عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی ،جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ،نہ ناری
بہت سے لوگوں نے علامہ اقبالؒ کایہ شعرضرورسناہوگا یہ شعر ایک عالمگیر
سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن بیشتر اس پریقین نہیں رکھتے حالانکہ خدائے
واحدنے آخری الہامی کتاب قرآن مجید میں واضح کہاہے کہ میں اس قوم کی حالت
اس وقت نہیں بدلتا جب تک وہ خود کوشش نہیں کرتی یہ عملی جدوجہد کی اتنی بڑی
مثال ہے کہ اس کے آگے تمام کہانیاں ہیچ ہیں لیکن ایک فیشن بن گیاہے کہ ہم
لوگ اکثر یوروپی معاشرہ کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں یا ان کی ترقی کی مثالیں
دیتے ہیں حالانکہ یہ ان کافلسفہ ہے جن کے بارے میں آنکھیں بندکرکے کہا
جاسکتاہے کام کے نہ کاج کے دشمن ناج کے حالانکہ دنیامیں تمام ترایجادات
کاسہرا ان کے سرہے انہوں نے اپنے آپ کو دنیا کی ذہین ترین قوم ہونے کا لوہا
منوایاہے ہم مسلمانوں کے پاس کیاہے ہڈحرامیاں،ماضی کے قصے کہانیاں اور عملی
جدوجہد سے کوسوں دور۔کسی معاشرے میں رہ کر ہی اس کے حسن کا ادراک ہوتاہے۔
بدقسمتی سے ہمارا پرکھنے کا معیار اپنی سوچ تک محدود ہے کچھ تو صرف اور صرف
مذہب کی بنیادپر دوسروں کو پرکھنا چاہتے ہیں خواہ وہ مذہب کو ثانوی حیثیت
ہی کیوں نہ دیتے رہے ہوں اور کچھ لوگوں کا وطیرہ ہے خود کو سب سے
معتبر،برتر اور پاک تصور کرتے ہیں اور تو اور کچھ ہروقت مغربی معاشرے میں
ایمانداری،انسان دوستی،قانون کی حاکمیت اور سادگی مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں
کہ وہ ہم سب کے لئے قابل ِ تقلیدہیں حالانکہ اس سے بڑھ کر روشن مثالیں
اسلامی تاریخ میں موجودہیں ہم ان پر عمل پیرا نہیں ہیں کچھ لوگ انہیں ماضی
کے قصے قرار دیتے ہیں لیکن آج بھی مغربی دنیا میں قانون کی حاکمیت مسلمہ ہے
جس کا اسلامی ممالک میں شائبہ تک نہیں ملاوٹ، کرپشن ،کام چوری، جھوٹ اور بے
ایمانی ان کا شعارنہیں یہ سب خرافات اور بدعتیں ان ممالک میں عام ہیں جنہیں
مسلم ممالک کہاجاتاہے جن میں بیشتر سے زیادہ نہ اسلامی ہیں نہ جمہوری اور
نہ ہی رفاہی مملکتیں ہیں آج مغربی معاشرے میں بہت سی روایات کی پاسداری کی
جاتی ہے جنہیں ہم مسلمان اپنے ماضی کی درخشندہ واقعات قراردے کر اتراتے
پھرتے ہیں 1989ء کی بات ہے لندن کے paddington پولیس اسٹیشن میں آدھی رات
کے وقت کوئی اسکیورٹی الرٹ ہوا۔ اسوقت عام پولیس افسر ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔
چناچہ ایک کانسٹیبل نے اپنے اسٹیشن کے انچارج کو فون پر اطلاع دی جو کہ
ہمارے ڈی آئی جی لیول کا افسر تھا۔ وہ اسی وقت آگیا اور بیٹھ کر معاملہ
نبٹا کر اپنی گاڑی میں گھر روانہ ہوگیا۔ ابھی وہ چند سو گز ہی دور گیا
تھاکہ اسی پولیس کانسٹیبل نے آکر اس کی گاڑی روکی اور اس باہر نکلنے کا کہہ
کر اس کا breath test لیا جوکہ لیول سے اونچا تھا۔ چناچہ اسکا چالان کیا اس
کی گاڑی ضبط کی اور اسے ٹیکسی پر گھر بھیجا اور اسے بتایا کہ جب تم باتیں
