رمضان کی آمد پر رسول اللہ ﷺ کا ایک خطبہ


از.... بابرالیاس

عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ ، قَالَ : خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ : " يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيمٌ ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ ، شَهْرٌ فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ ، جَعَلَ اللهُ صِيَامَهُ فَرِيضَةً ، وَقِيَامَ لَيْلِهِ تَطَوُّعًا ، مَنْ تَقَرَّبَ فِيهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ ، وَمَنْ أَدَّى فَرِيضَةً فِيهِ كَانَ كَمَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ ، وَشَهْرٌ يُزَادُ فِي رِزْقِ الْمُؤْمِنِ ، مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ " قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللهِ ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُعْطِي اللهُ هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهُ رَحْمَةٌ ، وَأَوْسَطُهُ مَغْفِرَةٌ ، وَآخِرُهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ "
(رواه البيهقى فى شعب الايمان)معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 888

حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو ایک خطبہ دیا .... اس میں آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے، اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے (جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے) جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانہ کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔ اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمددی اور غمخواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے ....
آپ ﷺ سے عرض کیا گیا کہ: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان نیسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے (رسول اللہ ﷺ نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آگے ارشاد فرمایا کہ) اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تا آنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا .... (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے (اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا) اور اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔ (شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اس خطبہ نبوی ﷺ کا مطلب و مدعا واضح ہے، تاہم اس کے چند اجزاء کی مزید وضاحت کے لیے کچھ عرض کیا جاتا ہے: ۱۔ اس خطبہ میں ماہ رمضان کی سب سے بڑی اور پہلی عظمت کی فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ اس میں ایک ایسی رات ہوتی ہے جو ہزار دنوں اور راتوں سے نہیں بلکہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہ بات جیسا کہ معلوم ہے قرآن مجید سورۃ القدر میں بھی فرمائی گئی ہے بلکہ اس پوری سورۃ میں اس مبارک رات کی عطمت اور فضیلت ہی کا بیان ہے، اور اس رات کی عظمت و اہمیت سمجھنے کے لیے بس یہی کافی ہے۔ ایک ہزار مہینوں میں تقریباً تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں، اس لیلۃ القدر کے ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے اور اس کے قرب و رضا کے طالب بندے اس ایک رات میں قرب الہی کی اتنی مسافت طے کر سکتے ہیں جو دوسری ہزاروں راتوں میں طے نہیں ہو سکتی۔ ہم جس طرح اپنی اس مادی دنیا میں دیکھتے ہیں کہ تیز رفتار ہوئی جہاز یا راکٹ کے ذریعہ اب ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ میں اس سے زیادہ مسافت طے کی جا سکتی ہے جتنی پرانے زمانے میں سینکڑوں برس میں طے ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح حصول رضائے خداوندی اور قرب الہی کے سفر کی رفتار لیلۃ القدر میں اتنی تیز کر دی جاتی ہے کہ جو بات صادق طالبوں کو سینکڑوں مہینوں میں حاصل نہیں ہو سکتی، وہ اس مبارک رات میں حاصل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اور اسی کی روشنی میں حضور ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب بھی سمجھنا چاہیے کہ اس مبارک مہینہ میں جو شخص کسی قسم کی نفلی نیکی کرے گا اس کا ثواب دوسرے زمانہ کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور فرض نیکی کرنے والے کو دوسرے زمانہ کے ستر فرض ادا کرنے کا ثواب ملے گا .... گویا " لیلۃ القدر " کی خصوصیت تو رمضان مبارک کی ایک مخصوص رات کی خصوصیت ہے لیکن نیکی کا ثواب ستر گنا ملنا یہ رمضان مبارک کے ہر دن اور ہر رات کی برکت اور فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقیقتوں کا یقین نصیب فرمائے، اور ان سے مستفید اور متمتع ہونے کی توفیق دے۔ ۲۔ اس خطبہ میں رمضان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ دینی زبان میں صبر کے اصل معنی ہیں اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو جھیلنا۔ ظاہر ہے کہ روزہ کا اول و آخر بالکل یہی ہے، اسی طرح روزہ رکھ کر ہر روزہ دار کو تجربہ ہوتا ہے کہ فاقہ کیسی تکلیف کی چیز ہے، اس سے اس کے اندر ان غرباء اور مساکین کی ہمدردی اور غمخواری کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے جو بے چارے ناداری کی وجہ سے فاقوں پہ فاقے کرتے ہیں۔ اس لیے رمضان کا مہینہ بلاشبہ صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ ۳۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ: " اس بابرکت مہینہ میں اہل ایمان کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ " اس کا تجربہ تو بلا استثناء ہر صاحب ایمان روزہ دار کو ہوتا ہے کہ رمضان مبارک میں جتنا اچھا اور جتنی فراغت سے کھانے پینے کو ملتا ہے باقی گیارہ مہینوں میں اتنا نصیب نہیں ہوتا۔ خواہ اس عالم اسباب میں وہ کسی بھی راستے سے آئے، سب اللہ ہی کے حکم سے اور اسی کے فیصلے سے آتا ہے۔ ۴۔ خطبہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ: " رمضان کا ابتدائی حصہ رحمت ہے، درمیانہ حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ جہنم سے آزادی کا وقت ہے "۔ اس عاجز کے نزدیک اس کی راجح اور دل کو زیادہ لگنے والی توجیہ اور تشریح یہ ہے کہ رمضان کی برکتوں سے مستفید ہونے والے بندے تین طرح کے ہو سکتے ہیں، ایک وہ اصحاب صلاح و تقویٰ جو ہمیشہ گناہوں سے بچنے کا اہتمام رکھتے ہیں اور جب کبھی ان سے کوئی خطا اور لغزش ہو جاتی ہے تو اسی وقت توبہ و استغفار سے اس کی صفائی تلافی کر لیتے ہیں، تو ان بندوں پر تو شروع مہینہ ہی سے بلکہ اس کی پہلی ہی رات سے اللہ کی رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو ایسے متقی اور پرہیز گار تو نہیں ہیں لیکن اس لحاظ سے بالکل گئے گزرے بھی نہیں ہیں، تو ایسے لوگ جب رمضان کے ابتدائی حصے میں روزوں اور دوسرے اعمال خیر اور توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے حال کو بہتر اور اپنے کو رحمت و مغفرت کے لائق بنا لیتے ہیں، تو درمیانی حصے میں ان کی بھی مغفرت اور معافی کا فیصلہ فرما دیا جاتا ہے ....
اور تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو اپنے نفسوں پر بہت ظلم کر چکے ہیں اور ان کا حال بڑا ابتر رہا ہے اور اپنی بداعمالیوں سے وہ گویا دوزخ کے پورے پورے مستحق ہو چکے ہیں، وہ بھی جب رمضان کے پہلے اور درمیانی حصے میں عام مسلمانوں کے ساتھ روزے رکھ کے اور توبہ و استغفار کر کے اپنی سیاہ کاریوں کی کچھ صفائی اور تلافی کر لیتے ہیں تو اخیر عشرہ میں (جو دریائے رحمت کے جوش کا عشرہ ہے) اللہ تعالیٰ دوزخ سے ان کی بھی نجات اور رہائی کا فیصلہ فرما دیتا ہے ....
اس کی تشریح کی بناء پر رمضان مبارک کے ابتدائی حصے کی رحمت، درمیانی حصے کی مغفرت اور آخری حصے میں جہنم سے آزادی کا تعلق بالترتیب امت مسلمہ کے ان مذکورہ بالا تین طبقوں سے ہو گا۔ واللہ اعلم۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 557912 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More