قرآن مجید کسی نے سورہ ۃ یٰسٓ شریف کا حوالہ دے کر یہ بات
کہی کہ ایک دھیلے کی ضمیر فروشی نہیں کی منحرف ارکان نے وزیر اعظم عمران
خان کے دیے گئے بیان کہ جس میں منحرف ارکان کو ضمیرفروش قرار دیا اس بیان
پر مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے حلقہ این اے 186 ایم این اے ممبر قومی
اسمبلی عامر طلال گوپانگ نے اپنے وڈیو پیغام میں قرآن کی سورہ ۃ یٰسٓ کو
ہاتھ پر رکھ کر کہا کہ عدم اعتماد کے سلسلے میں کسی سے ایک روپیہ نہیں لیا
یہ وزراء جو ارسطو سارا دن ٹی وی چینل پر الزام لگا رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان
سے ضرور پوچھے گا۔ انشاء اﷲ عدم اعتماد میں اپنے حلقے کی عوام کی رائے کو
مد نظر رکھتے ہوئے اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ عامر طلال گوپانگ
نے کہا کہ تین سال سے قبل میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور
میرا یہ خیال تھا کہ لوگوں کی زندگی میں بنیادی تبدیلی لے کر آئیں گے ان کے
مسائل کو حل کریں گے ان کی پریشانیوں کا تدارک کریں گے لیکن افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان اور ان کی ٹیم نے ساڑھے تین سال میں کچھ نہیں
کیا اور یقین کیجئے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ میں نے اس عرصے
میں کسی بھی ایک کام کو کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ میں اپنی عوام کو
پیستا ہوا دیکھتا ہوں ایک مزدور پانچ سو روپے کماتا ہے اور وہ پانچ سوروپے
کلومیں گھی خریدتا ہے۔ کاشتکار دو بوریاں کھاد کی لینے کی لائین میں لگتا
ہے اس کے باوجود اسے نہیں ملتی مجھے بتائیں کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ آخر میں
مقدس ایوان کے رکن قومی اسمبلی اپنے حلقے ضلع مظفر گڑھ کی مظلوم و مفلوج
عوام کا درد رکھنے والا محترم عامر طلال گوپانگ نے کہا کہ عدم اعتماد والے
دن قومی اسمبلی میں ضرور جاؤں اور اپنی عوام کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے
اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ بات یہاں ختم ہوجاتی اور اس میں کسی
بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ ہمارا مسلمان ہونے کے لحاظ سے
یہ یقین کامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات مبارک قران پاک جو اﷲ کی کتاب ہے
۔سورۃ توبہ آیت نمبر ۱۱۹ میں اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور سچ کا ساتھ دو
۔سورۃ یٰسٓ میں :قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے
یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے بصیرتوں کا مجموعہ ہے اور جو لوگ یقین کریں ان
کے لیے منزل تک پہنچانے کا ذریعہ اور سراپا رحمت ہے۔
بات یہ ہے کہ محترم رکن قومی اسمبلی عامر طلال گوپانگ نے وزیر اعظم کے
لگائے گئے ضمیر فروشی کے الزامات کو مسترد کردیا اور انہوں نے قرآن کی مقدس
کتاب پر ہاتھ رکھ کر یقین دلایا اور اپنے با ضمیر ہونے کا ثبوت دیا۔ اب اس
حلقے کی عوام کا بنیادی فرض بنتا ہے کہ یکطرفہ فیصلہ کسی بھی صورت نہ کریں
وزیر اعظم کی طرف سے مقدس ایوان کے ممبران قومی اسمبلی اراکین پر ضمیر
فروشی کا جو الزام لگا یاہے جس سے ان ایم این ایز کی عزت کو داغ داغ کیا
گیا ا س سلسلے میں اپنے ہر دلعزیز رہنما ممبر قومی اسمبلی جنہوں نے مقدس
کتاب کا واسطہ دے کر کہا اس پر یقین کریں اور ان سے جو تحفظات ہیں ان سے
پوچھیں اور نفرت کا اظہار نہ کریں۔
ان ممبران پر وزیر اعظم نے تو ا لزامات ضمیر فروشی کے لگا دیے مگر ثبوت
نہیں دیے اس میں ابہام ہے لہذا حلقے کی عوام وزیر اعظم عمران خان سے ثبوت
