برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کا استقبال کرتے ہوئے
وزیر اعظم نریندر مودی نے آزادی کا امرت مہوتسو(75 ویں سال کا جشن ) کا ذکر
کیا۔ اس موقع پر جس برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی لڑی گئی تھی اس کے
سربراہ مملکت سے وزیر اعظم نے کہا ان کا ، ’ یہاں آنا، اپنے آپ میں ایک
تاریخی لمحہ ہے‘‘۔ وزیر اعظم نے دورۂ ہند کے دوران جانسن کے ذریعہ سابرمتی
آشرم میں مہاتما گاندھی کو گلہائے عقیدت پیش کرنے کی توصیف کی کیونکہ ی
گاندھی جی نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا اور اس کی پاداش میں انہیں کئی بار
سابرمتی جیل میں جانا پڑا تھا ۔ اس تقریب سے دو دن قبل وزیر اعظم نے گرو
تیغ بہادر سے متعلق لال قلع میں منعقد ہونے والی تقریب میں بڑی تفصیل کے
ساتھ اورنگ زیب کا ذکر کیا تھا کر کے ایک ظالم و سفاک بادشاہ ثابت کرنے کی
سعی کی لیکن انگریزی سامراج کے خلاف ایک لفظ زبان پر لانے کی جرأت نہیں
کرسکے۔ کیا یہ اس لیے کیا گیا کہ ان سے معافی تلافی کے بعد وفاداری کے عہدو
پیمان اور ساز باز ہوچکی تھی ؟
مودی جی کے ذریعہ بورس جانسن کی تعریف و توصیف کا سبب یہ بھی تھا کہ ایک دن
قبل وہ جے سی بی فیکٹری کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے بلڈوزر پر چڑھ کر
مسکراتی تصویر گھنچوائی تھی ۔ فی الحال ملک کے اندر بلڈوزر اسی ظلم و جبر
کی علامت بنا ہوا انگریزحکمراں آزادی کے متوالوں کے ساتھ روا رکھتے تھے ۔
یہ جان کر بورس جانسن کا احساسِ جرم کم ہوا ہوگا بلکہ خوشی ہوئی ہوگی کہ
ہندوستان میں سامراجی روایات کا اب بھی بول بالہ ہے۔ اس کے باوجود برطانوی
وزیراعظم نے ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا ۔ 100 سال قبل،
جس جگہ برطانوی حکومت نے گاندھی جی کو غداری کی سزا دی تھی اسی سابرمتی
آشرم میں چرخہ کات کر بورس جانسن گاندھی جی کے نظریات سے اتفاق کا اظہار
کیا۔اس وقت بورس جانسن کے شانہ بشانہ فی زمانہ اظہار رائے کی آزادی اور
حقوق کے لیے صدائے احتجاج بلند کرنے والے بے قصور لوگوں پر غداری کے مقدمات
چلا کر جیل بھیجنے والے کھڑے تھے۔
بی جے پی نے بلڈوزر کو کس بات کی علامت بنادیا ہے اگر برطانوی وزیر اعظم
نہیں جانتے کہ تو انہیں راجیہ سبھا کے رکن جی وی ایل نرسمہا راؤ کا ٹویٹ
دیکھ لینا چاہیے جس میں لکھا ہے،’جے سی بی کا مطلب ’’جہاد کنٹرول بورڈ‘ (
جے سی بی= جہاد کنٹرول بورڈ)‘‘۔ اس ٹویٹ پر تنازع کے بعد اسے ڈیلیٹ کر دیا
گیا۔ کاش کے برطانوی وزیر اعظم اتنے بھولے نہ ہوتے یا نہ بنتے ۔ کیا انہوں
نے آزادی کے 75سال بھی ہندوستانی عوام کو بیوقوف سمجھ رکھا ہے یا احمق
بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسا اگر ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم نےجس عظیم جمہوریت کی تعریف کی اس کو ثابت کرنے کا کام
ان کے پرانے باجگذاروں نے گجرات کے رکن اسمبلی اور دلت رہنما جگنیش میوانی
کو گرفتار کرکے کردیا۔ ایک ٹویٹ کی پاداش میں انہیں گرفتار کرکے آسام
