بے وقوف عوام کو نچانے والی حکمران اور پاک فوج کے خلاف ٹرینڈ

جس طریقے سے سوشل میڈیا پر عسکری اداروں کو بدنام کیاجارہا ہے یہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے‘ اور اس عمل میں جو کوئی بھی ملوث ہو اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئیے خواہ اس کا تعلق کس بھی سیاسی پارٹی سے ہو‘ کیونکہ ریاستی اداروں کے خلاف شروع کی جانیوالی مہم اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے‘ کیونکہ اب تک پاکستان میں میں جو سکون و آرام ہے وہ اس ادارے میں شامل قوم کے بیٹوں اور ان کے خون سے لکھی جانیوالی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے آج اگر چوں چوں کا مرتبہ یا پھر تبدیلی کا جنازہ نکالنے والے بڑی ریلیاں اور جلوس نکالتے ہیں تو یہ ان جوانوں کا خون ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر قوم کے مستقبل کو محفوظ کیا ہے.کسی خاص شخصیت یا اس کے عمل کے باعث پورے ادارے کو بدنام کرنا افسوسناک ہے جس پر اس ملک کے باشعور طبقے کو اٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی کو عسکری اداروں پر ٹاپ ٹرینڈ بنانے کی ہمت نہ ہو..


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ایک قول ہے کہ طاقت اور پیسہ ملتے ہی انسان اپنی اصلیت میں آجاتا ہے اور یہ دونوں چیزیں انسان کی اصلیت سامنے لاتی ہیں.بہت کوشش کی کہ سیاست کے شعبے پر نہ لکھوں لیکن بہت زیادہ خاموشی بھی اندر کے انسان کو تنگ کرتی ہیں کہ اب خاموش رہنا ظلم ہے. ایک سال قبل ایک بڑے صاحب جو سوشل میڈیا پر بہت ایکٹیو ہے اور ایک اعلی شخصیت کیساتھ میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہیں نے راقم کے فیس بک سٹیٹس پردئیے جانیوالے باتوں پر براہ راست گالیاں دی‘ رمضان کے مہینے میں ہونیوالے اس واقعے کے بیس منٹ بعد متعلقہ شخص راقم کے ایک دوست کو گھر لے آئے‘ اور اپنی کئے جانیوالی بدتمیزی پر معافی مانگی‘ اس وقت سے سوشل میڈیا پر خاموشی اختیار کرلی کہ سیاست پر بولنے /لکھنے سے خاموشی بہتر ہے لیکن گذشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر شروع ہونیوالی بحث نے ایک مرتبہ پھر مجبور کیا ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھوں

اردو زبان کا ایک محاورہ ہے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ ہمارے ہاں پوری قوم عبداللہ دیوانہ بنی ہوئی ہیں‘ خوب سمجھتے بھی ہیں کہ ان کی اوقات اتنی نہیں یا تو ڈھول کے سامنے ڈانس کرنے کی ان کی اوقات ہے یا پھر زیادہ سے ان کے ہاتھ میں ڈھول ہے جو یہ بجاتے رہتے ہیں شادی کسی اور کی ہے‘ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کے نام پر آنیوالے عمران خان کونسی تبدیلی لیکر آئے‘ گالی گلوچ کی سیاست سے لیکر پرائی بچیوں کونچوا کر مدینہ کی ریاست کے نام پر لوٹ مار کرنے والے حکمران اور ان کے ٹولے کو کچھ یاد نہیں تھا‘ سوشل میڈیا پر ہر ایک کو گالیاں دیکر اپنے آپ کو ٹاپ ٹرینڈ پر لانے والے تبدیلی والی سرکار نے غریب عوام کیلئے کیا کیا‘ پاکستانی عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ فارن پالیسی کیا ہے‘ ان کا بنیادی مسئلہ پاپی پیٹ کو بھرنا ہے‘ حکمران ہیلی کاپٹروں میں پھرتے رہیں‘ ایلیٹ کلاس مزوں میں رہیں‘ بنیادی ضروریات کی چیزیں مہنگی ہوتی رہی‘ ہر روز جھوٹ پر جھوٹ تبدیلی والی سرکار کا خاصہ رہا ہے. ہاں ان میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں آنیوالے سارے ڈھیٹ ہیں خواہ وہ کارکن ہو یا پھر کوئی رہنما. یوٹرن ماسٹر نے ہر وہ کام کیا جو اس نے حکمرانی حاصل کرنے سے پہلے غلط قرار دیا تھا‘ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی باتیں کرنے والے خود پسند شخصیت نے کیا نہیں کیا
.
عدت کے دوران شادی سے لیکر قبروں کو سجدوں تک جو بھی کچھ کیا جاتا رہا ہے اس پر شرمندگی کے بجائے نہ صرف خود بلکہ اس کی شخصیت کے ارد گرد پھرنے والے زندہ باد اور مرد ہ باد کرنے والوں کی اوقات اس حکومت میں آنے سے قبل کیا تھی اوراب کیا ہے‘راقم سینکڑوں ایسے افراد کوذاتی طور پر جانتا ہے جو ان کی حکومت میں آنے سے قبل کسی اور پارٹی کے گن گاتے تھے‘ لیکن پھر پتہ نہیں ان کے نظریات کہاں پر سو گئے وہ ان کی حکومت میں شامل ہوگئے اور پھر ان پر پیسوں کی بھر مار ہوگئی‘ کوئی کنٹریکٹر بن گیا‘ کوئی سرکاری زمینوں کا مالک بن گیا‘ کوئی آٹے کا پرمٹ لیکر آیا اور کوئی بیروزگار ڈائریکٹ بھرتی ہو کر ملازم بن گیا‘ اور پھر ان میں بیشتر ایسے خوشاٹاری آگئے جن کی اوقات ٹکے کے بھی نہیں تھی لیکن تبدیلی والی سرکار میں یہ لوگ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگے.اور ان کے فیس بک سٹیٹس اور بدتمیزیوں نے ہر ایک شخص کو ان سے متنفر کردیااو ر یہ سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے..

