ہماری سیاست بہت کمال ہے۔ سیاست کا ہر مہرہ دوسرے کو
اخلاق کی تلقین کرتا اور خود اخلاق کی دھجیاں اڑاتا ہے۔اخلاق کے کچھ فطری
تقاضے ہوتے ہیں وہ سب جانتے ہیں مگر دوسروں کو تو بتاتے ہیں اور عمل کی
تلقین کرتے ہیں مگر خود عمل کرنا انہیں محال نظر آتا ہے۔آج کی سیاست میں ہر
مال بکاؤ ہے۔ قیمت ہر ایک کی اس کی اوقات کے مطابق لگتی ہے۔ کسی کو پیسہ ،
کسی کو عہدہ ، کسی کو اقتدار،کسی کو کچھ اورمگر سب کچھ کرنے کے باوجود
ہمارے لیڈروں کے ضمیر مطمن رہتے ہیں۔کسی کی قیمت وزارت، کسی کی مشیر ہونا
اور کوئی سیدھی سادی پندرہ بیس کروڑ کی رقم کا طلب گار ہے۔ یہ چیزیں مل
جائیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ نوزنے والا اس کو عزت دے رہا ہے۔نہ خریدنے والے
کو شرم ہوتی ہے نہ بکنے والے کو۔خود کو بیچنے والوں کو دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ
یہ سب کچھ عوام کے لئے کر رہے ہیں،ان سے عوام کی کس مپرسی نہیں دیکھی جاتی،
عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، بجلی مہنگی، گیس مہنگی، آٹا مہنگا،
ضروریات زندگی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام کی بد
ترین حالت ان کے پیٹ میں بہت گڑ بڑ اٹھا رہی ہے اور وہ مجبور ہیں کہ اپنا
سب کچھ بیچ کر اپنی اور عوام دونوں کی حالت بہتر بنانے کی سعی کریں۔ ویسے
بیچاروں کے پاس بیچنے کو ہوتا کیا ہے، فقط ایک معمولی سا ضمیر، تھوڑا سا
ایمان،یہ چھوٹی چھوٹی دو بھاری بھرکم گٹھریاں اٹھانا بھی کتنا مشقت کا کام
ہے۔وہ سودا کرتے اور اس بھاری بوجھ سے نجات پا جاتے ہیں۔بہت حد تک اپنی اور
کسی حد تک عوام کی بہتری کے لئے یہ بوجھ اتارنا بھی شاید کار ثواب ہی ہوتا
ہے اور موجودہ بے ضمیری کے دور میں کون کمبخت ثواب کمانے سے انکار کر سکتا
ہے۔
عموماً ہوتا یہ ہے کہ ہمارے پیارے لیڈر عوام کے لئے جدوجہدکرتے جلد تھک
جاتے ہیں اور مجبوری میں کچھ حاصل کر لیتے ہیں مگر سوچیں انہیوں نے کیا کیا
قربانی دے ہوتی ہے۔بہتری کے لئے عزت اگر پہلے کچھ ہو تو وہ بھی داؤ پر
لگائی ہوتی ہے۔ ا پنی حالت بہتر ہوتے ہی یہ لوگ عوام کو حالات کے رحم وکرم
پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آدمی کب تک کسی کا ساتھ دے۔ اپنے اپنے حصے کا کام تو ہر
ایک کو خود کرنا ہوتا ہے۔ عوام خود بھی ہمت کریں۔عوام جوصرف کیڑے مکوڑے ہیں،
بیچارے اسی میں خوش ہو جاتے ہیں کہ کسی کہانی میں ان کا ذکر تو آیا۔ کسی نے
اس قابل تو سمجھا کہ ان کے لئے ہمدردی کے دو بول کہہ دئیے۔ یہ ہمدردی کے
بول انہیں اس قدر سرشار کر دیتے ہیں کہ وہ بھول جاتے ہیں اور سوچتے ہی نہیں
کہ ان کا لیڈر کتنا سفاک ہے ، کس قدر بد دیانت ہے، کتنا بے ایمان ہے،کس قدر
بے ضمیر ہے اور کس قدر موقع شناس ہے۔ مگر ہمارا عام آدمی بنیادی طور پر بت
پرست ہے ۔وہ جس شخص کا بت ایک لیڈر کے طوتر پر ذہن میں سجا لیتا ہے اس کی
ہر ادا اس کے نزدیک شاندار ہوتی ہے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ بت کچھ نہیں دے
سکتا اسے بت پرستی اچھی لگتی ہے۔وہ اپنی اس عادت سے مجبور ہے۔میں نے پہلے
بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ بت پرستی ہمارے خمیر میں شامل ہے۔
اقتدار میں بھی ایک نشہ ہے جو انسان کو صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط سمجھنے
