مجرع سلطان پوری کی غزل کا تیسرا شعر ہے ’’ میں اکیلا ہی
چلا تھا جانب منزل ۔لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروان بنتا گیا ‘‘ میں اکثر یہ
شعر سنتا بھی ہوں اور پڑھتا بھی ہو میرے بڑے بھائی سہیل اکبر (اﷲ تعالی جنت
الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ) اسٹیٹ لائف میں کام کرتے تھے انکی ہر
سال آنے والی ڈائری اور مختلف تشہری مہموں میں یہی شعر لکھا ہوتا تھا یوں
میں اپنے بچپن سے ہی اس شعر سے آشنا ہوگیااور آج تک اس شعر کی گونج کہیں نہ
کہیں سنائی دیتی ہے انسان اپنے اندر پوری ایک انجمن ہے جب وہ اپنے دل اور
دماغ میں کوئی چیز ٹھان لیتا ہے تو پھر کچھ بھی ناممکن نہیں رہتا دنیا میں
جتنی بھی تحریکیں اٹھیں وہ کسی نہ کسی ایک شخص کی مرہون منت ہیں جنہوں نے
ہمت ،جرات اور بہادری کے ساتھ ساتھ کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ بھی کیا آج
ہم اپریل کی 22تاریخ کو ہر سال ارتھ ڈے مناتے ہیں اس تحریک کوشروع کرنے
والا بھی ایک ہی شخص تھا یومِ ارض یا زمین کا دن ہر سال اس لیے منایا جاتا
ہے کہ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور اجاگرکیا جائے اس دن کو صرف ہم
پاکستان میں اکیلے نہیں مناتے بلکہ دنیا کے193ممالک اس دن کو بھر پور طریقے
سے مناتے ہیں ارتھ ڈے لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کا عہد کرنے کی ترغیب دیتا
ہے یہ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو ماحول کو بہتر بنانے میں ایک
دوسرے کی مدد کرتے ہیں ہر بچے ،بڑے اور جوان کو اس عالمی تحریک کا حصہ بننا
چاہیے جو اس سیارے کو بچانے کے لیے وقف ہے جسے ہم اپنا گھر کہتے ہیں ارتھ
ڈے کی تقریب آلودگی، گلوبل وارمنگ، زیادہ آبادی وغیرہ کے عالمی مسائل کی
طرف توجہ مبذول کراتی ہے اس دن کی ابتدا کچھ یوں تھی کہ 28 جنوری 1969 کو،
کیلیفورنیا کے سانتا باربرا کے ساحل پر یونین آئل پلیٹ فارم اے کی طرف سے
کھودنے والا ایک کنواں پھٹ گیا تیس لاکھ گیلن سے زیادہ تیل کا اخراج ہو جس
سے 10,000 سے زیادہ سمندری پرندے، ڈولفن، سیل اور سمندری شیر ہلاک ہوئے اس
تباہی کے ردعمل کے طور پر کارکنوں کو ماحولیاتی ضابطے ،ماحولیاتی تعلیم،
اور ارتھ ڈے بنانے کے لیے متحرک کیا گیا ارتھ ڈے کے حامیوں میں اس آفت سے
لڑنے والے صف اول کے لوگ تھے، سیلما روبن، مارک میک گینس، اور بڈ باٹمز گیٹ
آئل آؤٹ کے بانی پہلے ارتھ ڈے کے آرگنائزر ڈینس ہیز نے کہا کہ وسکونسن سے
سینیٹر گیلورڈ نیلسن نے سانتا باربرا چینل کو ہوائی جہاز سے 800 مربع میل
کے تیل کو دیکھ کر ارتھ ڈے بنانے کی ترغیب دی تھی تیل پھٹنے کی پہلی برسی
28 جنوری 1970 کو ماحولیاتی حقوق کا دن بنایا گیا اور ماحولیاتی حقوق کا
اعلامیہ پڑھا گیانیلسن کو بعد ازاں اپنے کار ہائے نمایاں کے باعث آزادی
ایوارڈ کا صدارتی تمغا دیا گیا چوں کہ 22 اپریل کو یومِ ارض منانے کا مرکزی
نقطہ ریاست ہائے متحدہ ہی تھا لہٰذا پہلے یومِ ارض (1970) کی تقریبات کے
قومی رابطہ کار ڈینس ہائز نے یہ دن منانے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی
1990 میں اس تنظیم کا دائرہ کار عالمی پیمانے پر پھیل گیا اور 141 ممالک
میں اس دن کو منانے کا اہتمام کیا گیا ارتھ ڈے ہم سب کے لیے اپنی مصروف