ان کے مقابلے میں چوں چوں کا مربہ جسے کوئی پی ڈی ایم اور کوئی اتحاد سے تعبیر کررہا ہے ان کی کارکردگی بھی کوئی خاص نہیں تھی پختونوں میں تعصب کی بنیاد پر سیاست کرنے والی ایک علاقائی پارٹی میں مردان سے تعلق رکھنے والے ایک شخصیت کے علاوہ سارے مفاد پرست ہیں‘ ان کی حکومت میں صحافیوں کو مار بھی پڑی‘ ان لوگوں نے بھی اپنے من پسند صحافیوں کو نوازا‘ جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے مخصوص لوگوں کی بدمعاشی تھی یہی صورتحال کم و بیش تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی ہے ہر ایک پارٹی صرف اپنے مفادات کی پیچھے لگی ہوئی ہیں کسی کو عوام کا خیال ہی نہیں. آج اگر خود پسند شخصیت کی حکومت ختم کرکے چوں چوں کا مربہ سمجھتا ہے کہ انہوں نے بڑا تیر مار لیا ہے تو یہ بھی ان کی خام خیالی ہے بہت جلد ان کے مابین مفادات کی جنگ شروع ہوگی اور پھر اسٹبلشمنٹ کو یہی راستہ نظر آئے گا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو

یہ جمہوریت جمہوریت‘ عوامی حقوق سمیت بہت سارے خوش کن نعرے صرف دل خوش کرنے کے بہانے ہیں. ورنہ ان کے پاس بھی کچھ نہیں اور اگر حکومت رہی تو یہ عوام خود پسند شخصیت کو ایک مرتبہ پھر ناچ ناچ کر خوش آمدید کہے گی.اور پھر پشتو زبان کے مثل کے بقول کفن چور والد اور بیٹے کا قصہ ہوگا جس میں ایک کفن چور مرتے وقت اپنے بیٹے کو بلا کر کہتا ہے کہ بیٹے میرے میں تو کفن چور ہوں تم ایسا کچھ کرنا کہ لوگ مجھے نیک گردانے‘ اور میرے لئے دعا کریں‘ کفن چور کے بیٹے نے والد کے موت کے بعد کفن چوری کیساتھ میت کیساتھ ایسے معاملے کئے کہ گاؤں کے لوگ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ تو بہت کمینہ ہے اس سے اچھا تو اس کا والد تھا کم از کم صرف کفن چوری کرتا تھا اب تو یہ میت کی بے حرمتی بھی کرتا ہے‘ تبدیلی والی سرکار آنے کے بعد کفن چور نے کفن چوری اور میت کی بے حرمتی کے بعد وڈیو بنانے کا کام بھی شروع کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ کفن چور تو بہت اچھا تھا‘ اس کے بعد اس کا بیٹا بھی اچھا رہا کم از کم میت کی بے حرمتی کا سب کو پتہ نہیں چلتا تھا لیکن اب تو کفن چوری اور میت کی بے حرمتی کے بعد اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کرنا بہت ظلم ہے‘. تقریبا یہی صورتحال تبدیلی والی سرکار کی رہی. لیکن اب جو کچھ نظر آرہا ہے اس میں کفن چوری‘ میت کی بے حرمتی‘ ویڈیو بنانے کے بعد میت کو جلا نے کی باری ہے. اور امکان ہے کہ اگلی آنیوالی حکومت تقریبا یہی کچھ کرے گی اور ناچ ناچ کر بے حال ہونیوالی قوم ایک مرتبہ پھر روتے روتے رہے گی کہ ہمارے ساتھ کیسا ہاتھ ہوگیا.

