پاکستان میں جمہوریت کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنا جاتا
ہے ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک عام کونسلر بھی اپنے آپ کو حکومت کا حصہ سمجھتے
ہوئے عوام کی خدمت اپنا فرض سمجھے مگر یہاں پر تو وزرا اپنے کاموں کے لیے
کشکول اٹھائے وزیر اعلی اور وزیر اعظم کے پیچھے انکی منت سماجت کررہے ہوتے
ہیں عام انسان جس کرب اور مصیبت سے زندگی گذار تا وہی اسکا اندازہ بھی
کرسکتا ہے شریف انسان چوری کرسکتا ہے نہ ڈاکے مار سکتا ہے وہ ساری عمر محنت
مزدوری کرکے اپنے بچوں کو تعلیم دلواتا ہے اور پھر اسکی جگہ حکمران جماعت
سے تعلق رکھنے والے پارٹی ورکروں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے حکمران اپنی
تقریروں میں فرماتے ہیں کہ کرپشن اس ملک کا مسئلہ نہیں ہے انہوں نے ہمیں اس
چیز کا اتنا عادی کردیا ہے کہ اب ہم بھی چوری ،ڈاکے ،فراد اور لوٹ مار کو
کچھ سمجھتے ہی نہیں کروڑو روپے کا فراڈ کرنے والوں کو جیل میں بھی حقارت کی
نظر سے دیکھا جاتا ہے وہاں پر اسکی عزت ہوتی ہے جو اربوں روپے کا فراڈ
کرچکا ہو چھوٹے چھوٹے چور تو ان بڑے فراڈیوں کے خدمتگار اور مشقتی بنے ہوتے
ہیں جوضمانتی آج کل وزارتوں میں ہیں جب یہ کرپشن کے کیس میں کیمپ جیل میں
بند تھے تو وہاں پر ہر روز بار بی کیو چلتا تھا دعوتیں آڑائی جاتی تھیں جیل
والوں کو تو سب معلوم ہوگاکیونکہ وہاں پربھی لوٹ مار کاایک الگ ہی نظام
موجود ہے اس لوٹ مار کے ہم اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ان لٹیروں کے بغیر
ہم جی نہیں سکتے جس طرح جیل میں قیدی کو تھوڑی سی آزادی مل جائے تو وہ بہت
خوش ہوتا ہے اسی طرح اس سیاسی نظام کی غلامی میں رہتے ہوئے کبھی کبھی تھوڑا
بہت ہم پر مال پانی لگادیا جائے تو ہم خوشی سے پاگل ہو جاتے ہیں ہم سے سے
اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حکمران کھاتے ہیں تو کوئی بات
نہیں کچھ نہ کچھ ہم پر بھی تو لگاتے ہیں خون چوسنے والی یہ وہ بلائیں ہیں
جو تھوڑا تھوڑا کر کے ہمارا خون چوس رہی ہیں اگر ہم نے علامہ اقبال کے
شاہین بننا ہے تو پھر اپنی کرپشن میں ڈوبی ہوئی چونچ توڑنا پڑے گی گندے
پروں کو نوچنا پڑے گانہیں تو اس سیاسی اور جمہوری نظام میں مزدور کا بچہ
مزدور اور حکمران کا بچہ حکمران ہی پیدا ہوتا رہے گا ایک دن آئے گا کہ صرف
چند خاندان ہی معزز اور معتبر ٹھہرتے ہوئے ہم پر مسلط ہو جائیں گے باقی
22کروڑ عوام بھیڑ بکریوں کا ریوڑ ہوگا آپ خود زرا اس سیاسی نظام کا جائزہ
لیں کہ ایک شخص جو جیل میں ہے ووٹ نہیں دے سکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان
جیل میں ہونے کے باوجود بھی الیکشن لڑ سکتا ہے ایساشخص جو کبھی جیل گیا ہو
وہ سرکاری ملازمت نہیں حاصل کرسکتا مگر ایک پاکستانی سیاستدان کتنی بار بھی
جیل جاچکا ہووہ صدر، وزیراعظم،ایم این اے ، ایم پی اے یا کوئی بھی عہدہ
حاصل کرسکتا ہے بینک میں معمولی ملازمت کیلیئے آپ کاگریجویٹ ہونا لازمی ہے
مگر ایک پاکستانی سیاستدان فنانس منسٹر بن سکتاہے وزیر تعلیم بن سکتا ہے
چاہے اسے پڑھنا لکھنا نہ بھی آتا ہو فوج اور پولیس میں ایک عام سپاہی کی
بھرتی کیلیئے میلوں لمبی دوڑ لگانے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور دماغی طور پر