مانگنے کا بھرپور مطالبہ کریں۔ یہ آپ کے قیمتی ووٹوں سے منتخب ہونے والے
نمائندوں کی تذلیل کے ساتھ حلقے کے عوام کی بھی تذلیل ہے
اس طرح دیگر ایم این ایز نے بھی وزیر اعظم عمران خان کے طرز عمل کو انسانی
تذلیل قرار دیتے ہوئے
غیر ضروری غیر اخلاقی الزامات کو مسترد کردیا ۔ ایم این اے رکن قومی اسمبلی
نور عالم خان نے کہا کہ وزیر اعظم لوگوں سے کتوں کی طرح برتاؤ نہ کریں ہر
انسان کی عزت کریں ہمیں سمجھانے کی کوشش نہ کریں ۔توبہ توبہ میں آئندہ پی
ٹی آئی سے الیکشن نہیں لڑوں گا۔
میاں عبدالغفار وٹو این اے 166ضلع بہاولنگر سے آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی
منتخب ہوئے انہوں نے اپنے وڈیو پیغام میں کہا کہ اﷲ کی مدد اور میرے حلقے
کی عوام کے ووٹوں سے مجھے کامیابی ملی بعد میں نے پی ٹی آئی میں شمولیت
اختیار کی اور عمران خان کے ساتھ شامل ہوگیا کہ نیا پاکستان، کرپشن مکاؤ
نعرے پر عمل نہ ہونے پر مایوسی اس بات پر ہوئی کہ میں کچھ دینے حلقے کے
مسائل اور اداروں میں کرپشن تھی اس حوالے سے ثبوت بطورلیکر گیا عمران خان
آپ انکوائری کروائیں لیکن محسوس کیا کہ ماسوائے نعروں کی حد تک کے علاوہ
کچھ نہیں تھا ۔
میرے حلقے کے دو پروجیکٹس سوئی گیس، سی پیک موٹر وے کا لنک تھا اور کئی
مرتبہ کہا کہ میرے حلقے اور ضلع کو اس کی ضرورت ہے مہربانی کریں پر اس پر
کوئی سنوائی نہیں ہوئی ۔
ممبر قومی اسمبلی میاں عبدالغفار وٹو نے اپنے وڈیوپیغام میں مذید کہا کہ
اپنی ناراضگی کا میرا بنیادی حق ہے۔ سوال پوچھو تو یہ الزام آجاتا ہے کہ
12, 14 کروڑ کا جس کی انہوں نے سخت تردید کی ۔
رکن قومی اسمبلی میاں عبدالغفار وٹو نے کہا کہ عدم اعتماد کے دن میں اپنے
حلقے کی عوام کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ
کروں گا۔ اور دیگر ناراض ارکان قومی اسمبلی کے رکن احمد حسین ڈیہڑ نے کھلم
کھلا احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے انصاف کے نام پر جو وعدے کئے وہ
پورے نہ کرسکے عمران خان کہتا تھا کہ میں کارکنان کوانصاف دلاؤنگا میں آئی
ایم ایف کے پاس نہیں جاؤنگا کیا یہ انصاف ہے احمد حسین ڈیہڑ نے کہا کہ میں
دو سال سے احتجاج کر رہا ہوں اورحکومت کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا رہا
ہوں۔ انہوں نے حکومت کے الزامات کو مسترد کردیا پیسے لینے کا الزام جھوٹا
ہے۔ رکن قومی اسمبلی مخدوم باسط بخاری نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا
جبکہ وجیہہ قمر نے کلمہ پڑھ کر اور قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ کسی رقم یا
عہدے کی پیش کش نہیں ہوئی ۔
ناراض اراکین میں شامل رکن قومی اسمبلی سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندو کونسل
ڈاکڑ رمیش کمار نے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے
منارٹی کے کوئی مسائل حل نہیں کئے ۔ اب بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت کے منحرف
ارکان جو حکومت سے انتہائی ناراض ہیں ۔ یہ قومی اسمبلی اراکان عوام کے
قیمتی ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں اور یہ اپنے حلقے کی عوام سے وعدے یقین
دِلا کر آئے ہیں یہ غلام نہیں یہ مقدس ایون کے رکن ہیں جتنی عزت وزیر اعظم
کی ہے اور یہ بھی قابل احترام ہیں اور اپنی عزت کی پاسداری کو رکھتے ہوئے
کروڑوں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرانے کی جدوجہد کرنا
ان کا آئینی حق ہے اور ان کے جب مسائل حل نہیں کئے جائیں گے تو ان کی
ناراضگی حق بجانب ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اراکین پارلیمان کی آواز کو دبانے کا
عمل کیا جائیگا تو یہ اراکین اسمبلی کس منہ سے اپنے حلقے کی عوام کو جواب
