جَنتِ دُنیا و جَہنمِ دُنیا اور قیامتِ دُنیا !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُخرف ، اٰیت 57 تا 67 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
راۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لماضرب
ابن مریم
مثلا اذا قومک
منه یصدون 57 و
قالواء اٰلھتناخیر ام ھو
ماضربوه لک الّا جدلا بل
ھو قوم خصمون 58 ان ھو
الّا عبد انعمنا علیه وجلعنٰه مثلا
لبنی اسرآءیل 59 ولو نشاء لجعلنا
منکم ملٰئکة فی الارض یخلفون 60 وانهٗ
لعلم للساعة فلا تمترن بھا واتبعون ھٰذا صراط
مستقیم 61 ولایصدنکم الشیطٰن انهٗ لکم عدومبین
62 ولماجاء عیسٰی بالبینٰت قال قد جئتکم بالحکمة ولا
بین لکم بعض الذی تختلفون فیه فاتقووااللہ واطیعون 63
ان اللہ ھو ربی وربکم فاعبدوہ ھٰذاصراط مستقیم 64 فاختلف
الاحزاب من بینھم فویل للذین ظلموا من عذاب یوم الیم 65 ھل
ینظرون الاالساعة ان یاتیھم بغتة وھم لا یشعرون 66 الاخلاء بعضہم
لبعض عدو الاالمتقین 67
اے ہمارے رسُول ! ہم نے جب سے آپ کی قوم کے سامنے ابنِ مریم کی پیدائش کی مثال پیش کی ہے تو اِس قوم نے یہ بحث شروع کردی ہے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم جن ہستیوں کی بندگی کرتے ہیں وہ ہستیاں تو ہماری بندگی کی اہل نہ ہوں لیکن ابنِ مریم انسانی بندگی کے اہل ہوں حالانکہ وہ لوگ جانتے ہیں کہ ابنِ مریم ہمارا وہ برگزیدہ بندہ ہے جس پر ہم نے انعام کیا ہے اور جس کو ہم نے بنی اسرائیل میں اپنا نبی بنا کر مامور کیا ہے اور بنی اسرائیل کے لیۓ ہم نے اُس کے عملِ بندگی کو ہدایت کی ایک روشن مثال بنا دیا ہے تاکہ بنی اسرائیل بھی اُسی ایک اللہ کی بندگی کریں جس اللہ کی ابنِ مریم بندگی کرتا ہے ، یہ لوگ ابنِ مریم کی مُحیر العقول پیدائش کے بارے میں اِس لیۓ حیرت زدہ ہوۓ ہیں کہ وہ ہماری اِس قُوت و قُدرت کے بارے میں نہیں جانتے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو اِن کے خاکستانی جسموں سے اپنے نُورانی فرشتے پیدا کر کے زمین میں اِن کی خاکستانی نسلوں کے نُورانی جانشین بنا دیتے لیکن ہماری اِس ہدایت کے بعد اَب کسی انسان کو بھی اِس اَمر میں کوئی شُبہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ ابنِ مریم جو ہمارا بندہ ہے وہ زمین میں ہمارے اُس انقلاب کا نقیب ہے جو انقلاب زمین میں بنی اسرائیل کے لیۓ جاری کیۓ گۓ سرچشمہِ ہدایت کا رُخ بنی اسماعیل کی طرف موڑ دے گا جس کے بعد ابناۓ اسرائیل بھی اسی سرچشمہ ہدایت سے فیض یاب ہوں گے جس کا رُخ ہم نے اپنے اُس نبی کی طرف موڑ دیا ہے جو بنی اسماعیل میں پیدا ہوا ہے اور جس کو ہم نے اپنی آخری کتابِ ہدایت دے کر اہلِ زمین میں مبعوث کیا ہے اور جس کے بعد ہماری اِس کتابِ ہدایت کا وہی ایک سیدھا راستہ مُتعین ہو گیا ہے جس پر ہر انسان نے قیامت تک چلنا ہے ، اِس ہدایت کے نزول کے بعد ہر گز یہ نہیں ہونا چاہیۓ کہ شیطان تُم کو اِس روشن راستے سے ہٹا کر کسی تاریک راستے پر چڑھا دے اور یہ بات بھی یاد رہے کہ اِس سے قبل جب ابنِ مریم ہماری یہ ہدایت لے کر اہلِ زمین کے پاس آۓ تھے تو اُنہوں نے بھی اپنی قوم سے یہی کہا تھا کہ میرا اور تُمہارا تَخلیق کار اور پالَنہار وہی ایک اللہ ہے جس کی میں بندگی کرتا ہوں اور