اقتدار سے محرومی کے بعد جارحانہ روئیے کے ساتھ سڑکوں پر
آ نے سے بادی ٔ النظر یہی لگتا ہے کہ جب کہا تھا کہ خطرناک ہوجائوں گا ،
تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ واقعتاً اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ’’
خطرناک ‘‘ ہوتے جارہے ہیں ، اس حوالے سے ملکی مفاد میں سب سے پہلی گذارش
یہی ہے کہ چونکہ آپ اپنی ضد اور طبعاً تیز ہیں ، جس کی وجہ سے اپنے بیانات
اور اعلانات حتیٰ کہ اقدامات تک میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں ، اس قسم کی
جلد بازی ہنگامی حالات برپا کرنے کے لیے تو اپنے تئیں یہ سب کچھ مفید طلب
ہوسکتا ہے ، لیکن یہ دھیان ضرور دیں کہ جس شخص کے ہاتھ میں زمام ِ تقدیر ہو
، اسے بردبار اور متحمل مزاج ہونا چاہیے ، اسے بڑی احتیاط سے سنبھل سنبھل
کر چلنا اور ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے ۔ اسے دس بار سوچنے کے
بعد ایک لفظ زبان سے نکالنا چاہیے ۔ انہیں قوم کو ایسے امتحان میں نہیں
ڈالنا چاہیے جسے نباہنے میں عملی دشواریاں ہوں اور کوئی ایسی توقعات وابستہ
نہیں ہونے دینی چاہئیں جن کا پورا ہونا ممکن نہ ہو ۔ ماضی میں جس قدر بڑے
دعوے اور ہنگامی سرگرمیوں کے دوران اس قسم کی جلد بازیاں کی گئیں ، ان کے
مضر نتائج ہمارے سامنے آنے شروع ہوگئے ہیں۔
متعلقین سے بھی گذارش کرتا ہوں کہ وہ بجائے اس کے کہ سارا الزام مخالفین کے
سر پر دھر کر، اپنے آپ کو خوش فہمی میں مبتلا رکھیں ، انہیں چاہیے کہ
محاسبہ خویش کریں ، یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنی جلد بازی میںزمینی حقائق
کو صرف نظر کرکے مفاد عاجلہ کے حصول کے لیے عوام میں اس قسم کے تاثرات پیدا
کردیئے تھے اور اہل دانش انہیں بار بار متنبہ کرتے تھے کہ عوام میں اس قسم
کی توقعات پیدا کردینا بڑا خطرناک ثابت ہوگا ۔ اہل علم نے جو کہا تھا کہ ’
تبدیلی یا انقلاب فکر سے برپا ہوتا ہے ہنگاموں سے نہیں ‘ تو اس کا مطلب یہی
تھا کہ آپ ’’ اقتصادیات کے گورکھ دھندوں ، روپے کی قدر اور قیمت خرید و
فروخت کی جزئیات ‘‘کو عوام کے ذہن نشین کرائیں اور اس کے بعد انہیں بتائیں
کہ تبدیلیاں کیسے لائی جائیں گی ، لیکن شومئی قسمت کہ یہ سب کچھ کرنے میں
ناکام ہوئے۔
ڈیلیور نہ کرنے کا نتیجہ سامنے ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ جمہوری نظام میں
مخالفین ، حکمران جماعت کے پروگراموں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے
ہیں اس میں خامیاں تلاش کرتے ہیں، حزب اقتدار خوبیاں گنواتے اور حزب اختلاف
اس میں سے کوتاہیوں کی تلاش میں رہتے ہیں،ایسا آپ کے ساتھ ہوا ، تو یہ سب
خود توآپ بھی کرچکے تھے جب اپوزیشن میں تھے ، اب یہ سب کچھ دوبارہ ہورہا
ہے ، تلخ تجربات کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئی ، تبدیلی اوپر سے آتی ہے کہ
حزب اختلاف کو موقع ہی نہیں ملتا ، لیکن موقع ہی نہیں بلکہ عوام کی توقعات
کی چنگاریوں کو فضا میں پھینک دی، تو بھلا سوچئے کہ مخالفین انہیں ہوا دے
کر شعلوں میں تبدیل کرنے میں کیسے کامیاب نہ ہوتے ۔
آپ سے اب بھی یہ گذارش ہے کہ آپ کے ارباب دانش و بنیش(گر ہیں) سر جوڑ کر
بیٹھیں، حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں، اپنا نصب العین متعین کریں اور