لےجایا گیا اور ضمانت ملنے پر ایک اور مقدمہ میں پھنسا کر ثابت کردیا کہ
انگریز استاد تو گڑُ تھےمگرشاگرد شکر نکل گئے۔ جگنیش میوانی پر یہ عتاب
وزیر اعظم کے خلاف ایک ٹویٹ پر درج مقدمے کے سبب آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
آسام پولس کو مرچی کیوں لگ گئی؟ اس ٹویٹ کا پہلا جملہ تھا کہ ،’’ گوڈسے کو
اپنا معبود ماننے والے وزیر اعظم نریندر مودی 20تاریخ سے گجرات کے دورے پر
ہیں‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم نے گوڈسے کو اپنا معبود نہیں کہا بلکہ جب بی
جے پی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر نے ناتھو رام گوڈسے کی تعریف کی تو اس پر
شدید رنج و غم کا اظہار کیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زبانی جمع خرچ
کے باوجود پرگیہ ٹھاکر پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی الٹا ایوان پارلیمان
میں قومی سلامتی کے امور کی کمیٹی کا رکن نامزد کردیا گیا ۔ پرگیا کے علاوہ
بی جے پی کے اور بھی کئی منہ زور رہنما گوڈسے کی تعریف اور گاندھی جی کی
توہین کرتے رہتے ہیں ۔ ہندو مہا سبھا کے رہنماتو گوڈسے کو خراج عقیدت پیش
کرنے کی خاطر ہر سال گاندھی جی کی تصویر پر گولی چلا کر ویڈیو کی تشہیر
کرتے ہیں لیکن ان کا بال بیکہ نہیں ہوتا۔ جگنیش تو خوش قسمت ہیں جو ان پر
یو اے پی اے یا غداری کا الزام نہیں لگا ورنہ شاہین باغ کی جدوجہد میں شامل
عمر خالد جیسے کئی بے قصور قید و بند کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ بھیما کورے
گاوں کے فرضی مقدمات میں پھنسائے گئے نولکھا جیسے دانشور جیل میں ہیں لیکن
گوڈسے نوازوں کو بی جے پی کی ریاستی اور مرکزی حکومت کی پشت پناہی حاصل
رہتی ہے۔ اس لیے مودی جی اس الزام سے بہ آسانی بچ نہیں سکتے ۔
جگنیش میوانی نے آگے لکھا ،’ان (وزیر اعظم) سے اپیل ہے کہ گجرات میں ہمت
نگر ، کھمبات (اور) ویراول میں جو قومی حادثات ( فرقہ وارانہ فسادات) ہوئے
ہیں اس کے خلاف شانتی اور امن کی اپیل کریں ۔ مہاتما مندر کے معمار سے اتنی
امید تو بنتی ہے‘‘۔ ہنومان جینتی کے موقع پر گجرات کے ان مقامات پر فساد
پھوٹ پڑا تھا۔ ایسے میں وزیر اعظم سے گاندھی مندر کاواسطہ دے کر امن و امان
کی اپیل کی گزارش جرم ہے؟ لیکن آسام میں بی جے پی رہنما اروپ کمار ڈے کی
دل آزاری ہوگئی ۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ جگنیش میوانی کا ٹویٹ ’ممکنہ
طور پر ایک مخصوص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عوام کے ایک حصے کو بھڑکا
سکتا ہے‘۔ وہ مخصوص کمیونٹی کون ہے؟ اس کا ایک حصہ بھلا امن و امان کی اپیل
پر کیوں بھڑکے گا ؟ یہ سوالات اہم ہیں ۔ بظاہر تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ
جن لوگوں نے جلوس نکالا اور اشتعال انگیز نعرے لگا کر فساد برپا کیا وہی اس
سے بھڑکے گا ؟ اگر ایسا ہے توکیا وزیر اعظم سے انہیں سمجھا بجھا کر پر امن
نہیں کرنے کی گہار لگا نے میں غلط کیا ہے؟
بی جے پی کے ترجمان ٹی وی چینلس پر اروپ ڈے کی شکایت سے پلہّ جھاڑتے ہیں