جس کی بندگی کی میں تُم کو بھی ہدایت کرتا ہوں ، اللہ کی یہ بندگی وہ ہدایتِ ہے جس کے بعد جو انسان بھی اِس میں اختلاف پیدا کرے گا وہ اللہ کا مُجرم اور اُس کی سزا کا مُستحق ہو گا ، ہماری اِس مُفصل ہدایت کے بعد کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ لوگ اِس حق کا اُس وقت تک انکار کرتے رہیں کہ جس وقت اچانک ہی اِن پر وہ گھڑی آجاۓ جو اِن پر رجوعِ حق کا یہ راستہ ہی بند کر دے جو اِس وقت کُھلا ہے اور جس وقت اِنسان پر رجوع کا یہ راستہ بند ہو جاۓ گا تو اہلِ ایمان کے سوا ہر ایک انسان کا جانی دوست بھی اُس کا جانی دشمن بن جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا جو مفہومِ مُفصل مَتنِ اٰیات کے تحت ہم نے تحریر کیا ہے یہی مفہومِ مُفصل اِس زمین پر برپا ہونے والے قیامت کے اُس انقلاب کا بیانِ مُفسر ہے جس انقلاب پر ایمان لانے کی جس طرح قُرآن نے اپنی دیگر 69 اٰیات کے دیگر 69 مضامین میں تاکید کی ہے اسی طرح اِس سُورت کی اِن اٰیات میں بھی تاکید کی ہے لیکن قیامت کے اِس انقلابی مضمون کو سمجھنے سے پہلے اِس حقیقت کا بھی ادراک لازم ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتاب میں انسانی تفہیم کے لیۓ اُسی قابل فہم مفہوم کی حامل چیزیں بیان کی ہیں جس قابلِ مفہوم کی حامل چیزوں کو انسان اپنے حاضر فہم و شعور ، اپنے حاضر احساس و حواسِ اور اپنے حاضر تجربے اور مشاہدے سے سمجھتا ہے اور اللہ تعالٰی نے اِس کتاب میں ایسی کوئی بھی ناقابلِ فہم چیز بیان نہیں کی ہے جو چیز انسان کی عقل و بصیرت سے ماورا ہو ، مثال کے طور پر قُرآن جب اپنی قُرآنی ہدایت کو نُور کہتا ہے تو انسان اپنے مشاہدے میں آنے والے اِس نُور کی اُس ماہیت کو سمجھ جاتا ہے جو انسان کو اپنے ظاہر میں بھی جلوہ گر نظر آتی ہے اور اپنے باطن میں بھی محسوس ہوتی ہے اور قُرآن جب کی انسانی ضلالت کو ظُلمت کہتا ہے تو انسان اپنے مشاہدے میں آنے والی اُس ظُلمت سے بھی اِس کی اُس ظُلمت کی ماہیت کو بھی سمجھ جاتا ہے جو ظُلمت انسان کو اپنے سامنے بھی نظر آتی ہے اور اپنے باطن میں بھی محسوس ہوتی ہے ، قُرآنِ کریم کے قانُونِ تزویج کے مطابق جس طرح نُور کے مقابلے میں ایک ظلمت اور ظلمت کے مقابلے میں ایک نُور ہے اسی طرح جہان کی ہر چیز کے مقابلے میں ایک دُوسری چیز موجُود ہے اور قُرآن کے اسی قانُونِ تزویج کے مطابق ہماری اِس دُنیا کے مقابلے میں وہ دُوسری دُنیا بھی موجُود ہے جس دُنیا کو ہم اپنی اِس دُنیا کے احساسِ حاضر کی بنا پر محسوس کر سکتے ہیں ، قُرآن کے اِسی قانونِ تزویج کی رُو سے ہماری اِس دُنیا میں جنت و جہنم کے وہ دونوں مناظر و مظاہر بھی موجود ہیں جن کی نرمی و گرمی کو ہم اپنے جسم اور اپنی جان میں محسوس کر کے اُس اَن دیکھی دُنیا اور اُس کی اَن دکھی جنت و جہنم کو ایک محدُود حد تک محسوس کر سکتے ہیں ، قیامت کی اَصل قامت ہے جس کا حقیقی مفہوم وہ عالَم کی اقوامِ عالَم پر آنے والا وہ انقلاب ہے جو انقلاب جب برپا ہوتا ہے تو ہر موجُود چیز کو اِس طرح زیر و زَبر کردیتا ہے کہ زمین کے پِسے ہوۓ انسانی طبقے پنپنے کے لیۓ زمین کی زیریں سطح سے اُبھر کر زمین کی بالائی سطح پر آجاتے ہیں اور زمین کی بالائی سطح کے جو طبقے پِسنے کے قابل ہوجاتے