زندگی میں ماحول کو یاد رکھنے کا دن ہے ایک ایسا دن جو ہمیں یاد دلاتا ہے
کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں کرتے رہیں جو ہمارے ماحول کو خوشگوار بنانے میں
ہماری مددگار ہوں لائٹس بند کرنا، توانائی کا تحفظ، درخت لگانا اور اپنے
ماحول کو صاف ستھرا رکھنا یہ دن ماحولیات اور اس کی حفاظت کے بارے میں
آگاہی کے لیے منایا گیا تھا ارتھ ڈے کی بنیاد 1970 میں امریکہ میں ایک شخص
نے رکھی تھی وہ شخص سینیٹر گیلورڈ نیلسن تھا نیلسن نے پہلے لوگوں کو بتایا
کہ صنعتی ترقی کی وجہ سے ماحولیات کو کتنا نقصان ہوتا ہے اس کے لیے نیلسن
نے امریکی معاشرے کو متحرک کیا احتجاج کیا اور کئی عوامی تحریکیں چلائیں اس
تحریک کے نتیجے میں حکومت کو ان مظاہرین کے مطالبات سننے پڑے اور اقوام
متحدہ میں اس مسئلے کو عالمی سطح پر زیر بحث لانے کے لیے رکھا گیا اقوام
متحدہ میں 192 سے زائد ممالک نے اس مسئلے کی حمایت کی سب نے اپنے اپنے
ممالک میں ماحولیاتی تحفظ کی حوصلہ افزائی کی اور یہ سمجھا گیا کہ
ماحولیاتی تحفظ ایک بہت اہم موضوع ہے زمین پر موجود تمام قدرتی چیزیں جیسے
ہوا، پانی، درخت، پودے اور یہ سب مل کر ہمارا ماحول بناتے ہیں یہ تمام
چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ماحول کو متوازن رکھتی ہیں اس لیے اپنے
ماحول کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے قدرت نے ہمیں ہماری مدد کے لیے ہوا،
پانی، درخت، پودے، دریا، پہاڑ اور زمین کے نیچے موجود معدنیات عطا کی ہیں
ہم اپنی محنت سے پیسے کما سکتے ہیں لیکن نہ تو قدرتی چیزیں بنا سکتے ہیں
اور نہ ہی اسے بڑھا سکتے ہیں قدرت کی عطا کردہ یہ تمام چیزیں محدود ہیں
چنانچہ ارتھ ڈے پر لوگوں کو ماحولیات سے آگاہ کیاجائے اس دن لوگ اپنے گھر
کے آس پاس اور سڑک کے کنارے صفائی کرتے ہیں بہت سے لوگ اس دن پودا لگاتے
ہیں۔آخر میں مجروح سلطان پوری صاحب کی وہ مشہور غزل پیش خدمت ہے جسکا ایک
شعر بہت ہی مشہور ہوا مجروح سلطان پوری کو الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کا
سلطان بھی کہا جاتا ہے انکا اصل نام اسرار الحسن خان تھا ہندوستانی ریاست
اتر پردیش کے ایک موضع سلطان پور میں پیدا ہوئے اردو، فارسی اور عربی میں
آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی پھر 1938میں آپ نے طبِ یونانی میں بیچلر ڈگری
کے حصول کے ساتھ بطور یونانی حکیم ایک سال کام کیامجروح کا شمار ترقی پسند
تحریک کے صفِ اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا
سوزِ جاناں دل میں سوزِ دیگراں بنتا گیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسمِ چمن
دھیرے دھیرے نغمہ دل بھی فغاں بنتا گیا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغرِ ہر خاص و عام
یوں تو جو آیا وہی پیرِ مغاں بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایانِ شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا
شرحِ غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور
لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا
دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں
میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا
|