لیڈر نڈر،اس کابیانیہ جاندار اورسچائی کا آئینہ دار
ہوتوپژمردہ ریاست اورمردہ سیاست میں بھی جان پڑجاتی ہے۔ جہاں مخلص قیادت
کاقحط ختم ہوجائے وہاں کئی دہائیوں سے خوابیدہ لوگ اپنے نجی روگ بھول
کربیدار ہوجاتے ہیں۔ پاکستانیوں کو اب مہنگائی یادنہیں ،وہ دیوانہ وارکپتان
پر اپنا قیمتی وقت اوراپنے وسائل تک نچھاورکر رہے ہیں، اوورسیزپاکستانیوں
کی طرف سے کپتان کو اندرون ملک آمدورفت کیلئے عنقریب جدیدہیلی کاپٹرکاتحفہ
دیاجائے گا ۔عوام نے اپنااجتماعی فیصلہ اپنے کپتان کے حق میں سنادیالہٰذاء
اب عمران خان سوچ بچاراور اپنی اہلیہ کی بجائے اپنے سیاسی مشیروں سے مشاورت
کے بعددرست اور دوررس فیصلے کریں۔کپتان اجتماعات میں مختصر تقریرکریں جس
میں تاثیر ہو ۔وہ اپنے خطاب میں سیاستدانوں کے سیاسی بچوں کومخاطب نہ کریں
،یہ کپتان کے شایان شان نہیں۔بیرونی "مداخلت" کیخلاف کپتان کی بھرپورسیاسی"
مزاحمت" اوراپنے بیانیہ پراستقامت بازی پلٹ دے گی۔ خوددار پاکستان کے داعی
کپتان کی جان کوخطرہ ہے ،وہ انتہائی محتاط رہیں۔ اس تناظر میں سکیورٹی
فورسزکواپنا مزیدمستعد کرداراداکرناہوگا۔عمران خان سیاسی چیلنجز کامقابلہ
کرنے کیلئے پی ٹی آئی کوایک منظم اورمتحرک سیاسی جماعت بنانے پرفوکس اور
اپنی زندگی میں متبادل قیادت کاتعین کریں جوخدانخواستہ کسی سانحہ کے باوجود
منتشر نہیں بلکہ مزید متحد ہو اورریاستی نظام کی تبدیلی کاخواب شرمندہ
تعبیر کرے۔کپتان بحیثیت وزیراعظم جوش میں سیاسی غلطیاں کرتے رہے ہیں اسلئے
خوداپنامحاسبہ اورمستقبل میں انہیں دہرانے سے گریزکریں ۔میں نے 2018ء کے
اختتام پر لکھا تھا ، بزدار کوبچاتے بچاتے ایک دن کپتان اپناآئینی منصب
داؤپرلگابیٹھیں گے ۔بزدار کووزیراعلیٰ بناناکپتان کاایک بلنڈر تھا اوراسے
اس کاخمیازہ بھگتنا پڑا، لاہور کے حالیہ اجتماع میں پھر سے بزدار
کوسراہاجانابدترین حماقت ہے،اس رات وہاں عثمان" بزدار"نہیں "بردبار" چوہدری
پرویزالٰہی کی ضرورت تھی۔کپتان اپنی ٹیم سے" بزداروں" کونکال
باہراور"بردباروں" کوشامل کریں۔انہیں پنجاب کے سابقہ گورنر اورزیرک
سیاستدان سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ ،بلوچستان کے سابقہ وزیراعلیٰ
اوردوراندیش سیاستدان نواب غوث بخش باروزئی،پنجا ب کے نیک نام اورپروفیشنل
آئی جی (ریٹائرڈ) حاجی محمدحبیب الرحمن، جسٹس (ر) وجیح الدین احمد
،ممتازقانون دان حامدخان سے دانامشیروں اورشہرقائدؒ سے پی ایس پی کی صورت
میں اتحادی جماعت کی ضرورت ہے،سیّد مصطفی کمال ایک سلجھی ہوئی سیاسی شخصیت
اورمخلص ومدبر مشیر ہیں۔جہانگیر ترین سمیت جوروٹھ اورپیچھے چھوٹ گئے انہیں
بھی منایاجاسکتا ہے ۔
ایوان اقتدار سے کپتان کی واپسی کے بعدقومی ضمیر کااجتماعی ری ایکشن کیا
ہوگا،ضمیر فروش ہرگزآگاہ اور اس کیلئے تیار نہیں تھے۔عوامی عدالت نے کپتان
کیخلاف قومی چوروں کی چارج شیٹ مسترد کردی ۔ متحدہ اپوزیشن کے نزدیک جو
کپتان مسند اقتدار کیلئے "معقول" نہیں تھا وہ راتوں رات "مقبول" جبکہ
اوورسیزپاکستانیوں سمیت اپنے ہموطنوں کا محبوب بن گیا ۔اپوزیشن کیمپ کے وہ
سیاستدان جو"انتخابی سیاست "کررہے تھے،قدرت نے ان کے مدمقابل کپتان کو
"انقلابی سیاست "کااستعارہ بنادیا ۔بیرونی مداخلت اوراندرونی سازش کے بل پر
کپتان کواقتدار سے ہٹانے کے باوجود پاکستان کے دشمن اسے اپنے مفادات
اوراہداف کیلئے بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں لہٰذاء پاکستانیوں کوپاکستان،افواج