دیں گے ۔ آج یہ حکومت کے ناراض اراکین اسمبلی جو اپنے ساتھ ہونے والی
زیادتیوں کا ذکر کر رہیں اس کا ازالہ کرنا حکومت کے فرائض میں شامل تھالیکن
افسوس کہ ان اراکین اسمبلی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ یہ آیا کہ ایک طرف
حکومت وزیر اعظم جن کی حمایت سے عمران خان وزیر اعظم بنے اور یہی وزیر اعظم
عمران خان ان ناراض اراکین پارلیمان کو ضمیر فروش قرار دے رہ ہیں اور ان کی
عزت نفس کو مجروح کررہے ہیں ان کی عزت کو بری طرح پامال کررہے ہیں۔ اورتو
اور ان کی ذات کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور بے تحاشہ ان پر بہتان تراشی لگا
رہے ہیں۔ اب جب حکومت کو اپنی کمزور ی محسوس ہورہی ہے تو ان قابل احترام
اراکین اسمبلی اپنے حلقے کے ہر دلعزیز رہنما اپنے حلقے کی عوام کے مسیحا جن
کوذلیل و رسوا کرکے عوام کی نظروں سے انہیں نیچا دکھا کر ضمیر فروش قرار دے
کر وزیر اعظم عمران خان ان ناراض ارکان کو واپسی کا کہہ رہے ہیں۔ حکومت
چلانے کے دستور مسلمہ ہیں جب ان سے روگردانی کی جائے گی تو حکومت میں
بحرانی کیفیت اسی صورت میں آئے گی۔ ناراض اراکین نے تو کہہ دیا ایک دھیلے
کی ضمیر فروشی نہیں کی۔ وزیر اعظم عمران خان کو ان الزامات کو ثابت کرنا ہے
اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے اپنے عوامی خطاب میں میڈیا ہاوئسز پر
الزامات لگائے ہیں جس پر میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے وزیر اعظم عمران خان
کی جانب سے میڈیا پر لگائے گئے جھوٹے الزامات کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیر
اعظم سے مخالف بیان پر معافی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان گھٹیا،گھناؤنے،
جھوٹے اور ہتک آمیز الزامات کو ثابت کریں ورنہ عدالت سے رجوع کرنے کا حق
محفوظ رکھتے ہیں۔ عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ میڈیا ہاؤسز سیاسی
جماعتوں نے خریدے ہیں اور کچھ کو غیر ملکی ذرائع سے فنڈ بھی مل رہے ہیں پی
بی اے،اے پی این ایس، سی پی این ای ،پی ایف یو جے اور ایسوسی ایشن آف
الیکڑونک میڈیا ایڈیٹرز اور نیوز ڈائریکٹرز ایمنڈ پر مشتمل میڈیا جوائنٹ
ایکشن کمیٹی نے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ درحقیقت وزیر اعظم کا بیان
میڈیا پر کرپشن کا الزام لگانے کے مترادف ہے ، جوائنٹ ایکشن کمیٹی وزیر
اعظم کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ ان گھناؤنے الزامات کو ثابت کریں۔ بیان میں
کہا گیا کہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جس کی آئین نے
ضمانت دی ہے۔ مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ اگر مناسب وقت کے اندر ان
الزامات کے ثبوت فراہم نہیں کئے گئے تو جوائنٹ ایشن کمیٹی ان گھٹیا،جھوٹے،
اور ہتک آمیز الزامات کے خلاف معزز عدلیہ سے رجوع کرنے کا اپنا حق محفوظ
رکھتی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے الگ ایک بیان میں
کہا کہ وزیر اعظم تحریک عدم اعتماد کا دباؤ کم کرنے کی کوشش میں فیک نیوز
نہ پھیلائیں پی ایف یو جے نے وزیر اعظم عمران خان سے میڈیا اور صحافیوں
کیخلاف الزامات لگانے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے سی پی این ای کی
جانب سے ایک علیحدہ بیان میں وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
ریاست مدینہ میں تہمت کی سزا سے آپ واقف ہونگے کیوں نہ آپ کے خلاف پیپکا
آرڈیننس کے تحت کاروائی کی درخواست دی جائے۔ وزیر اعظم سے زیادہ آزادی
اظہار رائے کا غلط استعمال کسی نے نہیں کیا میڈیا پر جھوٹے اور لغو الزامات
پر حکومت اجتماعی معافی مانگے۔
|