پنجاب میں حمزہ شہباز کا حلف ابھی تک نہیں ہوسکا امید ہے
ہائیکورٹ اس بارے میں بھی بہتر فیصلہ دیگی جبکہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف
کی سربراہی میں بننے والی وفاقی کابینہ تقریبا مکمل ہوگئی وفاقی کابینہ میں
مجموعی طور پر 37 اراکین کا اعلان کیا گیا ہے جن میں 30 وفاقی وزرا،4
وزرائے مملکت اور تین مشیر شامل ہیں ان میں مسلم لیگ ن کے 12 وفاقی وزرا،
دو وزرائے برائے مملکت اور دو مشیر،پیپلزپارٹی کے9 وفاقی وزیر2زرائے مملکت
اور ایک مشیر شامل ہیں معیت علمائے اسلام کو چار اور ایم کیو ایم کو دو
وزارتیں ملی ہیں وزرا کا ہلکا پھلکا تعارف بھی ضروری ہے خواجہ محمد آصف
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما ہیں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف اپنی
سیاسی وضع میں دبنگ انسان ہیں متعدد مواقع پر دیے گیے اُن کے کئی بیانات
اور سیاسی چٹکلے موضوعِ بحث رہتے ہیں کیڈٹ کالج حسن ابدال اور گورنمنٹ کالج
لاہور سے تعلیم حاصل کرنے والے خواجہ محمد آصف بینکار بھی رہے 1993 سے 2018
تک وہ مسلسل انتخابات میں فتح یاب ہوتے چلے آ رہے ہیں مسلم لیگ ن کے سابقہ
ادوار میں خواجہ آصف نجکاری کمیشن کے چیئرمین، پیٹرولیم و قدرتی وسائل،
کھیل اور دفاع کے وزیر رہے ہیں میاں نواز شریف کی 2017 میں نااہلی کے بعد
جب شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم منتخب ہوئے تو خواجہ آصف کو وزارتِ خارجہ کا
قلمدان سونپا گیا تھا۔ احسن اقبال مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری ہیں اور نواز
شریف اور شہباز شریف دونوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں 1993 میں پارلیمانی
سیاست کا حصہ بنے 1993 سے 2018 کے دوران چھ مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا
پانچ بار کامیاب ٹھہرے جبکہ '2002 کے الیکشن میں اپنی سیٹ جیتنے میں ناکام
رہے تھے نارووال سے تعلق رکھنے والے احسن اقبال کو 4 اگست 2017 کو وزیرِ
داخلہ کا قلمدان سونپا گیا تھا اس سے قبل یہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی
و ترقی بھی رہے 'احسن اقبال کا گھرانہ سیاست میں نیا نہیں اِن کے نانا
چودھری عبدالرحمن پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رُکن رہے اِن کی والدہ نثار
فاطمہ پاکستانی سیاست میں کسی تعارف کی محتاج نہیں احسن اقبال6 مئی 2018 کو
انتخابات سے قبل اپنے ہی حلقہ میں کارنر میٹنگ کے دوران مسیحی برادری سے
مخاطب تھے کہ ایک شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ زخمی ہوئے
پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں وہ نیب کی حراست میں بھی رہے۔ خواجہ
سعد رفیق کی سیاست کا آغاز80 کی دہائی میں سٹوڈنٹ پالیٹکس سے ہوا جب انھوں
نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے کیا90 کی
دہائی میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا اور 1997کے انتخابات میں انھوں نے
پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کامیابی سمیٹی صوبائی سطح پر سیاست کا
آغاز کرنے والے خواجہ سعد رفیق نے 2002 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ایم این
اے کی سیٹ پر کامیابی حاصل کی 'دوسری باری 2008، تیسری بار 2013 اور چوتھی
بار 2018 کے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے 2018 کے عام انتخابات میں ان کے
حلقہ پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ ان کے مدمقابل عمران خان تھے۔ سابق سپیکر
قومی اسمبلی ایاز صادق کی سیاست کا آغاز پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی کے
ساتھ ہوا تھا تحریکِ انصاف سے وابستگی کی بنیادی وجہ سابق وزیرِ اعظم عمران
خان کے ساتھ اِن کا تعلق تھا عمران خان اور اِن کے مابین دوستی کا تعلق
سکول کے زمانے سے شروع ہوا مشرف کے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد ایاز صادق
نے تحریک انصاف سے راستے جدا کر کے مسلم لیگ ن کے ساتھ جوڑ لیے اورتین بار
مسلسل ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں انھوں نے 1997 کا الیکشن صوبائی سطح پر
پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑا۔
لیکن کامیاب نہ ہو سکے 2013 کے الیکشن میں لاہور کے حلقہ این اے 122 سے
انھوں نے عمران خان کو شکست دی تھی بعدازاں پی ٹی آئی نے جن چار حلقوں کو
کھولنے کا کہا تھا اُن میں ایک یہ حلقہ بھی تھا۔ رانا ثنا اﷲ کی شخصیت میں
’لائل پوری‘ ہونے کی جھلک پائی جاتی ہے یہ مشکل گھڑی میں بھی گفتگو میں
مزاح اور کاٹ کا موقع ضائع نہیں کرتے رانا ثنا مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر ہیں
اِن کی سیاست کا آغاز نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہوا
تھا بعد میں انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اس وقت پارٹی کے
مرکزی رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے یہ وفاقی کابینہ کا پہلی بار حصہ بن
رہے ہیں رانا ثنا پنجاب اسمبلی میں مختلف ادوار میں اہم صوبائی وزارتوں پر
فائز رہے ہیں 17جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے وقت رانا ثنا اﷲ صوبائی
وزیر قانون تھے اس حادثے کے محرکات نے بعدازاں ایک مُدت تک مسلم لیگ ن کے
لیے مشکلات کو جنم دیے رکھا تھا سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت
میں رانا ثنا اﷲ پر منشیات کا کیس بنایا گیا تھا یکم جولائی 2019 کو گرفتار
کیا گیا اور24 دسمبر 2019 کو یہ ضمانت پر رہا ہوئے۔ اعظم نذیر تارڑ کی
بنیادی شہرت ایک معروف قانون دان کی ہے وہ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر پہلی مرتبہ
سینیٹر منتخب ہوئے تھے 'پی ڈی ایم اتحاد سے پیپلز پارٹی کی راہیں جُدا کرنے
کی ایک وجہ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اعظم
نذیر تارڑ کی نامزدگی کو بھی قرار دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے
کہ یہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم کے وکیل تھے اعظم تارڑ پہلی بار وفاقی
کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔ مریم اورنگزیب کی والدہ اور خالہ طویل عرصہ سے مسلم
لیگ ن سے وابستہ ہیں طاہرہ اورنگزیب خواتین کی مخصوس نشست پر مسلم لیگ ن کی
ایم این اے ہیں مریم اورنگزیب کو 2013 کے عام انتخابات میں قائم ہونے والی
مسلم لیگ ن کی حکومت نے اُس وقت وفاقی وزیرِ اطلاعات بنایا جب 29 اکتوبر
2016 کو پرویز رشید کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سے ہٹایا گیا تھا
'مسلم لیگ ن کے لیے یہ ایک کڑا وقت تھا مگر مریم اورنگزیب نے اس عہدے کے
لیے خود کو بہترین چوائس ثابت کیا ’مریم اورنگزیب نے مشکل کی ہر گھڑی میں
اپنے خاندانی روایات کو مقدم رکھتے ہوئے شریف خاندان کا ساتھ دیا۔
مشرف کے دور میں راولپنڈی کے جب سب دروازے کلثوم نواز پر بند ہو چکے تھے
ایک ہی دروازہ ایسا تھا جو نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کا تھا جو اُن کے
لیے کھلا رہتا جس طرح مریم اورنگزیب کی والدہ اور خالہ کلثوم نواز کے ساتھ
کھڑی رہیں اسی طرح مریم اورنگزیب مریم نواز کے لیے ڈٹ کر کھڑی رہی سید
خورشید احمد شاہ سینیئر سیاست دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما
ہیں اِن کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر سکھر سے ہے یہ 1968 سے عملی طور پر سیاست
میں ہیں کالج کے زمانہ میں 1974 میں طلبہ یونین کے نائب صدر پھر چار سال
بعد صدر بن گئے 1979 میں پارٹی کی طرف سے سکھر میونسپل کارپوریشن کے الیکشن
میں حصہ لیا اور جیت گئے اُس وقت ان کی عمر محض 27 برس تھی 1980 میں خورشید
شاہ سکھر میں پارٹی کے صدر بنے 1988 کے انتخابات میں صوبائی سطح کی سیاست
کا آغاز کیا اور ایم پی اے منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی رہے 1990 کے
الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے ان کی کامیابی کا
سلسلہ بلاتعطل 2018 کے عام انتخابات تک جاری رہا 2013 کے انتخابات میں قائم
ہونے والی مسلم لیگ کی حکومت میں یہ اپوزیشن لیڈر تھے ہ 2014 میں جب عمران
خان اور طاہرالقادری کی جماعتوں نے مل کر اسلام آباد دھرنا دے رکھا تھا اور
