ملک کی کسی ایک ریاست یاشہر اورخطے میں نہیں بلکہ
شمال سے لیکر جنوب تک جیسے فرقہ وارانہ کشیدگی اور کہی۔ کہیں تشدد کی لہر
سی اٹھ چکی ہے اور لوکل انتظامیہ اور سرکاری سطح پر جو سرگرمیاں دکھائی
جارہی ہیں ،اُس سے محسوس ہوتاہے کہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو منصوبہ بند
طریقے سے نشانہ بنایاجارہاہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کے دانشوروں اور سرکار میں
کام کرنے والوں کوان واقعات نے تشویش میں مبتلاکردیاہے۔پہلے بھی کئی
تنظیموں اور انفرادی طور پر لوگوں نےارباب اقتدار کو مکتوب روانہ کیے ،لیکن
اس مرتبہ ملک کی موجودہ صورت حال پر حکومت بلکہ وزیراعظم نریندر مودی کی
توجہ مبذول کرانے کے لیے ملک بھر کے سوسے زائدسابق بیوروکریٹس نے وزیراعظم
نریندرمودی کو خط لکھاہے۔
مذکورہ خط میں ملک میں پھیلی فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کی سیاست کو ختم
کرنے کی اپیل کی گئی ہے کہ ہم ملک میں نفرت تیزی سے پھیل رہی ہے اور تباہی
کا ماحول دیکھ رہاہے۔ جہاں نہ صرف مسلمان اور دیگر اقلیتی برادر یاں بلکہ
خود آئین بھی حملے کی زد میں ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی کے سابق
لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ ان سابق سرکاری اعلی افسران کی سرپرستی کررہے ہیں
جبکہ سابق قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن ، سابق خارجہ سکر یٹر ی سجا
تا سنگھ ، سابق ہوم سکر یٹری پی کے پئی اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے
چیف سکریٹری ٹی کے اے نائر بھی اس خط پر دستخط کر نے والوں میں شامل ہیں۔
ان سرکاری افسران اور سابق سفارت کاروں نے وزیر اعظم مودی کواس خط کے ذریعے
مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ "امسال جب ہم آزادی کا امرت مہوتسومنار ہے ہیں ،
ہمیں امید ہے کہ وزیر اعظم متعصبانہ رویہ سے ہٹ کر ملک کے تمام فرقوں کے
ساتھ یعنی سب کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے ۔ "انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس
ماحول میں مودی جی کی خاموشی معاشرے میں بڑے خطرے کو پیداکر سکتی ہے،کیونکہ
ہمارے ملک کے بانی رہنماؤں کی تعمیر کردہ دو آئینی عمارتوں کو منہدم کرنے
کی کوشش جاری ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کو سنگین قرار دیتے ہوئے انہوں لکھا ہے کہ یہی سب ہے
کہ وہ وزیراعظم کواس مکتوب کے ذریعہ توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں اور وہ
اپنے دل کی بات کہنے اور اپنے دکھ کا اظہار کرنے پر مجبور ہیں ۔ خط میں
اقلیتی برادری بالخصوص مسلمانوں کا ذکر کیاگیا ہے کہ گزشتہ چند سال بلکہ
حال کے چندمہینوں میں آسام ، گجرات ، ہریانہ ، کرنا تک ، مدھیہ پردیش ، اتر
پردیش ، اتراکھنڈ اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی
حکومت ہے ۔ دہلی جہاں پولیس کا کنٹرول مرکز کے ہاتھ میں ہے ، حالات انتہائی
سنگین ہو چکے ہیں۔اقلیتی فرقہ مایوسی کا شکار ہے،اس لیے مودی سے سب کا ساتھ
سب کا وکاس کے وعدے کو دل سے پورا کرنے کی اپیل کی گئی ہے ۔
یہ سچ ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں نفرت بڑھ رہی ہے ، سابق
سرکاری ملازمین کی حیثیت سے ہم اس صورتحال کا اظہار ان الفاظ میں نہیں کرنا
چاہتے تھے ،لیکن جس طرح سے آئینی ڈھانچہ تباہ ہور ہا ہے اس کے پیش نظر اپنے
غصے اور درد کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ نفرت کے خاتمے کے لیے
وزیراعظم خاموش ہیں اور آئین کو بالائے طاق رکھ کر جو کچھ ہورہا ہے، اس سے
ملک کا ہر ایک امن پسند شہری پریشان ہے ۔
مذکورہ حالات کے پیش نظرغور کیا جائے کہ وزیراعظم مودی کی خاموشی درست نہیں
ہے،قومی سطح پر ان کے نعرے " سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا وشواس"کی
دھجیاں اڑادی گئی ہیں جبکہ آزادی کا امرت مہوتسو کے موقع پر نفرت کی سیاست
کو ختم کرنے کر نے کی پہل ہونی چاہئیے تھی۔کیونکہ جہاں بی جے پی اقتدار میں
ہے ، وہاں سرکاری اداروں اور حکمرانوں کے عمل سے لگتا ہے کہ مسلمانوں کے
خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہے ۔ اب تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے آئین کے بنیادی
اصول اور قانون کی حکمرانی کو اکثریتی قوتوں کے تابع کر دیا گیا ہے جس میں
ریاست مکمل طور پرملوث نظر آتی ہے ۔ انتظامیہ کا غلط استعمال اور سرکاری
طورپر طاقت کا استعمال نہ صرف ایک ہی فرقے کے خلاف تشددبرپاکرنے کے لیے کیا
جا رہا ہے ۔ بلکہ انتظامیہ کو تبد یلی مذہب مخالف قوانین ، گائے کے گوشت پر
پابندی کے قوانین ، غیر قانونی تعمیرات اور قبضات کو ہٹانے، تعلیمی اداروں
میں ڈریس کوڈ وضع کرنے جیسی پابندیوں کے نفاذ کے لیے بھی استعمال کیا جا
رہا ہے ۔ ایسا کیا جارہا ہے تا کہ مسلم معاشرے میں خوف پیدا کیا جا سکے ،یہ
تشویشناک امر ہے کہ معاشرے میں اب جو واقعات پیش آئے ہیں،وہ پہلے ہونے والے
فرقہ وارانہ فسادات سے مختلف ہیں ۔ موجودہ واقعات سے ہندوراشٹر کی بنیاد
تیار کرنے کے لیے ایک ماسٹر ڈیزائن تیار کیا جا رہا ہے ۔ اس کے لیے قانونی
اور آئینی نظام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔قومی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر
وزیراعظم نریندر مودی کی امیج پر بھی اثر پڑرہاہے۔
حال میں مہاراشٹر نو نرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے کے لاؤڈاسپیکر پر اذان
کے خلاف بیان کے بعد مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے کی مہم زور وشور سے جاری
ہے،اور اس مہم میں یوگی حکومت سب سے آگے ہے،اس سے پہلے کچھ دنوں تک حجاب پر
پورے ملک میں شور مچایاگیا،یہ سب ایک سوچی سمجھی منصوبہ بند سازش کا حصہ
ہے۔پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ اکثریتی فرقے کے متعدد
رہنماء اور تنظیموں اور عام آدمی نے اس قسم کی کوششوں کی مذمت کی ہے،مرکزی
وزیر رام داس اٹھاولے نے اعلان کیا ہے کہ مہاراشٹر میں مسجدوں کے سامنے آر
پی آئی کے کارکنان 3 مئی کومسجد کی حفاظت کے لئے کھڑے رہیں گے،جیسا کہ راج
نے الٹی میٹم دیا ہے، اس کا مطلب یہی ہوا کہ اس ملک میں مسلمان تنہا نہیں
ہے بلکہ برادران وطن بھی انکے ساتھ ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب دہلی سمیت ہندوستان کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ
فسادات پھوٹ پڑے ہیں،ہاوڑہ-رانچی شتابدی ایکسپریس ٹرین میں ایک خوشگوار
لمحہ دیکھنے کو ملا، ریل کے کئٹرنگ شعبہ کے عملے نے ایک روزہ دارمسلمان
مسافر کو افطار پیش کرکے حیران کردیا۔
انڈین ریلوے کیٹرنگ اینڈ ٹورازم کارپوریشن (آئی آر سی ٹی سی) کے ایک اہلکار
نے کہاہے کہ ٹرنوں میں نوراتری کے دوران ریلویزاپنے ہندو مسافروں کو "اپواس
کھانا" پیش کرتی ہے، رمضان کے دوران ایسی کوئی سروس دستیاب نہیں ہے۔ تاہم،
گزشتہ ہفتے روزہ دار مسافر کا علم ہونے پرشاہنواز اختر نامی مسافر کو
افطاری کے ساتھ آئی آر سی ٹی سی حکام نے خوشگوار حیرت میں ڈال دیا۔
مسافراختر نے یہ معلومات ٹویٹر پر شیئر کیں اور ٹرین میں پیش کیے گئے کھانے
کی تصویر بھی پوسٹ کی اور "#افطار کے لیے #IndianRailways کا شکریہ بھی ادا
کیا۔ جیسے ہی میں دھنباد میں ہاوڑا #شتابدی پر سوار ہوا، مجھے اپنا ناشتہ
مل گیا۔ میں نے پینٹری والے سے چائے لانے کی درخواست کی کیونکہ میں روزہ سے
ہوں۔ اس نے پوچھ کر تصدیق کی، آپ روزہ ہیں؟، میں نے ہاں میں سر ہلایا، بعد
میں ایک اسٹاف ممبر افطار لے کر آیا،" آئی آر سی ٹی سی حکام نے کہا کہ اختر
کو آن بورڈ کیٹرنگ مینیجر نے ذاتی طور پر افطار فراہم کی تھی۔
اس کے لیے ہاوڑہ-رانچی شتابدی ایکسپریس کےکئٹرنگ شعبہ کی تعریف کی جارہی
ہے،چند شرپسندوں نے جواب میں شر انگیز ٹوئیٹ کیے ہیں،لیکن اس درمیان وزیر
مملکت برائے ریلوے درشناجردوز نے فوری طور پر ٹویٹ کرکے کریڈیٹ لینے کی
کوشش کی ہے کہ "پورا ہندوستانی ریلوے خاندان آپ کے تبصروں سے متاثر ہوا ہے
اور امید ہے کہ آپ نے اچھا کھانا کھایا ہے۔ یہ ایک بہترین مثال ہے کہ
وزیراعظم مودی کی قیادت والی حکومت کس طرح سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب
کا وشواس کے نعرے کے ساتھ کام کرتی ہے۔ جئے ہند، "۔ ہندوستانی عوام اور
مکتوب روانہ کرنے والے بیوروکریٹس بھی یہی چاہتے ہیں،اس سے ایک امید کی کرن
پیدا ہوتی ہے،لیکن مودی جی "چپی تو توڑیں۔"
|