سے قاصرکرتا ہے۔ اصولی طور پر اقتدار اس وقت تک جائز ہے جب تک آدمی اکثریت
میں ہے۔ جب اکثریت نہیں تو اخلاقی طور پر اقتدار کا کوئی جواز نہیں لیکن
اسے طول دینے کے بھی لاکھ بہانے ہوتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی شخص جو کرتا
ہے اسے وہ اپنی باتوں سے حق بجانب قرار دیتا ہے۔ اس کے مخالف جو مرضی کہیں
وہ نہیں مانتا کیونکہ وہ سیاست دان ہوتا ہے۔ اس وقت اس کے اخلاق کے معیار
بدل جاتے ہیں کیونکہ جنگ، جھگڑے اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے۔ لوگ اپنی
اپنی تعمیر کردہ اخلاقی عمارتوں میں خود کو مقید کر لیتے ہیں اور جو بھی
کرتے ہیں ،سمجھتے ہیں کہ وہی ٹھیک ہے۔اہل اقتدار کے مشیر بھی ہر غلط مشور ے
پر واہ واہ کرتے اور اس اس وقت تک اپنی نعرے بازی بند نہیں کرتے جب تک کہ
بازی انجام کو نہ پہنچ جائے۔سیاستدانوں کے لئے زبان کے استعمال کے حوالے سے
بھی کوئی قید نہیں ہوتی بلکہ ان کی بزم میں جو بات بھی جتنی فضول اور
بیہودہ ہوتی ہے ، عام پبلک اسے سن کر خوش اور آسودہ ہوتی ہے۔ اسے اپنا لیڈر
اور زیادہ اچھا لگتا ہے۔
ہم الزام دیتے ہیں کہ اس ملک میں اقتدار زیادہ تر فوج کے پاس رہا ہے۔فوج نے
ملک کو خراب کیا اور بہت سے الزامات فوج کو دئیے جاتے ہیں۔ آج جو نسل پرانے
حالات سے واقف نہیں اسے نظر آرہا ہے کہ حالات کی خرابی کے ذمہ داراسی طرح
ہمیشہ سیاستدان ہی ہوتے ہیں ۔ سیاسی لوگ حریص ہیں، ہلکے لوگ ہیں ، انہیں
اقتدار ہر قیمت پر درکار ہوتا اور اسے حاصل کرنے کے لئے یہ کسی بھی سطح تک
جا سکتے ہیں۔ اقتدار کے بغیر ان کا زندہ رہنا اسی طرح مشکل ہوتا ہے جس طرح
مچھلی کا بغیر پانی۔ انہوں نے سیاست کو انڈسٹری کی شکل دے دی ہے اور کسی
صورت میں کوئی گھاٹا قبول کرنے کو تیار نہیں اور یہ خود اپنی کرتوتوں کے
سبب چیزیں پلیٹ میں رکھ کر آنے والوں کو پیش کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر
چند دن یہی صورت حال رہی تو آنے والا آئے گا اور ضرور آئے گا۔اس ملک میں
جہاں ہر اچھا برا کام آئینی ہی ہوتا ہے تو ہمارے سیاست دانوں کے طفیل ایک
اور نیک آئینی کام ہمارا منتظر ہے۔انہیں آنا ہے اور وہ کیوں نہ آہیں ۔ اس
ابتری اور انارکی میں اس ملک کو سہارا دینا ان کا فرض ہے۔ان کا آنا تو
پاکستان کی سا لمیت کا تقاضہ ہو گا۔
جاتے جاتے مجھے جناب بلاول بھٹو کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے۔ اردو پچھلی دو
تین صدیوں سے بر صغیر میں مسلمانوں کی زبان تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اسے
پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔ اس وقت سے آج تک اردو نے بہت ترقی کی
ہے۔ اس کی لغت میں بہت سے نئے لفظ آئے جن سے اس زبان کی وسعت میں بہت اضافہ
ہوا۔حال ہی میں جناب بلاول بھٹو نے ایک نیا لفظ اردو لغت میں شامل کرایا
ہے، جس کی وضاحت پیپلز پارٹی کے واقفان حال نے یہ کی ہے کہ اگر کسی شخص کی
ٹانگیں کانپیں تو وہ تھوڑی سی ہمت کے بعد سنبھل سکتا ہے، مگر جس شخص کی
کانپیں ٹانگ رہی ہوں ، منہ کے بل گرنا اس شخص کا مقدر ہوتا ہے۔ اس کو
سنبھلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ بہت شکریہ بلاول صاحب اگر آپ اسی طرح
اردو کے ساتھ کرتے رہے تو سیاست آپ کو جگہ دے یا نہ دے اردو پر آپ کے
احسانات کو اہل اردو کبھی بھی بھول نہ پائیں گے۔
|