ہیں وہ زمین کی فوقانی سطح سے اُتر کر زمین کی تحتانی سطح میں چلے جاتے ہیں ، محدود معنوں میں اِس انقلاب کا نام بھی قیامت ہے جو قیامت ہماری دُنیا میں مُختلف وقتوں اور مُختلف شکلوں میں برپا ہوتی رہتی ہے اور یہی قیامت ایک لامحدُود صورت و رنگ میں اُس وقت بھی برپا ہوگی جب یہ دُنیا اِس طرح ختم ہو جاۓ گی کہ اِس دُنیا کی جگہ پر ایک اور دُنیا ظاہر ہو جاۓ گی لیکن زمین کے اسی مَد و جَزر کا نام ہی انقلاب نہیں ہے جو انقلاب جسمِ زمین پر برپا ہوتا ہے بلکہ اصل انقلاب وہ ہے جو جسمِ زمین پر برپا ہونے سے پہلے انسان کی رُوح و جان میں برپا ہوتا ہے اور اُس کے بعد زمین و آسمان میں برپا ہوتا ہے ، اٰیاتِ بالا میں اسی انقلاب کا ذکر کیا گیا ہے جو سیدنا محمد علیہ السلام سے پہلے سیدنا مسیح علیہ السلام کے زمانے میں اور سیدنا مسیح علیہ السلام کے زمانے کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام کے زمانے میں برپا ہوا ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ انقلاب اِس سے پہلے زمین پر کبھی بھی برپا نہیں ہوا ہے بلکہ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے قریب کے معلوم زمانوں میں ایک بار یہ انقلاب عیسٰی مسیح کے زمانے میں برپا ہوا ہے اور دُوسری بار یہی انقلاب محمد علیہ السلام کے زمانے میں بھی برپا ہوا ہے لیکن پہلے انقلاب کے بعد عیسٰی مسیح کی مُحیر العقول پیدائش کی وجہ سے اہلِ زمین کے ایک طبقے نے اُن کو خُداۓ واحد کے بعد اپنا دُوسرا خُدا بنا لیا تھا اور دُوسرے انقلاب کے موقعے پر اہلِ شرک نے پہلے اہلِ شرک کی تقلید کرتے ہوۓ اپنا یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جس مسیح کا قُرآن اتنی عزت کے ساتھ ذکر کرتا ہے اگر وہ مسیح کُچھ انسانوں کا خُدا ہو سکتا ہے تو جن ہستیوں کی ہم پرستش کرتے ہیں وہ ہستیاں ہماری مُشکل کشا کیوں نہیں ہو سکتیں ، قُرآن نے عہدِ محمد علیہ السلام کے اُن شخصیت پرستوں کو یہ جواب دیا ہے کہ قُرآن نے عیسٰی مسیح کی جس عزت و عظمت کا ذکر کیا ہے وہ اِس بنا پر نہیں کیا ہے کہ زمین کے کُچھ لوگوں نے اُن کو اپنا خُدا بنا لیا ہے بلکہ قُرآن نے اُن کی عظمت و شان کا یہ ذکر اِس بنا پر کیا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کے وہ برگزیدہ نبی و رسُول تھے جن کو اللہ تعالٰی نے اپنی وحی کا انعام دے کر زمین پر اسی طرح اپنا نبی مقرر کیا تھا جس طرح اللہ تعالٰی نے مسیح علیہ السلام کے بعد محمد علیہ السلام کو اہلِ زمین کے لیۓ اپنا نبی اور رسُول مقرر کیا ہے ، اہلِ روایت نے اٰیاتِ بالا کی اٰیت 61 میں وارد ہونے والے لفظ { الساعة } سے عیسٰی مسیح علیہ السلا کی قیامت سے پہلے آمدِ ثانی پر استدلال کیا ہے جو محض ایک جاہلانہ استدلال ہے کیونکہ اِس { الساعة } سے وہ انقلاب مُراد ہے جس انقلاب کے ذریعے نبوت کا علمی منصب عملی طور پر بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں مُنتقل ہوا ہے ، جہاں تک اٰیاتِ بالا کے دُوسرے مضامین کا تعلق ہے تو وہ اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں بیان ہو چکے ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 457363 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More