یوکرین :عالمی طاقتوں کی ابن الوقتی اور موقع پرستی بے نقاب

یوکرین میں روسی جارحیت کے ایک ماہ کی تکمیل پر صورتحال کا جائزہ لینے کی خاطر امریکی صدر جو بائیڈن سمیت مغربی ممالک کے دیگر رہنما نیٹو کے اہم اجلاس میں برسلز کے اندر جمع ہیں ۔انہوں نے ایک روایتی 'فیملی فوٹو' بھی کھنچوائی جسے اتحاد کے قیام سے اب تک کی تاریخی تصاویر میں شمار کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی نوٹنکی روس کے پوتن پر اثر انداز ہوگی؟ جواب نہیں ہے۔ اس اجلاس سے قبل نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ نے کہا تھا کہ عنقریب مغربی ممالک کا اتحاد یورپ کے مشرقی حصے میں تعینات فوج میں اضافہ کرنے کی منظوری دے کر سلوواکیا، ہنگری، بلغاریہ اور رومانیہ میں چار نئے فوجی دستے روانہ کرےگا لیکن تعجب ہے کہ یوکرین کی کسی فوجی مدد کا یقین نہیں دلایا گیا ۔ برطانوی وزیر اعظم نے 59 مزید روسی شخصیات اور کمپنیوں پر پابندی لگانے کے بعد کہا کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اپنی خواہش کے برعکس وہ حاصل کیا جو وہ نہیں چاہتے تھے، یعنی 'نیٹو کی موجودگی میں اضافہ، نہ کہ کمی۔' اس طرح کے بیانات دل کے ’بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے‘ کے زمرے میں آتے ہیں ۔

یوکرینی صدر نے اپنے حالیہ خطاب میں پہلی مرتبہ انگریزی زبان کے اندر دنیا بھر کے عوام سے سڑکوں پر نکل کر روسی حملے کے خلاف یوکرین کی خود مختاری اور حمایت کی گہار لگائی ۔ انہوں نے 'اپنے دفاتر، گھروں، سکولوں، یونیورسٹیوں سے نکل کر یوکرین کی آزادی کے لیے مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ۔ اس سے قبل وہ فرانسیسی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے وہاں کمپنیوں سے مطالبہ کررہے تھے کہ وہ روس سے اپنے کاروبار ی تعلقات منقطع کر دیں لیکن شاید ہی کوئی اس پر کان دھرے ۔یوکرین اس وقت اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہا ہے۔ سن 2008 میں نیٹو نے یوکرین کو رکنیت کی دعوت تو دے دی تاہم روس کے ڈر سے اس پر عمل نہیں کرسکا ۔ یوکرین نے اس فریب میں آکر روس کو ناراض کردیا اور اب اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ یوکرین کی مدد تو درکنار نیٹو ممبران روس کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے فکرمند ہوگئے ہیں اور ان ممالک میں ہتھیار بھجوانا شروع کردیاہے جہاں اگلا حملہ متوقع ہے۔

اس موقع یوکرین کے یہودی صدر ولادیمیر زیلنسکی جنہوں نے بڑی امیدوں سے اسرائیلی پارلیمان کو خطاب کیا تھا اور انہوں اپنے مذہب کا واسطہ دے کر دہائی دی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور ثقافتی رشتہ رہا ہے۔ اس وقت یوکرین میں دو لاکھ یہودی ہیں۔ اسرائیل کی مشہوروزیر اعظم گولڈا مائیر یوکرین کی رہنے والی تھیں ۔ موجودہ یوکرینی صدر زیلنسکی بھی یہودی النسل ہیں۔اس کے باوجود اسرائیل نے یوکرین کی فوجی مدد نہیں کی ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی نے روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا ناٹک توکیا مگر وہ بے نتیجہ رہا۔ اسرائیلی پارلیمان میں زیلنسکی نے خوب کھری کھری سنائی اور اسرائیل کو بے وفائی کے طعنے دیئےاس کے جواب میں انہیں ایک نئے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ روس کی ناراضی کے ڈر سے اسرائیل نے یوکرین کو اپنے بدنام ِ زمانہ جاسوس سافٹ وئیر 'پیگاسس' فروخت کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ اس طرح اسرائیل کی فوجی طاقت اور یہودی نوازی کا بھی بھانڈا پھوٹ گیا۔ یعنی جو سافٹ وئیر ہندوستان کو اپنے ہی لوگوں کی جاسوسی کے لیے مہیا کردیا گیا اس سے ایک یہودی صدر کو اپنے دشمن کے خلاف استعمال کرنے سے محروم کردیا گیا۔ زیلنسکی کی اس درگت کے بعد کوئی ملک شاید ہی کسی یہودی کو اپنا سربراہ بنائے۔
نیٹو اور اسرائیل کی اس دھوکہ دھڑی کے تناظر میں یوکرین کے صدر زیلنسکی نے نیٹو اجلاس سے قبل مغربی رہنماؤں کو خبردار کیا کہ روس اپنی معاشی طاقت استعمال کرتے ہوئے یوکرین کے اتحادیوں کو جنگ میں مداخلت سے روک رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں ’دوست اور دھوکے باز‘ سامنے آجائیں گے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ روس نے پہلے ہی اپنے مفادات کے لیے لابی کرنا شروع کر دی ہے، یہ مفادات کی جنگ ہے ۔ زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ وہ دیکھیں گے ’کون ہمارا دوست ہے، کون ساتھی اور کون ہمیں پیسے کے لیے دھوکہ دیتا ہے‘۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یورپ کے 40 فیصد ممالک روس کی گیس سے توانائی حاصل کرتے ہیں۔ یورپی رہنما یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے توانائی کے لیے متبادل ذرائع حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی اور روس اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔یوکرین کے صدر زیلنسکی نیٹو اجلاس میں یوکرین کے لیے مزید جدید ہتھیاروں، جہازوں اور طیارہ شکن نظام کے حصول کا مطالبہ کیا مگر یہ صدا بہ صحرا ثابت ہوگا کیونکہ امریکہ سمیت کسی میں روس اور چین کے اتحاد سے ٹکرانے ہمت نہیں ہے۔اس طرح یہ ثابت ہوگیا ہے کہ تمام تربلند بانگ دعووں کے باوجود جدید مغربی نظریات امن عالم کے قیام میں پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں اوردنیا بھرمیں اب بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا بول بالا ہے۔

