعنت تہذیب اور اخلاق کا غلط نظریہ بھی ہے۔ عجب معیار ِ تہذیب ہے کہ معاشرے کے عیب کو عیب کبھی نہ کہو، کسی پر نکتہ چینی نہ کرو، آپ کے سامنے ایک شخص سرتا پا جھوٹ بول رہا ہے، لیکن اخلاق کا تقاضا ہے کہ اسے ٹوکئے نہیں، آپ کے دل میں کسی کے خلاف لاکھ جذبات منافرت موجزن ہوں لیکن اس سے جب ملئے نہات خندہ پیشانی سے ملئے، اندر سے دل مار سیاہ کی طرح پیج و تاب کھارہا ہو لیکن ہنس کر کہئے کہ آپ کی ملاقات سے بے حد مسرت ہوئی۔

 

Qadir Khan Yousafzai
About the Author: Qadir Khan Yousafzai Read More Articles by Qadir Khan Yousafzai: 399 Articles with 295970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.