28 اگست کو عمران خان اور طاہرالقادری نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ
راحیل شریف سے ملاقات کی اگلے روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں سید خورشید شاہ نے
جوش سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے کہا ’وزیراعظم کو ڈٹ جانا چاہیے پھر دیکھتے
ہیں کہ کون جمہوریت کی بساط کو لپیٹتا ہے خورشید شاہ کی سیاست اِن کے لیے
قیدوبند کی صعوبتیں بھی لائی انہیں پہلی مرتبہ 1977 میں جیل ہوئی پھر 1979
میں، 1983 اور 1986 اور پھر 1990 میں جیل کاٹنی پڑی 19ستمبر 2019 کو انہیں
آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 25 ماہ بعد
ضمانت منظور ہونے پر رہا ہوئے۔ سید نوید قمر پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما
ہیں اِن کی سیاست کا آغاز 1988 کے الیکشن سے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر
صوبائی نشست سے ہوا تھا یہ صوبائی وزیرِ اطلاعات بھی رہے 1990 کے انتخابات
میں یہ صوبائی سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر آ گئے اس وقت سے 2018 کے انتخابات
تک یہ ناقابلِ شکست چلے آ رہے ہیں یہ مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں پر
فائز رہے نوید قمر وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل، وزیر برائے
پانی و بجلی اور دفاع کے وزیر بھی رہے 2016 میں انھیں قومی اسمبلی میں
پیپلز پارٹی کا پارلیمانی لیڈر بنایا گیا تھا۔شیری رحمان پاکستان پیپلز
پارٹی کی رہنما ہیں اور انھیں پارٹی میں بڑی حیثیت حاصل ہے شیری 1960 میں
کراچی میں پیدا ہوئیں ان کی والدہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون نائب
صدر ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں ایسا ہی کچھ اعزاز شیری رحمان کے پاس بھی ہے
جب وہ مارچ 2018 میں سینیٹ میں پہلی خاتون قائد حزبِ اختلاف مقرر ہوئیں
شیری رحمان نے امریکہ سے سیاسیات اور آرٹ ہسٹری کی تعلیم حاصل کی شیری
رحمان کا تعلق صحافت سے بھی رہا شیری رحمان 2002 کے انتخابات میں پہلی
مرتبہ پی پی پی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب
ہوئیں اسی طرح دوسری بار یہ 2008 کے الیکشن میں مخصوص نشست پر رُکن منتخب
ہوئیں شیری رحمان وفاقی وزیرِ اطلاعات کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر
بھی رہ چکی ہیں 'شیری رحمان کی پارلیمان میں موجودگی خواتین کے حقوق کی
آئینہ دار بھی رہی ہے۔ کھر خاندان کی حنا ربانی کھر پاکستان کی پہلی خاتون
وزیرِ خارجہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں حنا جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے
علاقہ سنانواں سے تعلق رکھتی ہیں ان کا خاندان سیاست میں کسی تعارف کا
محتاج نہیں جب حنا ربانی کھر نے وزاتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالا تھا تو ان
کی عمر بمشکل 35 برس تھی اور اس بارے میں کہا گیا تھا کہ ایک کم عمر اور کم
تجربہ کار شخصیت کو اہم وزارت سے نواز دیا گیا مگر حنا ربانی کھر نے جب
انڈیا کا دورہ کیا تو لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کیا تھا۔ سندھ سے
تعلق رکھنے والی شازیہ مری کے والد عطا محمد مری قومی اسمبلی و صوبائی
اسمبلی کے رکن رہے ہیں عطا مری سندھ اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر بھی رہے عطا
محمد مری کے والد برطانوی عہد میں قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے شازیہ
مری کی سیاست کا آغاز سندھ اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشست سے انتخابات کی
صورت میں ہوا 2002 اور 2008 میں یہ سندھ اسمبلی کی نشست پر رہیں جولائی
2012 میں سندھ کی مخصوص خواتین نشست پر قومی اسمبلی کی رُکن بن گئیں اس وقت
یہ سانگھڑ کے حلقہ این اے 216 سے ایم این اے ہیں۔ زاہد اکرم درانی، اکرم
خان درانی کے صاحبزادے ہیں اکرم درانی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیئر
رہنما ہیں یہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے 2002 سے 2007 تک خیبر
پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں
|