پھر عوام کو سمجھائیں کہ اس نصب العین تک کس طرح آہستہ آہستہ بتدریج
پہنچا جاسکتا تھا اور ہے ، اور اب بھی انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے
گا ، اور مشکلات کا سامنا کیوں کرنا پڑا۔ اسے سن رکھیئے اور ہزار بار سن
رکھیئے کہ ’صحیح انقلاب‘ فکر کی رو سے برپا کیا جاتا ہے ہنگاموںسے نہیں ۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ جب پروگرام کے ساتھ ریاست مدینہ کی وابستگی لازمی
قرار دیتے ہیں تو یہ نہایت ضروری ہے کہ اسلام کا صحیح تصور آپ اور سب کے
سامنے ہو ، ایسا کہنے میںنہ تو کسی کی تحقیر یا تنقیس مقصود ہے اور نہ ہی
اپنی تعلی مطلوب ۔ یہ ایک حقیقت نفسی الامری کا اظہار ہے ۔ اب جب کہ حزب
اقتدار میں رہنے کے بعد ، آپ دوبارہ حزب اختلاف میں آچکے ، تو افسوس ہوتا
ہے کہ پھر اپنی عادۃ جلد بازی سے کام لے رہے ہیں،ریاستی اداروں کے خلاف جو
بیانیہ بن رہا ہے ، اس کے مضر اثرات کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا ، آئین و
قوانین سازی میں آپ کو تمام اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کا عمل کرنا چاہیے تھا
لیکن جمہوری نظام کے اس اہم کلید کو ہی نظر انداز کردیا اور کہہ بیٹھے کہ
آپ ان کے ساتھ بیٹھنا ہی پسند نہیں کرتے ، وغیرہ وغیرہ ۔ ظاہر اً لگتا ہے
کہ محض روش عامہ کی تقلید میں ایسا کہہ دیا ہو ، ورنہ اگر اس کا صحیح مفہوم
کا ادرک کرتے تو ریاست مدینہ اور موجودہ جمہوری نظام کے درمیا ن واضح فرق
کو جان کر اس کے عملی عواقب کا اندازہ لگاتے تو کبھی ایسا نہ کہتے ۔
اگر فی الواقعہ پاکستا ن میں صاف و شفاف انتخابات پر یقین رکھتے ہوئے
دھاندلی اور سلیکشن کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کی آسان ترین شکل ایک
ہی ہے ، یعنی سرمایہ کے بجائے اہلیت و قابلیت پر انتخابات ، سرمایہ بجائے
خویش کوئی قوت اپنے اندر نہیں رکھتا لیکن سرمایہ دار اپنے سرمائے سے قوت و
ضمیر خریدتاہے اور جمہور ی انداز ِ حکومت کے معنی ہوتے ہیں۔ مجالس قوانین
ساز میں موثر مقام کا حصول انتخابات کے موجودہ نظام کی رو سے ان مجالس میں
نشستیں سرمایہ کے زور سے حاصل ہوتی ہیں ، اس کی ابتدا ، سیاسی جماعت کی
جانب سے ٹکٹ کی فراہمی سے ہی شروع ہوجاتی ہیں کہ جس کے پاس سرمایہ ہے وہی
انتخابات کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے ، اُسے ہی ترجیحاً ٹکٹ دیا جاتا ہے،
اس میں تعلیم، اہلیت اور قابلیت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے ، یونیورسٹیوں
کے وائس چانسلر میٹرک پاس تو وزیر تعلیم ان پڑھ لگا دیئے جاتے ہیں۔
طرفہ تماشا کہ جنہوں نے کبھی گھر کا بجٹ نہیں بنایا وہ قوم کو معیشت کے
بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔ ایوان میں ارباب ِ فکر و نظر ، اصحاب دانش و بنیش
اور ماہرین علوم و فنون کو فوقیت دینا چاہیے ناکہ سرمایہ اور اقربا پروری
اور مورثیت کے نام پر فروعی وابستگی کی بنا پر عوام کے سامنے جواب دہ کئے
بغیر نوازنا ۔سادگی و خود داری کے بیان کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا
لیجئے پھر دیکھئے کہ ملک کس طرح نہ صرف خود کفیل ، بلکہ دوسروں کی کفالت کی
ذمہ داری بھی اپنے سر لینے کے قابل ہوجاتا ہے۔
|