یوکرین اور روس کے درمیان ثالثی کرانے کے مقصد سے ترکی نے
جب سہ فریقی بات چیت کا انعقاد کیا تواس سےترکی کے صدر طیب اردوگان نے یہ
امید وابستہ کی تھی کہ اس سے جنگ بندی میں مدد ملے گی اور کسی بڑے المیہ
(مثلاً جوہری بم یا تیسری عالمی جنگ ) سے بچا جاسکتا ہے۔ اس بدلتے ہوئے
منظر نامہ میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ترکی میں اُن کے ہم منصب نے 6؍
مارچ کو فون پر گفتگو کی ۔ اس بات چیت کے دوران ترکی کے صدر رجب طیب اروان
مل جل کر امن کا راستہ تلاش کرنے کی خاطر اپنے ہم منصب کے سامنے مسائل کو
پُرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے جو گفت و شنیدکی تجویز رکھی اسی کے تحت
مذکورہ کوشش کی گئی۔ عام طور دماغ کے بجائےپیٹ سے سوچنے والے سیاسی
دانشوروں نے اسے معیشت سے جوڑ کر دیکھا اس لیے کہ ان اعصاب پر دولت سوار
رہتی ہے۔ ان کے مطابق یوکرین پر روسی حملوں نے ترکی کی مشکل میں گھری معیشت
کوزبردست دھچکا دیا ہے۔ ترکی کی معیشت کا اچھا خاصہ انحصار سیاحت پر ہے سن
2021 میں ترکی آنے والے جملہ سیاحوں میں سے ستائیس فیصد کا تعلق روس اور
یوکرین سے تھا۔ جنگ کے سبب رواں سال روسی سیاحوں کی تعداد میں نصف سطح تک
کمی کا امکان ہے۔ ان لوگوں کے احمقانہ دلائل پر علامہ اقبال کا یہ شعر
معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
ہند کے شاعِر و صُورت گر و افسانہ نویس
آہ! بیچاروں کے اعصاب پہ دولت ہے سوار!
یہ اصل حقیقت کا ایک ثانوی پہلو ہے لیکن یہی مکمل سچائی نہیں ہے۔ یوکرین
اور ترکی کے بہت قدیم سیاسی اور تہذیبی رشتے ہیں۔ ان کی گہرائی کا اندازہ
لگانے کی خاطر ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھنا پڑے گا۔ منگول فاتح
چنگیز خان کے پوتے باتو خان نے سن 1230 میں یوکرین سمیت روس کو سردیوں میں
فتح کرلیا تھا۔ یعنی جس موسم کی سختی نے ہٹلر کی فوج کو شکستِ فاش سے دوچار
کردیا وہ باتو خان کو نہیں روک سکا۔اس نے ماسکو کے بجائے قرم نامی شہر کو
دارالخلافہ بنایا جو آگے چل کر کرائمیا کہلایا ۔ یہ وہی صوبہ ہے جس پر
2014 میں روس نے قبضہ کر لیا تھا۔ کرائمیا کے تاتاریوں نے 13ویں صدی میں
اسلام قبول کر لیا۔ تیمور لنگ کی تاراجی کے بعد ملک خاجى كراى نامی ایک
تاتار جنگی سردار نے کرائمیا کو فتح کرکےجوسلطنت قائم کی وہ تین سو سال تک
چلتی رہی اور اس علاقہ میں یہی سب سے طویل مستحکم حکومت تھی ۔ اس کے بعد
وہاں یکے بعد دیگرے چہار جانب سے حملے ہوتے رہےاوراس کے نتیجے میں یہاں
بدامنی کا دور دورہ رہا ۔ اس خلفشار کے لیے سب سے زیادہ پولینڈ اور روس
جیسے ہمسایہ ممالک ذمہ دار ہیں۔
1475 میں حاجی کرای کا بیٹا منكلى كراى گرفتار ہو کر عثمانی سلطان محمد
ثانی کے روبرو پہنچا اور اپنی سلطنت ِ کرائمیا کو عثمانی سلطنت کا باج گزار
بنانے پر آمادہ ہو گیا۔عثمانیوں کی پشت پناہی ملنے کے بعد منکلی نے اپنے
حریفوں کا قلع قمع کیا جب کہ اس کے بیٹے نے روسیوں کے ایک لشکر کو ماسکو کے
قریب شکست دی جس کے بعد روسی انہیں خراج دینے پر مجبور ہو گئے۔ وقت کے ساتھ
کرائمیا اور عثمانی سلطنت کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور اس
دوران وقت کی سپر پاور عثمانیوں کی پشت پناہی کے سبب کوئی کرائمیا کی جانب
نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھنے کی جرأت نہیں کر سکا۔ عثمانیوں کو بھی اس کے عوض
کو ہمہ وقت جاری جنگوں میں حصہ لینے کے لیے اس علاقے سے جری شہسواروں کے
تازہ دم دستے فراہم ہوتے رہے۔ اس دوران کرائمیا براہِ راست عثمانی سلطنت
میں شامل نہیں تھا لیکن عسکری، معاشی اور سیاسی طور پر اسے عثمانی دنیا کا
حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔1672 میں عثمانی فوج نے سلطان محمد چہارم کی قیادت
میں پوڈولیا کو بھی پولینڈ کے بادشاہ سے چھین کر عثمانی سلطنت میں شامل کر
لیا تھا۔ تاہم 1699 میں عثمانیوں نے ایک معاہدے کے تحت پوڈولیا کو واپس کر
دیا۔
یوکرین کا اہم صوبہ کرائمیا پر نہ صرف عسکری طور پر بلکہ ثقافتی اور لسانی
اثرات بھی پڑے ترکی تہذیب و زبان کے بڑے اثرات آج بھی نظر آتے ہیں۔
یوکرینی زبان میں ترکی کے کئی الفاظ رائج ہیں مثلاًوہ چرواہے کے لیے ترکی
کے لفظ ’چوبان‘ استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح کلم (قالین)، کاون (خربوز)،
ہاربوز (تربوز)، اور بہت سارے ا لفاظ رائج ہیں۔ یوکرین پر عثمانیوں کا اثر
و رسوخ کرائمیا تک محدود نہیں ہے۔ مشرقی یوکرین کے کئی دوسرے علاقے بھی ان
کے زیرِ نگین رہے ہیں اور عثمانیوں نے یوکرین کے کچھ حصوں پر براہِ راست
بھی حکومت کی ہے۔یوکرین میں امن و امان کے اس دور کا خاتمہ روسی زار کی
فوجوں کے ذریعہ 1783 میں کرائمیا کی فتح سے ہوا جب اسے روسی سلطنت کا حصہ
بنا لیا گیا ۔ یہی کہانی 1917 کے انقلاب کے بعد دوہرائی گئی جبکہ کرائمیا
پرسوویت یونین نے غاصبانہ قبضہ کرلیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سٹالن نے اس
شبہ میں کہ کرائمیا کے تاتاریوں نے ہٹلر کا ساتھ دیا تھا، ان کے خلاف بڑے
پیمانے پر انتقامی کارروائیاں کیں۔ ہزاروں خاندانوں کو گھر بار سے بےدخل کر
کے ازبکستان جانے پر مجبور کیا گیا اور کچھ راستے میں بھی مارے گئے۔ایسے
جائزے بھی موجود ہیں کہ جلاوطن خاندانوں میں سے 40 فیصد دو سال کے اندر مر
کھپ گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ روس میں زار ہوں یابیزار یعنی اشتراکی ، ان
کے ذریعہ یوکرین کی قسمت میں ظلم و جبر ہی آیا۔
کرائمیا کے اندرخدا بیزار سٹالن نے بھی یوگی کی طرح قدیم آثار مٹانے کی
ناکام کوشش کی۔ مسجدیں اور قبرستان مسمار کر دئیے، پرانے محلات اور قلعے
برباد کر دیئے، حتیٰ کہ علاقوں اور شہروں کے پرانے نام تک بدل دیئے۔ یوکرین
پھر ایک بار روسی یلغار کی زد میں ہے، اور اپنے قدیم تعلقات کی بناء پر
ترکی بڑھ چڑھ کر اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ترکی نے یوکرین کو جنگی ڈرون بھی
دے رکھے ہیں جو روس کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ یوکرین پر عثمانیوں کی
پکڑ کمزور ہونے کے بعد اس کیا گزری اس کا چشم کشا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ کس
طرح مسلمان عالم انسانیت کی خاطر امن و امان کا باعث رہے ہیں اور ان کے
کمزور ہوجانے پر کیسے ظلم و جبر بے لگام ہوگیا ۔ پس منظر کے طور یہ حقیقت
پیش نظر رہے کہ چودھویں صدی کے وسط تک، مشرقی یورپ میں واقع یوکرین کے
علاقے تین بیرونی طاقتوں، منگولوں ، لیتھوانیا اور پولینڈ،کے تسلط میں تھے۔