پاکستان اورکپتان کواپنی دعاؤں اوروفاؤں کامحوربناناہوگا ۔میں نہیں کہتا
عمران خان جھوٹ نہیں بولتا لیکن اس کی طرف سے بیرونی مداخلت کیخلاف مزاحمتی
سیاست اور سچائی تک رسائی میرجعفر کی باقیات کیلئے رسوائی بن گئی ہے۔کپتان
نے پاکستان کے ساتھ سودوزیاں سے بے نیاز دوستی کاحق اداکرتے ہوئے اس کے
بیرونی واندرونی دشمنوں کوایک ساتھ بے نقاب اورچیلنج کردیاہے۔اس کابیانیہ
زبان زدعام ہے ،سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے خوددارپاکستان اورکپتان کے حامی
چھائے ہوئے ہیں۔میں مراسلہ منظرعام پرآنے تک عمران خان کانقاد تھا لیکن آج
اس کی پاکستانیت کا مداح ہوں۔بیرونی آقاؤں کے آشیر باد سے ڈیڑھ برس کیلئے
اقتدارمیں آنیوالے کرداروں کولگتا ہے کپتا ن تاحیات نااہل جبکہ تخت اسلام
آبادمستقل طورپر ان کا ہوجائے گا ۔ یادرکھیں الزام اورانتقام کی سیاست
عمران خان کاراستہ نہیں روک سکتی ۔میں نے کپتان کے بیان سے دوسال قبل کہا
تھا ،"کپتان ایوانوں سے زیادہ میدانوں میں خطرناک ہوگا"۔
اسٹیبلشمنٹ نے ہرجماعت کواینٹی اسٹیبلشمنٹ بنانے کابیڑا کیوں اٹھالیا
ہے۔پاکستان کواپنی طفیلی ریاست بنانے اور کپتان کواقتدار سے ہٹانے کیلئے
امریکا کی مداخلت ایک زندہ اورناقابل تردید حقیقت ہے، تاہم اسے
مستردکرنیوالے محض اپنی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں ۔قومی سیاست میں
سرگرم مخصوص میرجعفر تواپنی فطرت سے مجبور ہیں لیکن افسوس حالیہ" مداخلت
"کیلئے اسٹیبلشمنٹ کاکندھا بھی استعمال ہوا۔اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوتی
توبھی نیب زدگان کاگٹھ جوڑ کپتان کوکسی قسم کا سیاسی نقصان نہیں پہنچاسکتا
تھا،یادرکھیں کپتا ن کواقتدار سے ہٹانا" آبیل مجھے مار" کے مصداق ہے ۔
کپتان کے کامیاب عوامی" اجتماعات "حکمران اتحاد کے "مفادات" پرکاری ضرب
لگارہے ہیں۔واشنگٹن کی ڈکٹیشن اورگارنٹی پراینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھی جانیوالی
پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کوکپتان کیخلاف متحد اورتحریک عدم
اعتماد پر آمادہ جبکہ ان کی کامیابی کیلئے راستہ ہموار کیاگیاتھالیکن
حکمران اتحاد کی پروپیگنڈا مہم کے باوجود "پاکستان" نے "کپتان" کاہاتھ تھام
لیا ہے۔پروفیشنل اورزندہ ضمیرسفیر اسدمجید کامراسلہ حکومت اوراسٹیبلشمنٹ
کیلئے خطرناک دلدل کی مانند ہے، وہ بچاؤکیلئے جس قدرہاتھوں پاؤں مار رہے
ہیں اس قدر گہرائی میں اترتے جارہے ہیں ۔اتحادی حکومت کی صفائیاں
اوردوہائیاں کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ مجھے گمان تھا جہاں
سیاستدانوں کی دانائی ختم ہوتی ہے وہاں سے اسٹیبلشمنٹ کے لوگ سوچنا شروع
کرتے ہیں لیکن افسوس ایسا نہیں ہے۔ہمارے ہاں ہرمقتدراورطاقتور
خودکوریاست،ہر درازقدخودکوقدآور سمجھتا جبکہ اپنے مدمقابل کوانڈراسٹیمیٹ
کرتا ہے۔ کاش اسٹیبلشمنٹ پرسوجوتے اورسوپیازکامحاورہ صادق نہ آتا ۔افسوس
اسٹیبلشمنٹ کے چند بڑے بھی اپنی اناکے اسیر ہیں اورانہوں نے پی ٹی آئی
حکومت گراتے گراتے عجلت میں ریاست کیخلاف راست اقدام کردیا۔اس وقت پاکستان
اوراس کے قومی وسائل نیب زدگان اورمنی لانڈرز کے رحم وکرم پر
ہیں،اسٹیبلشمنٹ کے مقتدر کردار توریٹائرمنٹ کے بعد شایدبیرون ملک منتقل
ہوجائیں لیکن ان کی متنازعہ مہم جوئی کی قیمت ہماری آئندہ نسلیں بھی چکاتی
رہیں گی ۔جوشعبدہ باز انتظامی صلاحیت کیلئے جانا جاتا ہے،کوئی باشعور