یوکرینی صدر نے جس ابن الوقتی اور موقع پرستی کی جانب اشارہ کیا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ فی الحال امریکہ اور اس کے اتحادی روس کو جی ٹوئنٹی نامی اتحاد سے باہر نکالنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولینڈ نے امریکہ کو تجویز دی کہ جی 20 اتحاد سے روس کے نکالے جانے کی صورت میں اس کو شامل کیا جائے ۔ اس تجویز کا 'مثبت جواب' دیا گیا ہے۔ دنیا کی امیر ملکوں کا یہ اتحاد عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات پر مشترکہ حکمت عملی اور فیصلہ سازی کرتا ہے۔ اس اقدام کے ذریعہ روس پہلے سے عائد اقتصادی پابندیوں میں مزید اضافہ مقصودہے۔ تاہم یہ اندیشہ بھی ہے کہ چین، ہندوستان اور سعودی عرب جیسے ممالک اس کو مسترد کردیں اور اس کے خلاف مغربی ممالک کے اتحاد جی سیون کے رکن ممالک رواں برس جی 20؍ اجلاس کا بائیکاٹ فر مادیں ۔ اس عمل اور ردعمل کی توقع سے واضح ہوتا ہے کہ مفاد پرست دنیا کس قدر منقسم ہے۔ اپنے فائدے کے لیے یہ امن کے نام نہاد پجاری کیسے ایک دوسرے کی گردن مارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

صدر بائیڈن نے یوکرین پر روسی حملے سے متعلق بہتر رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے نیٹو، یورپی یونین اور کوآڈ گروپ کے رکن جاپان اور آسٹریلیا جیسے ممالک کی خاص طور پر تعریف کی۔ مؤخر الذکر اتحاد میں امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان شامل ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن اپنے خطاب میں ہندوستان کا ذکر اس لیے نہیں کیا کیونکہ وہ اس کے رد عمل سے خوش نہیں ہیں۔ امریکہ نے اپنی خصوصی سفارتکار کو ہندوستان کے دورے پر روانہ کیا اس کے باوجود مودی سرکار نے ابھی تک روسی فوجی حملے کی مذمت نہیں کی اور اس بارے میں اقوام متحدہ میں روس کے خلاف پیش کردہ مذمتی قرارداد پر رائے شماری میں بھی بھارت نے اپنی رائے محفوظ رکھی یعنی غیر جانبداری کی راہوں پر گامزن رہا ۔ ایسا 6؍مرتبہ ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندے نے کسی اصولی موقف کو اختیار کرنے سے گریز کیا اس لیے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

برطانیہ کی تنقید اور مغربی ممالک کے اصرار پر بھی ہندوستان کا روس کے خلاف ووٹ نہ دینا معنیٰ خیز ہے ۔حکومت ہند نے امریکہ کی تجویز کے بعد روسی اور پھر فرانسیسی تجویز پر ووٹنگ میں شرکت نہیں کی ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ روس نہ صرف بھارت کو دفاعی ساز و سامان مہیا کرتا ہے بلکہ اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی مدد کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہندوستان کا روس پر 49فیصد انحصار ہے ۔ وزیر اعظم اس معاملے خود انحصاری کی باتیں تو خوب کرتے ہیں مگر اس پر عمل در آمد نہیں ہوتا ۔ یہ حسن اتفاق ہے اس نازک موقع پر ہندوستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن ہے۔ وزیر اعظم میں اگر دوربینی اور حوصلہ مندی ہوتی تو وہ عالمی سطح پر ایک عظیم قائد بن کر ابھرسکتے تھے مگر انہوں نے روس پر لگی پابندی کے باوجود اس سے تیس لاکھ بیرل خام تیل خرید کر اپنی اہمیت گنوادی ۔ اس اقدام سے قوم کا لاکھ فائدہ ہواہو لیکن ملک کی عالمی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور ماضی میں ہندوستان نے جو اخلاقی برتری حاصل کی تھی اسے مودی جی نے خاک میں ملادیا ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449426 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.