عمران خان کی سب سے بڑی غلطی اپنے دوست جہانگیر ترین سے
راستے جدا کرنا ہے جس کا خمیازہ پہلے وفاق اور اب پنجاب میں حکومت سے ہاتھ
دھو بیٹھے۔
عمران خان اپنے چند قریبی ساتھیوں کی وجہ سے جہانگیر ترین سے دور ہوئے اور
معاملات کو ٹھیک نہ کرنے کی ضد میں رہے جس سے جہانگیر ترین الگ ہو گئے اور
تحریک انصاف میں ایک فاروڑ بلاک بن گیا۔
عمران خان کی دوسری بڑی غلطی پنجاب میں عثمان بزدار کو نہ ہٹانے کی ضد ہے
جس پر تحریک انصاف کے اندر شدید اختلافات ہوئے اور بہت سے پارٹی رہنما نے
ناراضگی کا اظہار کیا مگر عمران خان اپنے فیصلے پر ڈتے رہے جس سے تحریک
انصاف مختلف حصوں میں ٹوٹ گئی۔
عمران خان کی تیسری بڑی غلطی اپنے پرنسپل سکیرٹری اعظم خان کی خاطر پوری
تحریک انصاف کو داو پر لگانا ہے جس میں پرویز خٹک ، جہانگیر ترین سمیت بہت
سے ایسے رہنما ہیں جو اعظم خان سے نا خوش تھے مگر عمران خان اپنی ضد میں
رہے جس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ کسی موقع پر نواز شریف اعظم خان کو اپنی طرف
لانا چاہتے تھے مگر عمران خان نے انہیں کے پی کے میں بڑا عہدہ دے کر پرویز
خٹک کی وزارت سے باندھ دیا۔
عمران خان کی چوتھی بڑی غلطی شہباز گل کو اپنے ساتھ رکھنے کی تھی جن کے
متعدد بیانات نے عوام میں شدید نفرت پھیلانے کی کوشش کی اور بلاجواز
اخلاقیات سے ہٹ کر اپنے بیانات کر دفاع کرنا ہے جو کہ عوامی حلقوں میں کافی
غیر مقبول ہوئے مگر عمران خان نے ان کا نوٹس نہ لیا بلکہ شہباز گل کی
کارکردگی کو سراہتے رہے۔
عمران خان نے اپنی پارٹی اور حکومت میں کوئی بھی ایسا "ریسرچ ونگ" نہیں
بنایا جو انہیں عوام کے حقیقی مسائل ، اپوزیشن کی کمزویاں اور ایسی ریسرچ
بنا کر دیتے جس سے عمران خان ہٹ کرنے والے پوائنٹس بناتے۔ عمران خان کے
قریبی حلقوں میں کوئی بھی انہیں ملک میں جاری حقیقی صورتحال سے آگاہ نہیں
کرتا تھا اور سب اچھا ہے کی رپورٹس پر "خان صاحب ، خان صاحب" کے گیت گاتا
تھا۔
عمران خان کی ایک غلطی اس طرح بھی گنی جا رہی کہ انہوں نے چوہدری سرور کو
گورنر پنجاب تو بنا دیا مگر سیاسی طور پر چوہدری سرور کی وقعت پارٹی میں
ختم کر دی اور پورا پنجاب بزدار کے حوالے کر کہ سرور صاحب کو خاموشی کا
پیغام دے دیا۔ عمران خان نے ان ساتھیوں کی وجہ سے چوہدری سرورکو اہمیت دینا
بند کر دی جن کے پیچھے مبینہ طور پرچند ریکارڈنگ تھیں۔
جو یا تو تحریک انصاف اب چھوڑ چکے ہیں یا پھر عمران خان کو مزید سیاسی
خودکشی کی طرف لے کر جانے والے تھے۔ عمران خان مبینہ طور پر ایک وقت میں
گورنر شپ سے یونیوسسٹیوں کے چانسلر ہونے کا اختیار بھی لینے والے تھے تاہم
بعد میں یہ ارادہ چوہدری سرور کی شدید مزاحمت پر ترک کر دیا گیا تھا۔
عمران خان اپنی حکومت بننے کی بڑی کامیابی سوشل میڈیا ڈیجیٹل میڈیا کوبھی
مانتے تھے مگر عمران خان نے پنجاب اور وفاق میں جن لوگوں کو سوشل میڈیا
سنبھالنے کی ذمہ داری دی وہ صرف تحریک انصاف کی منفی مہم چلاتے رہے ، جو
بھی عمران خان کی پالیسی پر تنقید کرتا تھا اسے سوشل میڈیا پر شدید تنقید
اور گالیوں سے نوازا جاتا تھا اور ان میں عمران خان کے حق میں بولنے والے
صحافیوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔
عمران خان کی حکومت میں اور بہت سی بڑی غلطیاں کی گئی جن کو عمران خآن تک
پہنچنے ہی نہ دیا گیا اور اگر کبھی کوئی وہ پہنچانے کی کوشش کرتا تو قریبی
لوگ اسے ایسے گم کرتے تھے جسے اس چیز کو وجود ہی نہیں تھا۔ عمران خان اپنی
پچھلی حکومت سے پہلے مہنگائی اور کرپٹ ٹولے کا شور ڈالتے رہے جو کہ اب دم
توڑ چکا ہے ، عوام عمران خآن کے اس نظریہ کو مزید قبول نہیں کر پائے گی ،
تاہم عمران خان کے پاس اس وقت سب سے ضروری صرف 2 کام ہیں جن میں دونوں کو
پورا ہونا لازمی ہے۔
پہلا کام یہ کہ عمران خان کو عوامی جلسہ جات میں یہ یقین دلانا ہو گا کہ ان
کی حکومت ایک سازش کی وجہ سے ختم کی گئی ہے جس کے پیچھے امریکہ ہے اور
امریکہ نے اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ دیا ہے ، جبکہ دوسرا کام یہ ہے کہ عمران
خان اپنے پرانے قریبی ساتھی جہانگیر ترین سے صلح کریں اور تمام پارٹی
رہنماوں کو جہانگیر ترین کے ساتھ بٹھائیں تاکہ اگلے الیکشن 2023ء میں اپنی
بہتر سیاسی پوزیشن بنائی جا سکے۔
پاکستان میں جہانگیر ترین اور دوسری اھم طاقتور سیاسی شخصیات جن کا حکومتیں
بنانے اور توڑنے میں ھمیشہ اھم کردار رھا ھے، آج قومی اسمبلی میں عدم
اعتماد کے بعد وجود میں آنیوالی موجودہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں۔*
|