اپنے خرچ پر عمرہ‘ وزیر اعظم کا صائب فیصلہ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اپنے خرچ پر عمرہ‘ وزیر اعظم کا صائب فیصلہ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اردو کے ایک بڑے اخبار میں یہ خبر سر ورق پر تھی کہ ”وزیر اعظم اور اتحادی اپنے اخراجات پر عمرہ کریں گے“۔ یہ خبر تو پہلے ہی آچکی تھی کہ نو منتخب وزیر اعظم میاں شہباز شریف اپنے چند ساتھیوں کے ہمرہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب تشریف لے جانے والے ہیں۔ اچھی خبر ہے، جانا بھی چاہیے۔ سابقہ متحدہ اپوزیشن کو سابقہ حکومتی اتحادیوں اور منحرم یا لوٹا بن جانے والے اراکین کی مدد، پرانے ساتھ دینے والوں کی ناراضگی، عدلیہ کے فیصلے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے سے حکومت حاصل ہوئی، عمران خان اس عمل میں بیرونی ہاتھ کے استعمال ہونے کا دعویٰ بھی کررہے ہیں۔ جو کچھ ہوا، دنیا نے دیکھا، اسے ایک معجزہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں حکومتوں کی تبدیلی معمولی بات ہے۔ یہاں یہ موضوع نہیں کہ حکومت کیسے اور کیوں تبدیل ہوئی۔موضوع نومنتخب وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا اپنے خرچ پر عمرہ ادا کرنے جانا ہے۔ اس سے بڑھ کر شکرانہ کیا ہوسکتا ہے کہ شکر خدا وندی کے لیے اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہونے جائیں، نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے روضہ مبارک پر سلام پیش کریں۔ یہ بات زیادہ قابل تعریف ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے از خود اور ان کے ہمراہ جانے والے تمام حکومتی اہلکاروں و اتحادیوں کواپنے خرچ پر عمرہ کے لیے ہم رکاب ہونے کی دعوت دی۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا یہ فیصلہ صائب فیصلہ ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات جس قدر ابتر اور تنزلی کا شکار ہیں ان کا تقاضہ یہی ہے کہ حکومت ہر شعبہ میں کفایت شعاری سے کام لے، اخراجات کم سے کم کرے، شاہ خرچیوں سے گریز کیا جائے۔ اخباری اطلاع کے مطابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف 27اپریل کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جارہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں اپنے اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کو اپنے ہمراہ اپنے اخراجات پر سعودی عرب جانے کی دعوت دی۔یہ دعوت سابق صدر آصف علی زرداری، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن، اسلم بھوتانی، اسی اتحاد میں شامل نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سر براہ محسن داوڑ کو بھی دعوت دی گئی۔ ان میں سے چند افراد مختلف وجوہ کی بنا پر شاید عمرہ پر نہ جاسکیں، اپنے خرچ پر جو جانا ہے۔تاہم جو افراد بھی جائیں گے اس کے اخراجات وہ خود برداشت کریں گے۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف پیپلز پارٹی نے چیرئمین بلاول بھٹو کو اپنے ہمراہ دورہ سعودی عرب جانے اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے وفد میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اخبار کے مطابق ممکنہ طور پر بلاول بھٹو وفاقی وزیر خارجہ کی حیثیت سے سعودی عرب جائیں گے“۔ ماضی میں بھی وزیر اعظم کے سعودی عرب و دیگر ممالک کے دوروں پر اپنے ساتھیوں کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اپنے ہمراہ لے جاتے رہے ہیں۔ فرق اس قدر ہے کہ اس مرتبہ وہ سرکاری خرج پر ہاتھ صاف نہیں کر پائیں گے۔ شہباز شریف اگر اس اچھی روایت کو یقینی بناتے ہیں تو وہ قابل قدر اقدام ہوگا۔ موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی تعداد 13سے زیادہ ہے، ان میں انفرادی لوگ جو سابقہ حکومتی پارٹی سے ٹوٹ کر اس وقت کی اپوزیشن میں شامل ہوئے وہ الگ ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنے اپنے خرچ پر کون کون وزیر اعظم صاحب کے ساتھ جاتا ہے۔ ماضی میں سرکاری وفد کا سعودی عرب عمرہ یا حج پر جانا تاریخ کا حصہ ہے۔وزیر اعظم کے غیر ملکی دورے جو کہ ضروری بھی ہوتے ہیں وزیر اعظم کے ہمراہ حکومتی عہدیداران خاص طور پر وزراء کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کا ساتھ جانا بھی شامل ہے۔ اس میں بطور خاص صحافت یا میڈیا کا شعبہ سر فہرست رہا ہے۔اس کی وجہ سرکاری وفد کی میڈیا کورج بتائی جاتی رہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں ایسا ہوتا رہا ہے جس کے نتیجہ میں آج بھی بعض احباب کو ’سرکاری حج‘ کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے ہمراہ جانے والے غریب غربا، مسکین، لاوارث، کم آمدنی والے افراد نہیں ہوتے بلکہ مالی طور پر مستحکم، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ماہناکمانے والے لوگ شامل ہوا کرتے ہیں۔ ان کی مثال بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے والی ہوتی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم اگر اس فیصلہ پر قائم رہتے ہیں تو یہ پاکستان کی معیشت اور پاکستان عوام پر احسان عظیم ہوگا۔ جو لوگ سرکاری خرچ پر حج یا عمرہ کرچکے انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کا عمرہ یا حج کا ثواب جس نے رقم ادا کی اسے جاتا ہے، اپنی جیب سے رقم نہ دینے والوں کا حج یا عمرہ، قبول کرنے والی پاک ذات ہے۔حکومتی خزانہ حکمراں کے لیے امانت ہوتا ہے، اس کا بے دردی سے استعمال خیانت کے زمرہ میں آتا ہے۔ ذمہ داران سے اللہ کی عدالت میں جواب طلبی ہوگی کہ انہیں تو قوم کے خزانہ کا امین بنایا گیا تھا، انہوں نے امانت میں خیانت کیسے کی، جو لوگ مستحق نہیں تھے، صاحب ثروت تھے، لاکھوں،کروڑوں کے مالک، عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے، ہر روز ٹی وی پر نیکی کا بھلائی کابھاشن دیا کرتے تھے۔ ان کا سرکاری خرچ پر عمرہ یا حج پر جانا، حکمران کا انہیں اپنے ہمراہ لے جانا، دونوں کی جواب طلبی تو ہوگی۔ بہت سے حکمرانوں کو دنیا میں ہی سزامل چکی ہے۔ ان کا انجام دنیا دیکھ چکی ہے۔ موجودہ حکمراں نے یہ قدم اٹھایا قابل تعریف ہے۔ اس کے بعد آنے والے جو بھی حکمراں ہوں انہیں خاص طور قومی خزانے کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ امانت میں خیانت کے زمرہ میں آتا ہے۔کسی بھی مسلمان حکمراں کا کردار خیانت نہیں امانت ہونا چاہیے بقول ہمدم کاشمیری ’مرا شعار خیانت نہیں امانت ہے‘ ۔ یٰسین براری کا ایک شعر۔ کرتا ہے امانت میں خیانت جو سراسر ہر ایسے بشر سے کوئی نسبت نہیں اچھی پاکستان میں مسند اقتدار پر بیٹھ کر امانت میں خیانت کا خیال کب کس کو آیا ہے۔ ہمارے حکمران تو زمین پر چلنا بھول جاتے ہیں ہواؤں میں اڑنا شروع کردیتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کا استعمال اس طرح کیا جاتا ہے جیسے ہیلی کاپٹر ڈیزل سے نہیں پانی سے چلتا ہوں۔ وہ سرکاری نہیں بلکہ ذاتی ملکیت ہو۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اس نیک کام کا آغاز کرتے ہیں اور اس پر آئندہ خود بھی عمل کرتے ہیں، نیز اپنے وزیروں، سفیروں کو بھی عمل کرنے کی سختی سے ہدایت کرتے ہیں ان کا یہ عمل پاکستان اور پاکستانی عوام کے لیے نیک فعال ہوگا۔ آمین (25اپریل 2022ء)
|