پھر بھی میوانی پر مجرمانہ سازش، عبادت گاہ سے متعلق جرائم، مذہبی جذبات کو
ٹھیس پہنچانے اور امن میں خلل ڈالنے کے الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں ۔ کسی
ٹٹ پونجیہ بی جے پی رہنما کے خلاف بھی اس طرح کی بے بنیاد ایف آئی آر نہ
لکھی جائے گی اور نہ کوئی اقدام ہوگا لیکن چونکہ ایک سیاسی سازش کے تحت
جگنیش کو پھنسانا اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کو ڈرانا مقصود تھا اس لیے
بلاتاخیر آسام کی پولیس ٹیم کو کوکراجھارسے پالن پور کا قصد کرکے گرفتار
کیا اور لے گئی۔ اس ظالمانہ کارروائی کو جگنیش میوانی نےبجا طور پر وزیر
اعظم کے دفتر کی ’ انتقامی سیاست‘قرار دیا۔ پچھلی بار آزاد امیدوار کی
حیثیت سے کامیاب ہونے والے رکن اسمبلی میوانی کا اس بارکانگریس کے ٹکٹ
پرالیکشن لڑنااصل مسئلہ ہے ۔ اس سال گجرات انتخاب میں بی جے پی کی حالت
پتلی ہے اس لیے وہ گاجر اور ہنٹر کی حکمت عملی ا پنا رہی ہے۔ ہاردک پٹیل کو
زعفرانی گاجر کھلاکر اپنا بنا لیا۔ میوانی پر یہ حربہ نہیں چلا تو ہنٹر
برسائے جارہے ہیں ۔ انگریزوں نے بھی ساورکر کو گاجر کھلا کر گاندھی پر ہنٹر
برسائے تھے۔
جگنیش میوانی کو پہلی ہی سماعت میں عدالت نے ضمانت دے دی لیکن برپیٹا پولیس
انہیں نےانہیں ایک نئےمعاملہ میں فوراً گرفتار کر لیا ۔جگنیش پر اب آسام
پولیس کی ایک خاتون سے گالی گلوچ کرنے ، سرکاری کاموں میں رکاوٹ ڈالنے اور
حملہ کرنے کا الزام ہے۔ جگنیش پر کوکرا جھار میں حراست کے دوران ان جرائم
کے ارتکاب کا الزام تو لگا دیا گیا لیکن کیا پیشے سے وکیل میوانی ایسی
جرأت کرسکتا ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ اس خاتون اہلکار نے کوکرا جھار سے
برپیٹا جاکر مقدمہ درج کرانے کی زحمت کیوں کی؟ انتظامیہ کی اس حرکت نے
میوانی کے انتقامی کارروائی والے الزام کی توثیق کردی ۔
جگنیش میوانی کا قصور یہ ہے کہ دلت سماج کے ایک نوجوان ، پر جوش اور مضبوط
رہنما ہے۔ انہوں نے گاندھی جی کی ڈانڈی یاترا سے تحریک لے کر دلتوں کی
اسمیتا یاترا یاترا کا اہتمام کیاتھا۔کانگریس نے جگنیش کی گرفتاری کو
جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار
جرم نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت خود امبیڈکر کے آئین پر حملہ کررہی ہے۔ ایک
دلت کو اس طرح ہراساں کرنا سراسر جرم ہے۔ آخری سوال یہ ہے کہ گجرات سے
آسام تک بی جے پی کے کروڈوں بہی خواہ ہیں۔ اس ٹویٹ سے آخر ان کے جذبات کو
ٹھیس کیوں نہیں پہنچی ؟ گجرات سےا نہیں آسام لے جانے کی ضرورت کیوں پیش
آئی؟ گجرات میں ان کی گرفتاری کا زبردست ردعمل ہوسکتا تھا۔ ان کے تئیں
ہمدردی کا کانگریس کو فائدہ ہوسکتا تھا اس لیے آسام لے جایا گیا لیکن بی
جے پی کو یاد رکھنا چاہیے کہ فی الحال جدید ذرائع نے دنیا کو ایک گاوں
بنادیا ہے۔ اب اگر جگنیش جیسے کسی رہنما کو آسام کے بجائے ٹمبک ٹو بھی لے
جایا جائے تو اس کی قیمت بی جے پی کو چکانی پڑے گی ۔ ویسے جگنیش جیسے لوگوں
کے لیے جالب نے کیا خوب کہا؎
ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں
|