اورسنجیدہ انسان اس کی انتقامی سیاست اورمصنوعی فراست سے انکار نہیں
کرسکتا،میں نے اسے برسوں بہت قریب سے دیکھاہے۔اس کے بارے میں جوعمومی تاثر
پایا جاتا ہے وہ "سراب" کے سوا کچھ نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کی منتقم مزاجی نے
ہماری معاشی چیلنجز سے نبردآزما ریاست کو موروثی سیاست کی آگ میں جھونک
دیا۔موروثی سیاست کی نحوست ریاست اورسیاست کوبانجھ بنادے گی۔بہت دکھ کے
ساتھ کہتا ہوں،اسٹیبلشمنٹ میں اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں۔ریاست
کی سا لمیت کیلئے آئین میں ترمیم کی جاسکتی ہے لیکن آئین کیلئے ریاست
کاوجود داؤپر نہیں لگایاجاسکتا۔اگرکپتان غلطیاں اورمن مانیاں کرتا رہا
تواسٹیبلشمنٹ نے بھی حالیہ دنوں میں جذباتی اورعاقبت نااندیشانہ اقدامات
اٹھائے ہیں۔غلطی کاجواب غلطی نہیں ہوتا،مانا عمران خان کچھ معاملات میں
اسٹیبلشمنٹ کی نہیں سنتا تھا لیکن اب جوآئے ہیں وہ توبیرونی قوتوں کی سنتے
ہیں ۔کپتان کو"گندا" کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ "گند "میں کیوں اتر گئی اوران
کرداروں کے ساتھ کیوں بیٹھ گئی جوپاکستان کے محروم طبقات کی نفرت کانشانہ
بنے ہوئے ہیں۔قوم کی قومی چوروں سے بیزاری اورسیاسی بیداری فطری ہے، سوشل
میڈیا پرچندمخصوص افراد پرتنقید کوریاستی اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی
قراردیناہرگزدرست نہیں ۔یادرکھیں عزت منصب ،درازقدیااقتدار نہیں بلکہ کردار
کی بنیادپرملتی ہے۔
انسانوں اورریاستی" اداروں" کے فیصلے ان کے" ارادوں" کو ظاہر کرتے ہیں۔
مخصوص "فیصلے "آنے سے عوام اوراداروں کے درمیان "فاصلے"مزید بڑھ یا گھٹ
جاتے ہیں۔ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست منصف پر عدم اعتماد یا تنقید نہیں
بلکہ انصاف اورسچائی تک رسائی کا راستہ ہے۔ ماضی میں بھی پانج ججوں کے
فیصلے ہزاروں انسانوں کے اجتماعات میں زیر بحث آتے رہے ہیں اور یقینا آئندہ
بھی ان پر بات چیت ہوتی رہے گی۔ جس طرح عدالت اہم ہے اس طرح عوامی عدالت کی
اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،عوامی طاقت اورعوامی عدالت ایک زندہ
وتابندہ حقیقت ہیں۔ اگر پارلیمنٹ سپریم ہے تو پارلیمنٹ بنانیوا لے عوام
ریاستی اداروں سے بھی سپریم ہیں۔عوام کی طاقت سے پاکستان جیسی آزادریاست
معرض وجود میں آئی تھی اورپھرریاستی ادارے بنے تھے۔ میں سمجھتا ہوں فیصلے
تاریخ کی امانت ہوتے ہیں ، ان پر تنقید ہونا فطری ہے تاہم تنقید کی آڑ میں
توہین کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی۔ماضی میں عدالت عظمیٰ کی عمارت پربراہ
راست حملے میں ملوث جماعت کو آج عدلیہ کے تقدس کی علمبردار کہنا عوام کوہضم
نہیں ہورہا۔مہذب ملکوں میں جو منصف اپنے زندہ ضمیر کی آوازپر فیصلے کرتے
ہیں وہ قومی ضمیر کی تنقید کی پرواہ نہیں کرتے۔ انسان کو پیدا کرنیوالے
معبود برحق نے بھی تقدیر پر تنقید کا حق نہیں چھینا ، لوگ اپنی تقدیرپرکاتب
تقدیر سے شکوے کرتے ہیں اوربیشک اﷲ رب العزت تقدیرتبدیل کرنے پرقادر ہے۔
یادرکھیں دباؤ کے نتیجہ میں خاموشی گھٹن میں بدل جاتی ہے اور خاموش تو شہر
خموشاں ہوا کرتے ہیں۔ زندہ ضمیر انسان جو محسوس کریں اس کی تحسین یااس
پرتنقیدضرور کرتے ہیں۔مینارپاکستان کے سایہ میں کپتان کااشارہ اورمشورہ
درست تھا ،غلطی کرنیوالے مزید غلطیوں کی بجائے اس کامداواکریں۔ |