کررہے تھے تو تمہارے منہ سے شراب کی بو آئی اسلئے تمہیں آکر پکڑا ہے۔ اگلے
دن پولیس آفیسر کو نوکری سے استعفٰی دینا پڑا۔
یہ بھی تاریخ ہے کہ جب ٹونی بلیر برطانیہ کے وزیراعظم تھے تو ایک رات ان کا
بیٹا Leon لندن میں دوستوں کے ساتھ نشہ میں دھت بے ہنگم حرکات کرنے کے
دوران کسی کو تنگ کر رہا تھا۔ پولیس اسی وقت آئی اور اسے گرفتار کرکے لے
گئی۔ جب اس نے بتایا کہ میں وزیر اعظم کا بیٹا ہوں تو انہوں نے رات دو بجے
وزیراعظم کو فون کرکے تصدیق کی اور کہا کہ چونکہ آپ کا بیٹا نابالغ ہے اس
لئے کل صبح نو بجے آپ دونوں میاں بیوی تھانے میں حاضر ہوں اور آپ کو بھی
caution دیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں ابھی آجاتا ہوں لیکن پولیس
افسر نے کہا کہ نہیں صبح نو بجے حاضر ہوں۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی اگلی
صبح وزیراعظم نے اپنے پروٹوکال افسر کو کہا کہ پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے
صبح نو بجے ذرا پولیس اسٹیشن جانا ہے مجھے کچھ کام ہے ڈرائیور کو بتا دو۔
پروٹوکال افسر نے کہا میرے پاس پروٹوکال کتاب کے مطابق آپ صرف سرکاری کام
کیلئے گاڑی استعمال کرسکتے ہیں آپ کے ذاتی کام کے لئے سرکاری گاڑی دستیاب
نہیں چنانچہ وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور انکی بیوی صبح بلیک کیب لیکر تھانہ
گئے اور بیٹے کو گھر واپس لیکر آئے۔ ایک مرتبہ ٹونی بلیئر کی بیوی شیری
بلئیر اپنی سہیلی کے ساتھ ہالیڈے پر گئیں اس کی واپسی لیوٹن ائیرپورٹ پر
ہوئی اور وہاں سے لندن کی ٹرین پر سوار ہوگئیں چونکہ ٹرین روانہ ہورہی تھی
اس لئے وہ بغیر ٹکٹ کے سوار ہوگئیں۔ برطانوی قانون کے مطابق اگر کوئی
روانگی سے پہلے ٹکٹ نہ لے سکے تو وہ گاڑی میں یا اتر کر دس پاؤنڈ جرمانہ
ادا کرکے ٹکٹ خرید سکتاہے۔ ٹکٹ چیکر آیا اور شیری نے دس پاؤنڈ جرمانہ ادا
کرکے ٹکٹ لے لیا۔ اگلے دن تیسری دنیا کے میڈیا میں طنزیہ لکھاہوا تھا کہ
وزیر اعظم کی بیوی بغیر ٹکٹ پکڑی گئی لیکن کسی کی نظر اس طرف نہ گئی کہ
وزیر اعظم کی بیوی کو لینے کیلئے کوئی پولیس یا گاڑی نہ تھی اور وہ اکیلی
ٹرین پر واپس آئیں برصغیرمیں ایسی کو مثال پیش کی جاسکتی ہے پاکستان میں تو
سب کے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ جن کا ایک تکیہ کلام بڑا مشہورہے کہ میں نے
ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی لیکن یہ بھی حقیقت سب پر عیاں ہے کہ ان کے دور
ِ اقتدارمیں موصوف کے 5سے زیاد ہ کیمپ آفس تھے جہاں پروٹوکول کے نام پر
سینکڑوں افراد کی ڈیوٹی ہمہ وقت رہتی تھی درجنوں سرکاری گاڑیوں کا میلہ
لگارہتا تھا کچن کے لئے لاکھوں ماہانہ مختص کئے جاتے تھے پھربھی شنیدہے کہ
موصوف تنخواہ نہیں لیتے تھے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں شاید دل و دماغ
کی کھڑکیوں سے کچھ روشنی در آئے
1996 ء میں بکنگھم پیلس کے باہر ایک شخص برگر کا سٹال لگاتا تھا۔ ملکہ