اصل میں غلطی ناچ ناچ کر بے حال ہونیوالی عوام کا ہے‘ ورنہ پہلے مخصوص پارٹیوں یعنی چوں چوں کے مربے کی باری باری حکومت چلتی تھی‘ کبھی اپوزیشن میں اور کبھی حکومت میں‘ خود پسند شخصیت نے جھوٹ اتنے سچے انداز میں بول دیا کہ کچھ اسٹبلشمنٹ اور کچھ عوامی دباؤ نے انہیں حکمرانی تک پہنچا دیا اور ایک نئی پاور پالیٹکس شروع ہوگئی اور نئی پارٹی آنے سے مقابلے کی فضاء پیدا ہوگئی موجودہ صورتحال میں ہر ایک سیاسی پارٹی اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کے نزدیک کرکے کرسی تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہوگی‘ تبدیلی والی سرکار کے حکمرانی کے بعد ایک تیسری قوت بھی حکمران کرسی تک پہنچنے کے قابل ہوگئی ہیں اور اب تین مختلف پارٹیوں کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے آپ کو اسٹبلشمنٹ کے آنکھوں کا تارا بنیں.اور اس کیلئے وہ بہت کچھ کرنے کو تیار تھے‘ تیار ہیں اور تیار رہیں گے.کوئی مذہب کے نام کا چورن بیچ رہا ہے‘ کوئی تڑکے لگا کر صوبائی تعصب کی دکانداری کررہا ہے‘ کوئی تبدیلی اور کوئی امریکہ مخالف اور امریکہ حق میں دلائل دیکر بھکاریوں کو قائل کرے گا کہ وہ بہترین ہے اور پھر نئی راہ ہموار کی جائیگی اس طرح کے مقابلے میں راولپنڈی کی ایک میراثی کی یک شخصی پارٹی بھی ہے جس کے پاس اور کچھ نہیں لیکن صرف چرب زبانی اس کے پاس ہے اور اسی چرب زبانی کے بل بوتے پر وہ آنیوالے حکمران ٹولے میں شامل ہو کر مزے کرتا ہے.

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران چوں چوں کے مربے میں شامل لوگ بنتے ہیں‘ یا پھر تبدیلی والی سرکار کے نام پر تبدیلی کا جنازہ نکالنے والے‘ لیکن ہاں جس طریقے سے سوشل میڈیا پر عسکری اداروں کو بدنام کیاجارہا ہے یہ قابل مذمت اور قابل افسوس ہے‘ اور اس عمل میں جو کوئی بھی ملوث ہو اس کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئیے خواہ اس کا تعلق کس بھی سیاسی پارٹی سے ہو‘ کیونکہ ریاستی اداروں کے خلاف شروع کی جانیوالی مہم اپنے ہی پاوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے‘ کیونکہ اب تک پاکستان میں میں جو سکون و آرام ہے وہ اس ادارے میں شامل قوم کے بیٹوں اور ان کے خون سے لکھی جانیوالی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے آج اگر چوں چوں کا مرتبہ یا پھر تبدیلی کا جنازہ نکالنے والے بڑی ریلیاں اور جلوس نکالتے ہیں تو یہ ان جوانوں کا خون ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر قوم کے مستقبل کو محفوظ کیا ہے.کسی خاص شخصیت یا اس کے عمل کے باعث پورے ادارے کو بدنام کرنا افسوسناک ہے جس پر اس ملک کے باشعور طبقے کو اٹھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں کسی کو عسکری اداروں پر ٹاپ ٹرینڈ بنانے کی ہمت نہ ہو..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 588 Articles with 418347 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More