ضمیر کے قیدی ! ...........

پوری قوم یہ حال دیکھ کر حیران و ششدر کھڑی دیکھ رہی ہے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے اور کیا جواب دے۔ وہ قوم جس سے عقل و فکر چھین کر صبر و شکر کا فلسفہ تھما دیا گیا ہو وہ کہہ بھی کیا سکتی ہے؟ بقول احمد ندیم قاسمی
اظہار مدعا کی اجازت کا شکریہ
لیکن مری زبان تو واپس دلایئے
الفاظ سے صدا کی صفت کس نے چھین لی
اس رہزنی کا کھوج تو پہلے لگایئے

میرے نزدیک تو رہزن وہ نظام ِ معیشت ہے جس میں احتیاج کا خوف دامن گیر رہتا ہے اور جس نے ہمارے جذبے، ہمارے خیال اور ہماری فکرکو جکڑا ہوا ہے، اس نظام میں ہر فرد ِ معاشرہ اپنے آپ کو غیر محفوظ اور اپنے مستقبل کو تاریک سمجھتا ہے تو وہ اپنے اپنے مفادات کے پیچھے اس انداز سے دوڑتا ہے کہ کسی دوسرے کے مفاد کا قطعاََ کوئی خیال نہیں کرتا بلکہ دوسروں کے مفادات کو حتی الوسع ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح یہ نظام چند کروڑ کا خون نچوڑ کر چند سو یا ہزار کا پیٹ بھرتا ہے۔ گویا ہمارا نظام ہمیں اس خوف سے آزاد نہیں کرتا کہ ریاست ان کے ہر حقوق کا تحفظ کو عملی طور پر یقینی بنائے گی۔ اس نظام میں احتیاج کا خوف دامن گیر رہتا ہے، اس کا علاج اس خوف سے نجات حاصل کرنے میں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خوف دل سے نکالا کس طرح جاسکتا ہے۔

یہ خوف دور ہوسکتا ہے اور اس وقت ممکن ہے اگر فرد معاشرہ کو اس امر کا پورا یقین ہو جائے کہ اس کی کوئی ضرورت رُکی نہ رہے گی، نہ ہی اس کی کوئی احتیاج ستائے گی، وہ کبھی بھوکا نہیں مرسکتا، اس کی اولاد کسی حالت میں بے کس و بے بس نہیں رہ سکتی یعنی اسے اس امر کا یقین ہوجائے کہ اس کی اور اس کی اولاد کی تمام ضروریات ِ زندگی کا سامان موجو د ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں ایک بوڑھے والدین کا ایک ایسا مقدمہ سامنے آیا جس نے ہمارے معاشرے کے کھوکھلے پن کا برہنہ پن ظاہر کردیا۔ ضعیف والدین نے اپنی اولاد کے لئے اپنی جمع پونجی سب کچھ نچھاور کردی لیکن جب وہ عمر کے اُس حصے میں پہنچ گئے کہ انہیں اپنی اولاد کا سہارا درکار تھا تو ناخلف اولاد نے اپنے والدین کی ذمے داری مشترکہ طور پر اٹھانے کے بجائے ایک دوسرے پر ڈالنا شروع کردی اور ان کی یہ حالت ہوگئی کہ جس آشیانے کو تنکا تنکا جوڑ کر بنایا تھا وہ بھی انہوں نے اولاد پر وار دیا لیکن چھ بچوں کو اتنی زحمت نہ ہوئی کہ وہ ان کے لئے مکان دینے والے والدین کے کرائے کے گھر کا کرایہ بھی دے سکتے، ان کی ضرورت زندگی کا تھوڑ تھوڑا بوجھ ہی اٹھالیتے لیکن انہوں نے اس سے صرف ِ نظر کیا۔

یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو کسی این جی او کے توسط سے سامنے آگئی وگرنہ ہزاروں لاکھوں افراد کے ساتھ یہ معاملات عمومی طور پر واقع پزیر ہوتے ہوں گے اور ان سے صرف اُن کا خدا ہی واقف ہوگا۔ ریاست کے نزدیک کیا معاملات اہم ہیں اس پر ارباب ِ حل و عقد کو زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ یہاں تشتت و انتشار کا بڑا سبب نظام کی وہ کمزوریاں ہیں جس سے غلط و صحیح کے فیصلے کرنا اس حقیقت سے صرف ِ نظر کرنا حماقت ہے کہ اس پر لاحاصل بحث ہوتی رہے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل۔ اختلافی نکات میں عدم برداشت کے رویوں نے ایک دوسرے پر نکتہ چینی کا حق بھی چھین لیا ہے، ضروری تھا کہ ہم اپنے نظام کی خامیوں کے اُن امور پر ایک صفحے پر آتے جو ان سب میں مشترک تھی لیکن فروعی مفادات نے وہ بگاڑ پیدا کردیا ہے کہ جس طرح بوڑھے والدین کی ناخلف اولاد نے انہیں بوجھ سمجھ کر ایک دوسرے پر لاد دیا۔

اصول خواہ دینی ہوں یا دنیوی، اس لئے نہیں بنائے جاتے کہ اُن کو بت بنا کر ان کی پرستش کی جائے، اصول تو صرف اس لئے بنتے ہیں کہ ان پر صحیح طور پر عمل کیا جائے۔ اصول اپنی جگہ بنیادی ہوتے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آیا کرتی، لیکن اصولوں پر چلنے کے انداز ہر زمانے اور ہر ماحول کے مطابق ترقی کرتے ہیں، اگر ایسا نہ ہو تو علم اور عمل الگ الگ راہوں پر چلنے لگتے ہیں اور ان میں کوئی رابطہ قائم نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر جب بجلی پیدا کرنے کا اصول ایجاد ہوا تو پہلے پہلے جو شخص ہاتھ لگاتا تھا، صرف جھٹکے لگتے تھے، پھر جیسے جیسے انسان کا علم بڑھتا گیا، ویسے ویسے بجلی کے استعمال کرنے کے نئے طریقے بھی دریافت ہوتے گئے، چنانچہ آج اس بجلی سے روشنی پیدا ہوتی ہے، پنکھے چلتے ہیں نیٹ، وائرلیس اور برقیات کی لہریں پھیلتی ہیں اور بڑی طاقت والے ہوائی جہاز اُڑتے ہیں، ان سب ترقیوں کے باوجود بجلی کی حقیقت اور اس کو بنانے کے بنیادی اصول قائم ہیں اور اس میں کسی قسم کا بھی تغیر و تبدیل نہیں ہوا۔

یہی سب کچھ ہمارے مملکت کے قائم کے لئے قائم وہ اصول تھے جنہیں ہم نے قرار داد مقاصد میں طے تو کئے لیکن رفتہ رفتہ ان اصولوں سے روگردانی کرلی اور آج ہم جس سماج پر کھڑے ہیں،اس کی حالت بوڑھے والدین کی سی ہے جنہیں انہوں نے اپنے پیروں پر کھڑا تو کردیا لیکن ان کا خود در و ٹھکانہ نہیں۔ وہ ریاست کے جانب اپنی بھرائی ہوئی آنکھوں اور ہاتھوں میں رعشے سے لرزتے ہوئے انصاف کے اس قانون کو دیکھ رہے ہیں جو ان کا حق انہیں دلانے کے لئے اُس اصول پر چلتی نظر آئی کہ ریاست کی مثال ایک ماں جیسی ہے۔ روشنی کے منیار رہنمائی کے لئے ہوتے ہیں، جمود کے لئے نہیں، جمود تو تاریکی میں بھی پیدا ہوسکتا ہے، اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اُن اصولوں کو سمجھیں جس کی بنیاد پر سرزمین پاکستان کو حاصل کیا گیا۔ پھر مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہیں اور اس کو مشعل ِ راہ بنا کر حال اور مستقبل کی دنیا میں عمل کی نئی نئی راہیں تلاش کریں، اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ضمیر کے قیدی اپنی آزادی کے لئے قیمتیں لگاتے رہیں گے، بکتے رہیں گے اور سودا بھی کرتے رہیں گے۔ اس عمل کو بالآخر روکنا تو ہوگا، اگر آج بھی ہم نے درست راہ رتلاش نہ کی تو یہ ایک بہت بڑا ظلم ہوگا۔ آج جس قدر اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے اس سے قبل نہ تھی۔

Thanks & Regards
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 746601 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.