برطانیہ نے شکایت کی کہ جب وہ پیاز تلتا ہے تو ان کی بدبو کھڑکیوں کے ذریعے
ان کے بیڈ روم میں آجاتی ہے جو انتہائی ناگوار محسوس ہوتی ہے اس لئے اس کو
یہاں سے ہٹایا جائے۔ برگر والے نے وہاں سے جانے سے انکار کردیا۔ چنانچہ
ملکہ کو اس کے خلاف عدالت میں جانا پڑا اور چھ سات ماہ کی کاروائی کے بعد
اس شخص کا ہٹانے میں کامیاب ہوئیں۔ ان باتوں کا مقابلہ ہمارے حکمرانوں سے
کریں اور دیکھیں کہ ہماری ترقی کی راہ میں کون سی مشکلات حائل ہیں پاکستان
میں درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول لے کر سفر کرنے والے جب
امریکہ،برطانیہ،جرمنی و غیرہ کے نجی دوروں پر جاتے ہیں تو ان پر
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
کا شعر صادق آتاہے اپنے ملک میں ان کا فرعونی مزاج اور رعونت دیکھنے کے
لائق ہوتی ہیں جب دنیا کے ایک عظیم فاتح خلیفہ ٔ دوئم حضرت عمرِ فاروق بیت
المقدس کی چابیاں لینے کے لئے گئے تو ان کے لباس میں22پیوند لگے ہوئے تھے
اور اس سے بھی عجیب کہ اوٹنی پر غلام سوار تھا جس کی مہار خلیفہ ٔ وقت نے
تھامی ہوئی تھی دنیا اس جیسی اور کوئی مثال پیش کرنے سے قاصرہے۔
پاکستان ہویابھارت،بنگلہ دیش یا کوئی اور ترقی پذیرملک ہرجگہ ایک ہی
ماسٹرمائنڈ کے حکمران مسلط ہیں اشرافیہ کا بھی ایک طرح کا مزاج اور مائنڈ
سیٹ ہے پاکستان عوام کی محبت کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں
جن کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی
سوایکڑوں پر مشتمل محلات ہیں میاں نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹاؤن
،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ، جاتی عمرہ میں تو مربعوں پرمحیط فارم،
اوروسیع و عریض گھر۔۔ اسی طرح سابقہ صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی
،لاہور،دئبی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں چوہدری پرویز الہی اور چوہدری
شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ ممالک میں گھرموجود ہیںMQMکے
قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس اور شیخ الاسلام طاہرالقادری کی
کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش گاہیں ہیں،عبدالعلیم
خان،جہانگیرترین،ہمایوں اخترخان ،میاں منشاء اورشہبازشریف کی دولت وامارات
کے قصے کہانیاں ہرزد ِ عام ہیں اس کے علاوہ نہ جانے ان خصوصیات کی حامل
شخصیات اتم موجودہیں ان سب قومی رہنماؤں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے
کوئی میل نہیں کھاتا لیکن اس کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں
سب میں کوئی فرق نہیں ہے؟ بھارت،بنگلہ دیش کے حکمران بھی ایسے ہی ہیں ایک
جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے ایک جیسا اندازِ حکمرانی ۔ مگرمزے کی بات یہ ہے
کہ ہرکوئی باتیں کرکے من موہ لینے کا ہنرجانتاہے حالت نہیں بدلتی تو غریبوں
کی نہیں بدلتی اﷲ خیرکرے ۔
|