ہر چند دنیا کی مکیاؤلی سیاست میں فریب کاریاں اور ُروباہ
بازیاں ہی اصل تدبیرقرار پاتی ہیں، تاہم موجودہ کار زار ِ سیاست میں جس طرح
کھلی بدعہدیوں اور حدود فراموشیوں کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، ان پر استاذان ِ
مغرب بھی انگشت بد نداں رہ گئے ہیں، عام شہری کا طرز ِ عمل ممکن ہے کہ
موجبِ حیرت اور غیر متوقع ہو، لیکن ارباب ِ نظم نسق کی حرکت بھی غیر متوقع
نہیں اور نہ باعث ِ استعجاب۔ آپ نے تھیٹر کے کھیل میں اکثر دیکھا ہوگا کہ
ہر نئے باب سے پہلے سٹیج پر پردہ لٹکا دیا جاتا اور پردے سے باہر جو کر
آجاتے ہیں جو اپنی مختلف حرکات و سکنات سے ناظرین کی تفنن طبع کا سامنا بہم
پہنچاتے ہیں، جوکروں کا پارٹ اصل کھیل کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک ضرورت
پورا کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے اور وہ ضرورت یہ ہوتی ہے کہ تھیڑ والوں کو آنے
والے سین کے لئے سٹیج کو ازسر نو تیار کرنا ہوتا ہے۔ اگر اس تخریب اور
تعمیر کو ناظرین کے سامنے عمل میں لایا جائے تو کھیل میں دلچسپی باقی نہیں
رہتی اور اگر اس دوران میں کچھ نہ کیا جائے تو تماشہ گاہ میں کھلبلی مچ
جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس وقت کو رفع کرنے کے لئے کیا یہ جاتا ہے کہ سٹیج
کے سامنے پردہ لٹکایا دیا جاتا ہے۔ پردے کے پیچھے اس اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ
شروع ہوجاتا ہے اور پردے کے باہر جو کر بھیج دیئے جاتے ہیں، تاکہ ناظرین کا
دل بہلا رہے جب سٹیج دوسرے سین کے لئے تیار ہوجاتا ہے تو جوکر چلے جاتے
ہیں، پردہ اٹھتا ہے اور سٹیج پر ایک نیا سین سامنے آجاتا ہے ۔
عوام کو مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام سمیت متعدد صبر آزما مراحل سے گذرنا
پڑتا ہے، ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں،وقت، توانائی اور پیسہ کے
ضیاع کے علاوہ جو اعصاب پر اثر پڑتا ہے وہ ناقابل برداشت ہوتا ہے۔لیکن
ارباب ِ سیاست و اقتدار کو ان مشکلات کا احساس نہیں ہوسکتا کیونکہ انہیں
کبھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ عوام بھی اس ارض ِ پاک کا جزو ہے۔ کوئی جوکر
نہیں جسے تفریح طبع کے لئے پردے سے باہر نکالا جائے اور اصل کردار پس پردہ
رہ کر اپنے مقاصد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ سفید پوش طبقے کو جس شدت کے ساتھ
کوفت و دقت سے گذرنا پڑتا ہے اس کا شاید ارباب اختیار و سیاست کو کماحقہ
تجربہ ہی نہیں ہوتا۔ عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لئے جس قدر ٹکریں مارنی
اور ذلیل ہونا پڑتا ہے اس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا۔ ویسے تو شکوے
اتنے ہیں کہ صفحہ قرطاس بھی کم پڑ جائیں، کسی زمانے کا محاورہ تھا، السفر
سقر۔ سفر کرنا جہنم کا عذاب بھگتنا ہے۔ جس زمانے میں یہ محاورہ وجود میں
آیا ہوگا، اس سے مراد سفر کی طبیعی تکالیف ہوں گی، لیکن آج کا سفر، ہوائی
جہاز، ریل، لگژری بسوں اور گاڑیوں پر منتقل ہوگیا ہے۔ لیکن آئے روز دھرنوں
