آخری گیند

ملکی موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر آخری گیند بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ گزشتہ دِنوں سے سیاسی حلقوں اور میڈیا میں تحریک عدمِ اعتماد ایک زیر بحث موضوع ہے ۔ یہ موضوع اتنا لب عام ہو چکا ہے کہ جب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو متحدہ اپوزیشن جماعتیں جیلوں میں بند دیکھائی دیتی ہیں اور اگلے ہی چند سیکنڈز میں عمران خان کی حکومت آخری سانس لے چکی ہوتی ہے۔

25 جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی بڑی جماعت بن کے ابھری اور کچھ پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں ملکی معاشی حالات میں بہتری، سرکاری اخراجات میں کمی کے علاؤہ ٹیکس اور تعلیمی نظام کو ٹھیک کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے بھی عمران خان نے قوم سے بے شمار وعدے کیے تھے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر ایک فلاحی ریاست بنائیں گے، ایک کروڑ نوکریاں دیں گے پچاس لاکھ گھر بنائیں گے بد عنوانی کا خاتمہ کریں گے ملکی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے وغیرہ۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت مخالف مظاہرے پہلے دن قومی اسمبلی میں ہی شروع ہوگئے۔ اور ساری اپوزیشن جماعتوں نے مل کر ایک پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد قائم کیا جو وقتاً فوقتاً حکومت مخالف لانگ مارچ جلسے جلوس کرتا رہا اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی تحریک میں نشیب و فراز آتے رہے۔

پاکستان کی سیاست میں دلچسپ موڑ تب آیا جب رواں برس 27 فروری 2022 کو پاکستان پیپلز پارٹی کا لانگ مارچ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سندھ اور پنجاب کے اضلاع سے ہوتا ہوا شہرِ اقتدار پہنچا۔ اس مارچ کے پہنچنے سے پہلے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے اکابرین نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر رکھا تو جو 8 مارچ کو قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروا دیا گیا۔ اس تحریک عدم اعتماد نے پاکستان میں عجیب و غریب سیاسی بحران پیدا کر دیا کہ وہ لوگ بھی ڈونلڈ گرین بن گئے جبکہ ان کے گھر میں کوئی راز کی باتیں کرنی ہوں تو بزرگ ان کو باہر بھیج دیتے ہیں یہ بھی سوشل میڈیا پہ پولیٹکل سائنٹسٹ کہلواتے ہیں۔ اس سیاسی بحران میں گالم کوچ کا کلچر پروان چڑھا جس میں حکومتی وزراء اور مشیروں کا نام شاید صف اول ہو گا۔

رواں ہفتے سے سیاسی صورتحال مزید دلچسپ رخ اختیار کر رہی ہے کہ ایک طرف حکومتی اراکین ہی اپنے منحرف اراکین کو منانے کیلئے کوشاں ہیں دوسری طرف آرٹیکل 63 کے تحت اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ان کا تاحیات نااہلی کیلئے عدالت سے استدعا کر رہے ہیں جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کہتے ہیں کہ اسمبلی کو آرٹیکل 95 کے تحت چلاؤں گا۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کے لیے جبکہ حکومت وقت بھی پر اعتماد دیکھائی دیتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ "آخری گیند تک لڑیں گے, لکھ لیں عدم اعتماد ناکام ہو گی، اپوزیشن اپنے پتے شو کر چکی" مجھے اس سارے سیاسی ہلچل میں جو "آخری گیند" کی سمجھ آئی ہے وہ نہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ہے اور نہ ہی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی۔ بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلائیں گے اور دو تین دن بعد بحث کروائیں گے اور اگر اسپیکر کو لگا کے اپوزیشن 172 سے زیادہ ممبرانِ اسمبلی لے آتے ہیں تو پھر عمران خان 31 مارچ کو "آخری گیند" کھیلے گا۔ وہ " آخری گیند" ہو گی اسمبلیوں کی تحلیل۔ جب پاکستان میں اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی تو اپاہج جمہوریت کچھ عرصہ کیلئے پھر سے یتیم ہو جائے گی۔ اس دلچسپ میچ میں نیوٹرل ایمپائر بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے وہ چاہے عمران خاں کو بولڈ کر دے وہ چاہے تو نو بال قرار دے کر دوبارا باری دے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ ملک اور جمہوریت کی خیر کرے آمین

 

Fazzal Abbas
About the Author: Fazzal Abbas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.