چست درست ہونا بھی ضروری ہوتا ہے البتہ ایک پاکستانی سیاستدان اگرچہ ان
پڑھ، عقل سے پیدل، لاپرواہ، پاگل، لنگڑا یا لولا ہی کیوں نہ ہو وہ وزیراعظم
یا وزیر دفاع بن کر آرمی، نیوی اورایئر فورس کے سربراہان کا باس بن سکتاہے
ایک پاکستانی سیاستدان جس پر متعدد مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہوں اسکے
باوجود وہ تمام قانون نافذ کرنیوالے اداروں کا وزیر داخلہ بن سکتا ہے یہ ہے
وہ نظام جس میں ہم انہیں اپنا خون بھی پیش کرتے ہیں اور انکی خاطر لڑنے
مرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں آپ اس بحری جہاز کی کہانی پڑھیں جس پر ہم
سوار ہیں اور ایک ڈریکولا انسانی روپ میں سوار جو رات ہوتے ہی وہ جہاز پر
سوار کسی انسان کا خون پیتا اور یوں اپنی پیاس بجھاتا ایک روز یہ بحری جہاز
بیچ سمند میں کسی چٹان سے ٹکرا گیالوگ فوراً لائف بوٹس کی طرف بھاگے اس
ڈریکولا کوبھی ایک ہمدرد انسان نے اپنی لائف بوٹ میں سوارکرلیا رات ہوئی
توڈریکولا کو انسانی خون پینے کی پیاس لگی ڈریکولا نے خود کو کہا کہ یہ
بیشرمی ہو گی جو میں اپنے محسن کا خون پیوں اس نیک بندے نے ہی تو مجھے
ڈوبنے سے بچایا ہے میں کس طرح احسان فراموشی کروں؟؟؟ایک دن دو دن تیں دن وہ
اسی دلیل سے خود کو روکتا رہا بلاخر ایک دن دلیل پر فطرت غالب آ گئی اس کے
نفس نے اسے دلیل دی کہ صرف دو گھونٹ ہی پیوں گا اور وہ بھی اس وقت جب محسن
انسان نیند میں ہو گا تاکہ اس کی صحت پر کوئی فرق بھی نہ پڑے اور میری پیاس
بھی تنگ نہ کرے یہ سوچ کر روزانہ اس نے دو دو گھونٹ خون پینا شروع کر دیا
ایک دن اس کا ضمیر پھر جاگا اور اس پر ملامت کرنے لگا کہ تو اس شخص کا خون
پی رہا ہے جو تیرا دوست ہے جس نے نہ صرف تجھے بچایا بلکہ جو مچھلی پکڑتا ہے
اوس کا پانی جمع کرتا ہے اس میں سے تجھے حصہ بھی دیتا ہے یقینا یہ بے شرمی
کی انتہا ہے یہ محسن کشی ہے اس بے شرمی کی زندگی سے تو موت اچھی ڈریکولا نے
فیصلہ کیا کہ اب میں کبھی اپنے محسن کا خون نہیں پیوں گا ایک رات گزری،
دوسری رات گزری، تیسری رات ڈریکولا کا محسن بے چینی سے اٹھا اور بولا تم
خون کیوں نہیں پیتے ڈریکولا حیرت سے بولا کہ تمھیں کیسے پتہ چلا کہ میں
ڈریکولا ہوں اور تمھارا خون پیتا تھا محسن بولا کہ جس دن میں نے تمھیں
بچایا تھا اس دن تمھارے ہاتھ کی ٹھنڈک محسوس کر کے میں سمجھ گیا تھا کہ تم
انسان نہیں ہو ڈریکولا ندامت سے بولا دوست میں شرمندہ ہوں جو میں نے کیا
لیکں اب میرا وعدہ ہے میں مر جاؤنگا لیکن تمھیں نقصان نہیں پہنچاؤں گا محسن
بولا کیوں مجھ سے دشمنی کا اظہار کر رہے ہو پہلے پہل جب تم خون پیتے تھے تو
مجھے تکلیف ہوتی تھی لیکن میں چپ رہتا کہ کہیں تمھیں پتہ نہ چل جائے اور
میں مارا جاوں لیکن اب مجھے خون پلانے کی عادت ہو گئی ہے اور پچھلے تین دن
سے عجیب بے چینی ہے اگر تم نے خون نہ پیا تو میں مر جاوں گا کتنی حیرت کی
بات ہے نا؟؟ بحیثیت قوم ہمیں بھی انہیں گذشتہ 74سالوں سے اپنا خون پلانے کے
عادت ہو چکی ہے ہم اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے خون پینے والوں کو منتخب کرتے
ہیں اور پھر اپنا خون پلا پلا کر انہیں پالتے ہیں تاکہ اگلی دفعہ بھی انہیں
اور انکے بچوں کو منتخب کر سکیں کیونکہ ہمیں بھی خون پلانے کی عادت ہو چکی
ہے خون نہ پلائیں گے تو ہم بھی مر جائیں گے!!!
|