اور احتجاجوں اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے جس قدر ذہنی کوفت اور قلبی
صعوبت اٹھانی پڑتی ہے، حکومتی گورنس کی بھی اب شکایت اس لئے نہیں کی جاتی
کہ یہ سب معاشرہ کا جیسے معمول بن چکا ہو، عوام کی تکلیف کا علم و احساس کس
طرح ہوسکتا ہے کہ ان پر کیا گذرتی ہے کیونکہ مراعات یافتہ کے ساتھ تو کبھی
ایسا ہوتا ہی نہیں کہ وہ اسے محسوس کرسکیں۔
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ رشوت ہے، ہر دور میں اس کا بھاؤ بڑھ جاتا ہے جو کام
کبھی کم پیسوں میں ہوتا تھا اب اس کے ریٹ بھی آسمانوں کو چھونے لگے ہیں،
ایسے مجبور و تنگ دست لوگوں سے جس جس قسم کے طبیعی، ذہنی، اعصابی تشدد اور
عیارانہ طریقوں سے مجبور کرکے رشوت نچوڑی جاتی ہے اسے وہی جان سکتا ہے جس
پر یہ بیتے، چوری، ڈکیتی، قتل و غارت گری، اغوا، ہراسانی اور جنسی استحصال
کی دہشت انگیزیوں سے حالت یہ ہوچکی کہ کوئی امن پسند شہری دن کی روشنی ہو
یا رات کی تاریکی میں اطمینان سے نہ کہیں جا سکتا تھا نہ اپنے گھر میں
محفوظ رہ سکتا ہے۔ ارباب ِ اقتدار کو اس کا احساس نہیں ہوسکتا، کیوں کہ ان
کے ہاں ِ، حفاظت کے اطمینان بخش انتظامات ہوتے ہیں۔
وہ بنیاد جس پر انسان ہی نہیں، حیوانات تک کی زندگی کی عمارت استوار ہوتی
ہے، ”روٹی کا مسئلہ‘‘ ہے، اس کے حل کے لئے عوام کو جن جانکاہ، جگر گداز،
ہمت شکن اور صبر آزما مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس کا احساس بھی
ارباب ِ حل و عقد کو ہو ہی نہیں سکتا، ہمارے ہاں ”دال روٹی“ غریب ترین
معیار ِ زیست سمجھا جاتا جاتا ہے، وہ بھی ان کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ کسی
کو سمجھ میں آسکتا ہے بال بچے دار (عام مزدور ہی نہیں)عام سفید پوش، گذارہ
کس طرح کرتا ہے، پھر جس چیز کا جی چاہتا ہے، مارکیٹ سے ناپید ہوجاتی ہے،جو
ملتی بھی ہے تو نامعلوم اس میں کس کس قسم کی ’بد بلا‘ کی آمیز ش ہوتی،
گوالہٰ دودھ ملا پانی لاتا اور نرخ بڑھائے چلا جاتا ہے۔ قصاب، گوشت کے نام
سے جو کچھ گاہک کی طرف پھینک دیتا ہے، کوئی لیبارٹری ہی بتا سکتی ہے کہ وہ،
درحقیقت ہوتا کیا ہے۔
کہا جاسکتا ہے کہ ارباب ِ اقتدار کو عوام کی ان مشکلات کا علم ہوتا تو ہے،
علم ہونے کے باوجود، ان کا تدارک کیوں نہیں ہوتا، یہ جداگانہ موضوع ہے۔
تاریخ انسانی سے اس کربناک حقیقت کی شہادت میں ایسی ہزاروں مثالیں پیش کی
جاسکتی ہیں کہ اس جنس عظیم، نے جسے انسان کہتے ہیں با حیثیت انسان اپنے ہی
جیسے دوسرے انسان پر ظلم و ستم ڈھانے اور اسے ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی
کسر اٹھا نہیں رکھی، اس کے حقوق چھننے میں کوئی کوئی حربہ باقی نہیں چھوڑا،
انصاف و التفات کا مستحق نہیں سمجھا، بس عوام کو سٹیج کا جوکر سمجھا، انہیں
جس طرح چاہا استعمال میں لائے، جیسا چاہے رکھتے، محکوم و مجبور، پھر جب جی
بھر جائے اور مطلب بار آور ہوجائے تو عوام کو ٹوٹی، جوتی کی طرح پھینک دے۔
یہ ارباب ِ اختیار و سیاست کا صدیوں سے چلنے والا پسندیدہ ترین چلن ہے،
شاید ظلمت و جاہلیت کے ادوار کی پہچان یہی بنی کہ عوام کو پاؤں تلے پستے
رہو اور زبان سے آہ بھی نہ نکلے۔
|