پندرھویں صدی کے نصف میں جب منگول حکمرانی کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوگیا تو
اس کے جو جانشین کریمیا پر حکومت کررہے تھے انہوں نے 1475 کے بعدخلافتِ
عثمانیہ کی حاکمیت قبول کرلی۔
دریائے نیپر یوکرین، روس اور بیلاروس کے درمیان مشترک آبجو ہے ۔ اس دریا
کے دونوں کناروں پر آزاد منش اور مہم جو کوسیک (جنہیں ترکی زبان میں قزاق
کہا جاتا ہے) آباد تھے۔ پہاڑوں پر بسنے والے یہ قزاق موسمی شکار،مچھلیاں،
نمک اور شہد اکٹھا کرنے کو میدانوں میں اترتے تھے تاہم جب تاتار یوں کا
حملہ ہوتا جیسا کہ ابھی روس نے کیا ہے تو اس دراندازی کے خلاف یہ لوگ
یوکرین کی سرحدی آبادی کا بھی دفاع کرتے تھے ۔ کریمیا کے علاقے میں مہم
جوئی کرنے والے قزاقوں کا اپنا چھوٹا بحری جہازوں کا دستہ بھی ہوا کرتا تھا
جس کے ذریعہ ترکی کے ساحلی شہروں مثلاً اناطولیہ وغیرہ پر چھاپے بھی مارے
جاتے تھے ۔ یہ انا طولیہ وہی تاریخی شہر ہے جہاں موجودہ ترکی نے یوکرین اور
روس کے وزرائے خارجہ کو بات چیت کے لیے یکجا کیا ۔ جی ٹوئنٹی میں روس کی
جگہ لینے کا خواب دیکھنا والا پولینڈ ازلی موقع پرست رہا ہے۔ اس کا معاملہ
یہ تھا کہ وہ ان قزاقوں کو تاتاروں، ترکوں اور ماسکو کے حملہ آوروں کے
خلاف جنگ میں ڈھال کے طور پر استعمال کرتا لیکن امن کے زمانے میں انھیں
اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔ افغانیوں کے معاملہ میں مغرب اور امریکہ کا یہی
رویہ تھا کہ جب وہ سوویت یونین کی جارحیت کے خلاف برسرِ پیکار تھے تو ان کی
آنکھوں کا تارہ تھے لیکن جیسے نیٹو اور امریکہ کوچیلنج کیا دہشت گرد قرار
دیئے گئے ۔ مغرب کا یہ دوغلا پن صدیوں پرانا ہے۔
فی الحال جس طرح روس نے یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے کی جرأت سے ناراض
ہوکر حملہ کردیا اسی طرح وہ 29 جون 1659 کو بھی کرچکا ہے لیکن اس وقت
کونوٹوپ کی جنگ میں اسے شکست ہوگئی۔اس کے باوجود چونکہ یوکرین کے رہنما بڑی
حد تک موقع پرست اور کم نظر تھے اس لیے روس ان پر پھر سے غالب ہوگیا ۔ 1677
میں، ترکوں نے بوہدان کے بیٹے یوری کو اپنی قیدی سے نکال کر زمامِ کار
سونپی مگر وہ پھر سے نااہل ثابت ہوا۔ یوری کو غیر نتیجہ خیز مہمات کے بعد
1681 میں ترکوں نے معزول کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی سال، ماسکو نے
عثمانیوں اور کریمیائی تاتاروں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انھوں نے
یوکرین میں ایک دوسرے کی املاک کو تسلیم کرلیا۔ پانچ سال بعد روس نے پولینڈ
کے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ کیا۔ 1686 تک، پورا یوکرین ان طاقتوں میں تقسیم
ہو چکا تھا ۔ بوہدان کے ذریعہ برپا کردہ انقلاب کے بعدیوکرین کو ایک طاقتور
ملک کی حیثیت سے ابھرنے کا نادر موقع ملا تھا مگر اسے گنوادیا گیا اور اس
کے نتیجے میں وہ تقریباً 300 سال تک تباہی و بربادی کا شکار رہا ۔ اس دوران
پولینڈ-لیتھوانیا، روس اور سوویت یونین کے طویل تسلط میں رہنے کے بعد
بیسیویں صدی کے اواخر ہی میں جاکر یوکرین ایک خودمختار ملک کی حیثیت سے
ابھرا مگر پھر سے بہت جلد بکھراوکا شکار ہونے لگا ہے ۔ یوکرین کی اس عبرت
انگیز تاریخی تناظر پر مظفر رزمی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
(جاری)
|